کنور دانش علی کی بی ایس پی سے معطلی: ایک ناقابل فہم فیصلہ

[]

پروفیسر اختر الواسع

ہماری موجودہ پارلیامنٹ میں حزب اختلاف کی صفوں میں جن ممبران نے اپنی جرأت بیان اور ندرت فکر سے اپنی پہچان بنائی ہے ان میں ۲۰۱۹ میں امروہہ سے منتخب ہونے والے کنور دانش علی کا نام بھی نمایاں ہے۔ امروہہ کی نمائندگی مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن نے کانگریس کے ٹکٹ پر تو مولانا اسحاق سنبھلی نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ٹکٹ پر کی۔ یہ امروہہ ہی تھا جس کی نمائندگی ایک ضمنی الیکشن میں کامیابی کے بعد ہندوستانی سیاست کے ایک قد آور رہنما آچاریہ کرپلانی نے بھی کی، لیکن کنور دانش علی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ان تمام مذکورہ بالا پارلیمینٹرینس میں سب سے کم عمر ہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ان بزرگ قائدین کی طرح انھیں تمام مذہبی طبقات اور ذات برادریوں کی تائید حاصل ہوئی۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کنور دانش علی جو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طالب علم لیڈر تھے، نے اپنی عوامی زندگی کا آغاز سابق وزیر اعظم شری دیو گوڑا کے ساتھ کیا اور ان کی تجویز پر ہی انھوں نے امروہہ سے بی ایس پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا منظور کیا۔ شری دیوگوڑا نے کنور دانش علی کو بی ایس پی سے الیکشن لڑنے کا اس لیے مشورہ دیا کیوں کہ شمالی ہندوستان میں خود ان کی پارٹی کا کوئی حلقۂ اثر نہیں تھا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ بی ایس پی بھی آہستہ آہستہ اپنی سیاسی قدر و منزلت سے محروم ہوتی جا رہی تھی۔ اس لیے کنور دانش علی جیسے عبقری رہنما کا اسے اس طرح مل جانا سیاسی طور پر ایک بڑی کامیابی تھی۔ پھر سب نے دیکھا کہ کنور دانش علی نے امروہہ سے نہ صرف الیکشن لڑا بلکہ نمایاں کامیابی بھی حاصل کی اور بی ایس پی کی پارٹی سپریمو محترمہ مایاوتی نے انھیں پارلیامنٹ میں پارٹی کا فلور لیڈر بھی بنایا اور انھوں نے اپنے ایم پی ہونے اور فلور لیڈر کی حیثیت سے اپنی کارکردگی سے ان فیصلوں کو صحیح ٹھہرایا لیکن جس طرح محترمہ مایاوتی کا مزاج ہے، انھوں نے اپنی طبیعت کی تلون مزاجی سے کام لیتے ہوئے کچھ ہی دنوں میں کنور دانش علی کو فلور لیڈر کے منصب سے ہٹایا اور کنور دانش علی نے پورے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اس فیصلے کو بسر و چشم قبول کر لیا۔ لیکن اب جب کہ پارلیامنٹ کے الیکشن میں چند مہینے ہی رہ گئے ہیں انھوں نے کنور دانش علی کو اپنی پارٹی کی رکنیت سے بھی معطل کر دیا ہے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا یہ تووہ ہی بتا سکتی ہیں لیکن ہندوستانی سیاست پر نظر رکھنے والے اور پارلیامنٹ میں کنور دانش علی کے رول کو دیکھنے والے اس فیصلے پر انگشت بدنداں ہیں کیوں کہ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
محترمہ مایاوتی کے سیاسی انداز کار کو جو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے علاوہ کسی کو نہ تو خاطر میں لاتی ہیں اور نہ کسی کی بات سننے کو تیار ہوتی ہیں۔ ایک ایسی پارٹی جسے شری کانشی رام نے تل تل جمع کر کے ایک شکل و صورت دی تھی اور عوامی سطح پر جس کو قبولیت عام دلائی تھی اس کی اصولی سیاست جو عوامی فلاح و صلاح سے عبارت ہوتی ہے، کے بجائے محترمہ مایاوتی نے اس کو اپنے اقتدار کی خواہش اور اس کو ہر قیمت پر اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے قدم قدم پر ایسے فیصلے لیے جس سے کہ پارٹی کی شبیہ، اس کی مرکزی و محوری قیادت کی شبیہ دونوں بری طرح متاثر بھی ہوئیں اور ہم سب نے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے عروج سے زیادہ اس کے زوال کو اپنی عبرت بھری نگاہوں سے دیکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعد سب سے مالدار سیاسی جماعتوں میں بی ایس پی نمبر دو پر آتی ہے اور اپنے وسائل و ذرائع کے اعتبار سے وہ بی جے پی کے بعد دوسری تمام جماعتوں سے سب سے آگے ہے لیکن جاننے والے یہ خوب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا۔
