[]
مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری
(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)
دینِ اسلام میں جائز تجارت کو انتہائی باعزّت اور مبارک عمل قرار دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ تقریباً ہر نبی و رسول علیہم السلام کا ذریعہ معاش اُن کے خود کے ہاتھ کی کمائی تھی۔ رسول کریم ﷺ بھی تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھے اور تجارت کی ترغیب بھی دیا کرتے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت بھی تجارت ہی کیا کرتی تھی، قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ میں جائز تجارت اور ایماندار تاجر کی اہمیت و فضیلت کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
لَيْسَ عَلَيْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ (سورۃ البقرۃ:آیت: ۱۹۸) ترجمہ: تم پر کسی بھی قسم کا کوئی گناہ و حرج نہیں کہ تم اپنے ربّ کا فضل (رزق) تلاش کرو‘‘ اسی طرح فرمایا: فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰه (سورۃ الجمعۃ: آیت: ۱۰) ترجمہ: پھر جب نماز مکمل ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرو۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جائز طریقہ سے کسبِ معاش بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور کاروبار و تجارت میں اسلامی احکام، شرائط و ضوابط کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ عمل بھی عبادت ہے اور اس کا دنیاوی ثمرہ، فوائد و منافع کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ رسول کریم ﷺ سے ایک سائل نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! سب سے پاکیزہ و بہترین ذریعہ معاش کونسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: عملُ الرّجلِ بيدِہ وکُلُّ بيع مبرور‘‘ کہ (بہترین ذریعہ معاش) آدمی کے خود کے ہاتھ کی کمائی ہے اور ہر وہ تجارت و کاروبار ہے جو شرعی لحاظ سے جائز ہو اور اس میں امانت و صداقت کو ملحوظِ خاطر رکھ کر کیا جائے۔ اس میں، جھوٹ، دھوکہ، خیانت، زیادتی اور حرام کا شائبہ تک نہ ہو۔
حدیثِ مذکور سے جائز تجارت کی فضیلت واضح ہوجاتی ہے۔ رسولِ کریم ﷺ نے ایسی تجارت کو سب سے پاکیزہ و بہترین قرار دیا ہے۔ اسی طرح دیانت اور امانت دار سچے مسلم تاجر کی فضیلت اور بد دیانت و فاجر تاجر کی مذمّت کے حوالہ سے اصحابِ رسول ﷺ سیدنا ابن عمر، سیدنا ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ امانت دار، سچا مسلمان تاجر روزِ قیامت شہداء میں شمار ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے میں ہوگا اور اُسے جنّت میں داخل ہونے سے نہیں روکا جائے گا۔
آدابِ تجارت شریعتِ مُطہّرہ میں تجارت سے متعلّق کچھ اہم آداب سکھائے گئے ہیں جنہیں دوران تجارت و کاروبار ملحوظ رکھنا ہر تاجر کے لئے ضروری ہے جن میں معاملات میں لوگوں کے ساتھ نرمی و آسانی سے پیش آنا، اُنہیں سہولت و رعایت دینا اور بلند اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرنا۔ اسے شرعی اصطلاح میں ’’سماحۃ ‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔یعنی بلند اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرنا، خندہ پیشانی اور خوش اسلوبی سے معاملات کو نبھانا، سخاوت کو اختیارکرنا، مجبور و کمزور لوگوں پر نرمی اور شفقت سے پیش آنا۔ (مسند احمد بن حنبل، حدیث: ۶۸۱۴، جامع ترمذی: کتاب البيوع، باب ما جاء فی التجار و تسميۃ النبی ؐ)
قارئین کرام! ملازمت کے بعد تجارت افضل ہے، اس لیے کہ تاجر اپنے اوقات کا حاکم ہوتا ہے، وہ تجارت کے ساتھ دوسرے دینی کام تعلیم، تدریس، تبلیغ وغیرہ بھی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تجارت کی فضیلت میں مختلف آیات و احادیث ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْفُسَھُمْ وَأَمْوَالَھُمْ بِأَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۔‘‘ (سورۃالتوبہ۔ آیت: ۱۱۱) ’’خدا نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض میں اُن کے لیے بہشت (تیار) کی ہے۔‘‘ اور بھی بہت سی آیات تجارت کی فضیلت میں ہیں، ان کے علاوہ احادیث میں ہے: ’’التاجر الصدوق الأمین مع النبیین والصدیقین والشھداء۔‘‘ (سنن الترمذی، رقم الحدیث: ۱۲۰۹) ’’سچا، امانت دار تاجر (قیامت میں) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بہترین کمائی اُن تاجروں کی ہے جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے اور خریدتے وقت چیز کی مذمت نہیں کرتے (تاکہ بیچنے والا قیمت کم کرکے دے دے) اور جب (خود) بیچتے ہیں تو (بہت زیادہ) تعریف نہیں کرتے (تاکہ زیادہ ملے) اور اگر ان کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے اور اگر خود ان کا کسی کے ذمہ نکلتا ہو تو وصول کرنے میں تنگ نہیں کرتے۔ (شعب الایمان للبیہقی حدیث: ۴۸۵۴) ’’عن أنسؓ قال: قال رسول اللّٰہﷺ: ’’التاجر الصدوق تحت ظل العرش یوم القیامۃ۔‘‘(اتحاف الخیرۃ المہرۃ بزوائد المسانید العشرۃ، حدیث: ۷۷۵۲)
’’حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ: سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سایہ میں ہوگا۔ ’’حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کہ جب تاجر میں چار باتیں آجائیں تو اس کی کمائی پاک ہوجاتی ہے، جب خریدے تو اس چیز کی مذمت نہ کرے اور بیچے تو (اپنی چیز کی بہت زیادہ) تعریف نہ کرے اور بیچنے میں گڑ بڑ نہ کرے اور خرید و فروخت میں قسم نہ کھائے۔ (الترغیب والترھیب، حدیث: ۷۹۷)
’حضرت حکیم بن حزامؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: خرید و فروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے، جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ اگر بائع ومشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت کے عیب اور کھرے کھوٹے ہونے کو بیان کردیں تو ان کی بیع میں برکت ہوتی ہے اور اگر عیب کو چھپالیں اور جھوٹے اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کمالیں، (لیکن) بیع کی برکت ختم کر دیتے ہیں۔ (صحیح البخاری، حدیث: ۲۱۱۴) ’’تسعۃ أعشار الرزق فی التجارۃ، والعشر فی المواشی، یعنی: النتاج۔‘‘ (نظام الحکومۃ النبویۃ المسمیٰ التراتیب الاداریۃ، ج: ۲، ص: ۱۲)
’’فرمایا: رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جانوروں کی پرورش میں ہے۔‘‘ ’’أخرج الدیلمی عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ: ’’أوصیکم بالتجار خیرا، فإنھم بُردُ الآفاق وأُمَنَائُ اللّٰہ فی الأرض۔‘‘ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتاؤ کی وصیت کرتا ہوں، کیوں کہ یہ لوگ ڈاکیے اور زمین میں اللہ کے امین ہیں یہ وہ بنیادی ہدایات ہیں جن پر ہر مسلمان کو زندگی کے ہر معاملہ میں عمل کرنا چاہئے، بالخصوص لین دین، خرید و فروخت اور کاروبار و تجارت میں ان ہدایات کو ہمہ وقت اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔
’’اللہ تعالیٰ اُس بندے پر اپنا رحم فرمائے جو جب بھی کچھ خریدتا یا بیچتا ہے تو سماحت، یعنی آسانی، نرمی و رعایت اور سخاوت کا معاملہ اختیار کرتا ہے اور جب بھی کسی سے اپنے حق کا مطالبہ و تقاضا کرتا ہے تو آسانی، نرمی و رعایت اور سخاوت کا معاملہ کرتا ہے‘‘۔ اور ایک دوسری روایت میں’’واذاقضی‘‘ کے الفاظ بھی ملتے ہیں یعنی: جب کسی کے حق و قرض کی ادائیگی کا معاملہ ہو تو اُس میں ٹال مٹول اور بے جا تأخیر سے کام نہیں لیتا بلکہ سماحت سے کام لیتے ہوئے حقدار کو اُس کا حق واپس لوٹاتا ہے۔
جامع ترمذی کی ایک دوسری روایت میں: ایسا کرنے کو اللہ تعالیٰ کا محبوب و پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح مسند احمد کی ایک روایت میں اسی عمل کی بناء پر رسول کریم ﷺ نے ایک شخص کے لئے مغفرت کی دعاء فرمائی۔ خرید و فروخت، کاروبار و تجارت سے متعلقہ شرعی احکام کی معرفت رکھنا چاہئے۔ شریعتِ اسلامیہ میں کوئی بھی ریاست اس وقت تک فلاحی و ترقی یافتہ نہیں بن سکتی جب تک اس ریاست کے کاروباری مراکز، بازاروں اور مارکیٹ میں معاملات کرنے والے کاروباری و تاجر حضرات مالی معاملات میں شرعی احکام یعنی جائز و ناجائز، حلال و حرام اور مشتبہ امور سے واقف نہ ہوں۔ (صحيح البخاری۔ جامع ترمذي حديث: ۱۸۸۸، مسند أحمد، حدیث: ۴۱۶۲)
کامیاب نظامِ معیشت کے قیام کے لئے یہ لازمی ہے کہ کاروبار و کاروباری مراکز سے متعلقہ تمام افراد شرعی اصول و ضوابط کا بھر پور علم رکھیں اور عملاً ان کی پیروی کریں، جائز و ناجائز پیشے، خرید و فروخت، کاروبار و تجارت میں حلال و حرام کی تمیز اور دورانِ تجارت صحیح اور غلط وغیرہ کا مکمل علم ہونا چاہئے۔ حضرت سیدنا عمرؓ کا فرمان ہے:’’ لايبع في سوقنا الّامن تفقہ في الدّين‘‘۔ ’’ہمارے بازاروں میں صرف وہی خرید و فروخت کرے جسے دینی احکام کی سمجھ ہو۔
رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے: یقیناً حلال بھی واضح ہے اور یقینآ حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ امور ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی، پس جو اُن مشکوک و مشتبہ امور سے دور رہا اور اپنے آپ کو اُن سے بچالیا تو اُس نے اپنے دین اور عزت کو بچالیا اور محفوظ کرلیا اور جو ان شبہات میں مبتلا ہوگیا وہ حرام میں واقع ہوگیا۔ کاروبار و تجارت میں کافی ایسے معاملات ہیں جن کا حلال و جائز ہونا شرعی لحاظ سے مشکوک و مشتبہ ہے جیسے وہ کاروباری معاملات جو بنیادی طور پر تو جائز ہیں لیکن ان میں ناجائز و حرام امور بھی موجود ہیں۔
(شرح السنۃ: ص: ۱۰۸۷، حديث: ۲۰۳۴، صحيح البخاري: کتاب البيوع ) یا ایسے شخص کے ساتھ کاروبار کرنا کہ جس کا زیادہ تر مال حرام ہو، یا ایسے لوگوں و اداروں کے ساتھ کام کرنا جن کے کام کا اکثر حصہ حرام معاملات پر مبنی ہو، یا ایسے کاروباری مراکز میں کام کرنا کہ جن میں زیادہ تر ناجائز و حرام کام ہوتے ہوں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سرسری سی چند اہم مثالیں ذکر کی گئی ہیں، البتہ اس مسئلہ میں شرعی ضابطہ یہی ہے کہ وہ کام جس کا جائز و حلال ہونا شرعی اعتبار سے واضح نہ ہو بلکہ مشکوک و مشتبہ ہو تو اس سے اجتناب کرنے میں ہی عافیت ہے۔
معاشی جد و جہد اور کسبِ معاش کے لیے اسلام کے فراہم کردہ اصولوں میں محنت، اور اس کی ضرورت و عظمت، سرمایہ اس کا حصول و صرف، زمین اس کی ملکیت، پیداواری صالحیت اور اس پر محنت کے اصول، مارکٹنگ اور معاشی لین دین میں صداقت و امانت دیانتداری و راست بازی، حق گوئی و سچائی کی اہمیت اور دھوکہ دہی، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، بلیک مارکٹنگ اور ملاوٹ کی مذمت، رشوت اور سود کی حرمت اور مخرب اخلاق ذرائع آمدنی کی حرمت شامل ہے۔ جبکہ معاشرتی زندگی کے حوالہ سے، ہمدردی، غم گساری، ایثار و قربانی اور انفاق فی سبیل اﷲ کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔
کسب معاش کے حوالہ سے کسی بھی جد و جہد کا آغاز کیا جائے، محنت کو اس میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگی۔ اسلام محنت و کوشش اور اس کے ذریعہ حاصل شدہ دولت کو خاص قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ما اکل احد طعاماً قط خیراً من ان یاکل من عمل یدہ و ان نبی ﷲ داؤد علیہ السلام کان یاکل من عمل یدہ۔ یعنی کوئی شخص اپنی ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی چیز نہیں کھاتا، اور داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کماکر کھاتے تھے۔ لان یحتطب احدکم حزمۃ علی ظہرہ خیر من ان یسال الناس احد فیعطیہ او یمنعہ۔
تم میں سے کوئی اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ کسی سے سوال کرے کوئی اسے دے یا نہ دے۔ معاشی جد و جہد کے حوالہ سے رسول کریم ﷺ کی حیات طیبہ پر نگاہ ڈالیں تو کئی ایک تجارتی اسفار جن میں شام، بصرہ اور یمن کے تجارتی سفر قابل ذکر ہیں۔ جو قبل از نبوت زندگی میں ملتے ہیں۔ اسی طرح عرب کے مختلف بازاروں میں رسول کریم ﷺ کی معاشی مصروفیات کا ذکر ابن سید الناس نے کیا ہے۔
خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضوان ﷲ علیہم اجمعین نے بھر پور معاشی جد و جہد فرمائی اور اپنی اس پاک کمائی سے ﷲ کی راہ میں صدقہ بھی فرمایا کرتے۔ معاشی جد و جہد اور کسبِ معاش کا کوئی بھی عمل دولت کے بغیر شروع کرنا اور اسے جاری رکھنا ممکن نہیں بطور خاص دورِ حاضر کے معاشی حالات میں اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اسلام دولت کو ناپسندیدہ نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ اسے خیر کے لفظ سے تعبیر فرماتا ہے: وانہ، لحب الخیر لشدید (سورۃ العدیت، آیت: ۸) ”بے شک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے۔
وما تنفقوا من خیر یوف الیکم (سورۃ البقرۃ، آیت: ۲۷۲) ”اور تم مال میں سے جو کچھ خرچ کروگے، تمہیں پورا ادا کردیا جائے گا۔ وما تنفقوا من خیر فان ﷲ بہ علیم (سورۃ البقرۃ، ۲۷۳) ”اور اپنے مال میں سے جو کچھ تم خرچ کروگے ﷲ خوب جاننے والا ہے۔ مگر مال کے حصول میں دیانت و امانت کے اصول کو مرکزی نکتہ کی حیثیت دی گئی ہے۔ تاکہ باہمی مفادات کا احترام و تقدس قائم رہ سکے۔ یایہا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل (سورۃ النساء، آیت: ۲۹) ”اے ایمان والو اپنے مال آپس میں باطل طریقہ سے مت کھاؤ۔
واتو الیتامی اموالہم ولا تتبدلوا الخبیث بالطیب (سورۃ النساء، آیت: ۲) ”اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور ردی چیز کو عمدہ چیز سے تبدیل نہ کرو۔ ان الذی یاکلون اموال الیتامیٰ ظلماً انما یاکلون فی بطونہم نارا (سورۃ النساء، آیت: ۱۰) ”بے شک جو لوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھا جاتے ہیں وہ اپنے شکموں میں دوزخ کی آگ کھا رہے ہیں۔ ابو امامہ اياس بن ثعلبہ حارثیؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مارا، اس کے لئے اللہ نے جہنم کو واجب اور جنت کو حرام کردیا ایک شخص نے سوال کیا: یارسول اللہ ﷺ! چاہے وہ چیز تھوڑی سی ہی کیوں نہ ہو؟
آپ ﷺ نے فرمایا: اگر چہ پیلو کے درخت کی ایک چھوٹی سی ٹہنی ہی ہو۔ (صحیح مسلم) رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مسلمان کا حق قسم کے ذریعہ ختم کردیا اسے ضرور دوزخ میں ڈالا جائے گا اور اس پر جنت حرام ہوگی۔ عرض کیا گیا کہ اگر بہت معمولی سی چیز کا معاملہ ہو تو (پھر بھی ایسا ہی ہوگا)، فرمایا اگرچہ کسی درخت کی شاخ ہی کیوں نہ ہو۔ ”جس شخص نے ظالمانہ طور پر کسی سے زمین کا کچھ حصہ لے لیا، قیامت کے روز ﷲ تعالیٰ اسے سات زمینوں کا بوجھ اس کے گلے میں ڈال دے گا۔
”جو کسی کی بالشت برابر بھی زمین ہتھیالے گا اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ کسبِ معاش کی جد و جہد کے دوران حصول دولت کی بعض آسان راہیں بھی نکل آتی ہیں جنہیں اسلام قطعاً جائز قرار نہیں دیتا۔ مثلاً اشیاء ضروریہ (استعمال کی چیزیں) کی کوالٹی کو تبدیل کرکے گھٹیا شئے کو صحیح داموں میں بیچنا بالکل صحیح نہیں بلکہ جائز نہیں ہے۔ مدینہ منورہ کی غلہ منڈی سے گزرتے ہوئے آپ ﷺ نے ایک غلہ کے ڈھیر کے اندر ہاتھ ڈالنے کے بعد آپ ﷺ نے دیکھا کہ نچلی سطح پر گیلی گندم پڑی ہوئی ہے آپ ﷺ نے اس تاجر سے فرمایا یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا یارسول ﷲ ﷺ! بارش کی وجہ سے ایسا ہوگیا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا گیلی گندم کو اس ڈھیر کے اوپر کیوں نہیں ڈالا گیا، تاکہ لوگ اسے بہ آسانی دیکھ سکیں یاد رکھو! دھوکہ باز میرے دین پر نہیں ہوتا۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۲۸۴) رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہر مسلمان دوسرے کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر بتائے کسی عیب دار چیز کو اپنے بھائی کے ہاتھ فروخت کردے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۲۲۴۶) حصول دولت کے عمل میں ظلم و استبداد کی ظاہری صورتوں کے علاوہ خفیہ اور غیر محسوس طریقوں سے بھی عوام الناس کو ان کے جائز مال سے محروم کیا جاسکتا ہے، اسی وجہ سے اکتسابِ رزق کے عمل کو حلال و حرام دو واضح اصطلاحات سے تعبیر کیا گیا ہے۔
جائز ذرائع مثلاً تجارت اور محنت وغیرہ سے حاصل کردہ دولت حلال اور اس کے بر عکس تمام صورتیں ممنوع اور حرام ہیں۔ ان صورتوں میں سے ایک کے بارے میں بطور مثال قرآن فرماتا ہے: واحل ﷲ البیع وحرم الربو- اﷲ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام فرمایا ہے۔ ”تجارت تمام جائز وسائل دولت اور ذرائع معاش کو بیان کرتی ہے جبکہ سود ظلم و واستحصال کی تمام صورتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ کاروبار تجارت اور کسبِ معاش کا عمل ہر چند کہ انتہائی پاکیزہ ہے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”سچے اور امانتدار تاجر کا حشر انبیاء صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔” (سنن ترمذى، ج۔۳ ص۔ ۵ حدیث: ۱۲۱۳)
رسول کریم ﷺ نے کسب معاش کی ایسی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا ہے، جو غیر عادلانہ بنیادوں پر استوار ہوتی ہوں ناجائز منافع خوری کے حوالہ سے فرمایا: من احتکر فہو خاطی۔ (صحیح مسلم، حدیث: ۴۱۲۲) ”جو شخص گرانی اور مہنگائی کی غرض سے غلہ (اور دیگر اشیاء صرف) روکتا ہے وہ گنہ گار ہے۔ بلکہ ﷲ کی نگاہ میں ذخیرہ اندوزی کرنے والا بد ترین شخص ہے۔
کسب معاش میں ایسے ظالمانہ طرزِ عمل کے اختیار کرنے والے کا کوئی نیک عمل بھی ﷲ کے یہاں شرف باریابی نہیں پاتا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: دورِ حاضر میں اہل ثروت و دولت اور سرمایہ دار بسا اوقات کسی جنس کو مکمل طور پر مارکیٹ سے خرید کر لیتے ہیں اور بعد ازاں اپنی مرضی سے ان کی رسد طلب میں عدم توازن قائم کرکے من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔ ایسی تمام صورتیں اسلام کی نظر میں مطلقاً حرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کسب معاش اسلامی اصول و آداب پر کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)