محترمہ مایاوتی نے جب لکھنو اور نوئیڈا میں بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور دوسرے دلت رہنماؤں کی یادگاریں تعمیر کرائیں اور اس کی مخالفت ہوئی تو ہم میں سے چند لوگ ایسے بھی تھے جو مایاوتی جی کے اس اقدام کے حامی تھے کیوں کہ ہم سب کا یہ ماننا تھا کہ اگر ملک میں شیوا جی، مہارانا پرتاپ، مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل اور ان جیسے دیگر لیڈروں کی یادگاریں بن سکتی ہیں تو دلت رہنماؤں کی کیوں نہیں؟ جتنا پیسہ اعلیٰ ذات کے رہبروں کی یادگاروں کی تعمیر میں خرچ ہوا ہے اتنا لکھنو اور نوئیڈا میں دلتوں کی یادگاروں پہ نہیں۔
کنور دانش علی کی معطلی محترمہ مایاوتی کا کوئی اکلوتا قدم نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ اپنے قریب ترین ساتھی اور معتمد نسیم الدین صدیقی کو پارٹی سے برخاست کر چکی ہیںاس کے علاوہ کیرالا کے موجودہ گورنر جناب عارف محمد خان بھی ان کی پارٹی کے ایم پی بھی رہے اور ان کا اخراج بھی ہوا۔ ابھی بہت دن نہیں گزرے کہ انھوں نے اپنی پارٹی کے وفادار، نیک اعتبار اور سچے عوامی خدمتگار اور مبارکپور سے دو دفعہ ایم ایل اے رہ چکےشاہ عالم (گڈو جمالی) کو پارٹی سے نکال دیا اورانہیں مبارکپور کی سیٹ کھو دینے کے بعد پارٹی میں دوبارہ داخلہ بھی دے دیا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ان کے اخراج اور داخلے کا اکثر فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہی کو ملتا ہے۔ ایسا کیوں ہے اور اس کی کیا وجہ ہے یہ وہی بہتر طور پر بتا سکتی ہیں۔ کنور دانش علی سے پہلے اور نسیم الدین صدیقی کے بعد محترمہ مایاوتی نے اپنی پارٹی کے ایک نوجوان لیڈر ملک عرفان احمد کو جو ڈومریاگنج (ضلع سدھارتھ نگر ) سے تعلق رکھتے ہیں، پارٹی سے اس لیے نکال دیا کہ انہوں نے اپنے والد(اتر پردیش اسمبلی کے پانچ دفعہ کے ایم ایل اےاور سابق وزیر مملکت ملک کمال یوسف) کی پہلی برسی کے موقعے پر ہونے والے تعزیتی اجتماع میں دوسری جماعتوں کے نیتاؤں کو کیوں بلایا۔ سیاست اپنی جگہ ہے لیکن غم اور خوشی اپنی جگہ، سیاست کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شامل نہ ہوں۔ ملک عرفان احمد کے حوصلے، جواں ہمتی اور جرأت کو دیکھتے ہوئے یہ یقین تھا کہ ان کی موجودگی سے پارٹی کو غیر معمولی فائدہ پہنچےگا۔ لیکن یہی بات محترمہ مایاوتی کے یہاں ان کے خلاف گئی۔
بات کنور دانش علی کی معطلی کی ہو رہی تھی، کنور دانش علی جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے غریبوں، مجبوروں، پس ماندہ طبقات، کسانوں اور اقلیتوں کو لے کربرابر اپنی آواز بلند کرتے رہے، ان کے حق میں آواز اٹھاتے رہے۔ انہوں نے ہندوستان کے سیکولر، جمہوری اور دستوری ڈھانچے کی حمایت میں ہمیشہ اپنی آواز بلند کی۔ اپنے حلقۂ انتخاب میں تعمیر و ترقی کے کاموں میں پورے ایم پی فنڈ کا استعمال کیا۔ پارلیامنٹ کے ہر اجلاس میں سوالات پوچھے اور پوری جواں مردی کے ساتھ ۱۳؍ دسمبر۲۰۲۳ کو پارلیامنٹ میں جو تخریبی کاروائی ہوئی، اس کو طشت ازبام کرنے میں آگے آگے رہے۔
کنور دانش علی کو محترمہ مایاوتی نے پارٹی سے ایک ایسے وقت میں نکالا ہے جب ان سے غیر آئینی بدتہذیبی کرنے والے بی جے پی کے ممبر پارلیامنٹ رمیش بدھوڑی نے اخلاقیات کمیٹی کے سامنے براہ راست معافی مانگی ہے۔ ایک ایسی پارٹی جو کہ اتر پردیش کی اسمبلی میں اپنے لیے مناسب جگہ بھی نہ بنا سکی، نہ ہی مدھیہ پردیش، راجستھان، ہریانہ اور بہار میں اپنے لیے کوئی مناسب حیثیت بنا سکی، اس کا اس طرح کا من مانا فیصلہ کہ کنور دانش علی کو پارٹی سے نکال دیا جائے، کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟ کیا یہ اس ڈال کو کاٹ ڈالنے کے مترادف نہیں جس پر خود آرام سے بیٹھے ہوں؟ شری کانشی رام نے جس پارٹی کو پروان چڑھایا تھا، آگے بڑھایا تھا، اقتدار میں بٹھایا تھا، اس کے ساتھ یہ سلوک ان کی جاں نشین مایاوتی کریں گی، یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یہ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ شری کانشی رام کے انتقال کے بعد سے پارٹی ایک دفعہ پھر ڈھلان پر ہے۔
اب جہاں تک کنور دانش علی کے سیاسی مستقبل کا سوال ہے تو ان کے لیے کسی بھی سیاسی پارٹی کے دروازے کھل سکتے ہیں اور وہ جس پارٹی میں جائیں گے اس کے لیے ایک مضبوط سہارا ہی ثابت ہوں گے۔ ویسے بھی وہ بلندیٔ نگاہ، دلنوازیٔ سخن اور پرسوزیٔ جاں کے چلتے پھرتے نمونے ہیں تو ان کی معطلی بی ایس پی کا نقصان ہے، کسی بھی طرح اسے اس کا فائدہ نہیں کہا جا سکتا۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس اسلامک اسٹڈیز ہیں)



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *