[]
اسٹاک ہوم میں تورات کو جلانے کے منصوبے پر اسرائیلی مذمت کے بعد ایک 32 سالہ شخص نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ اپنا منصوبہ ترک کرتا ہے۔
ایک بتیس سالہ شخص نے اسٹاک ہوم میں یہودیوں کے مقدس صحیفے تورات کی ایک جلد کو نذر آتش کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس خبر پر اسرائیل کی طرف سے سخت مذمت سامنے آئی تاہم مذکورہ شخص نے ہفتہ 15 جولائی کو اپنے بیان میں کہا کہ اس کا مقصد دراصل ان لوگوں کی مذمت کرنا تھا جو اس نورڈک ملک میں قرآن جیسی مقدس کتابوں کے اوراق کو جلاتے ہیں۔
سویڈش پولیس نے جمعے کے روز کہا کہ اُس نے سٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر ایک احتجاجی مظاہرے کے لیے اجازت جاری کر دی ہے جس میں تورات اور بائبل کی جلدوں کو جلانا شامل تھا۔ اسرائیل کے صدر اسحاق ہرسوگ ان متعدد اسرائیلی نمائندوں اور یہودی تنظیموں میں سے ایک تھے جنہوں نے فوری طور پر اس فیصلے کی مذمت کی۔
مظاہرے کے منتظم احمد اے نے وضاحت کی کہ ان کا مقصد دراصل مقدس کتابوں کو جلانا نہیں تھا بلکہ ان لوگوں پر تنقید کرنا تھا جنہوں نے حالیہ مہینوں میں سویڈن میں قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کیا تھا۔ اس کارروائی کی سویڈش قانون ممانعت نہیں کرتا ہے۔ اس بارے میں شامی نژاد سویڈش باشندے کا کہنا تھا، ”یہ ان لوگوں لیے ایک جوابی کارروائی ہے جنہوں نے قرآن کے نسخے کو جلایا تھا۔ میں ان لوگوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ اظہار رائے کی آزادی کی بھی کچھ حدود ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‘‘ اُس نے مزید کہا، ”میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا ہے، ہم ایک ہی معاشرے میں رہتے ہیں۔ اگر میں تورات، کوئی بائبل، کوئی اورقرآن کے نسخے کو نذر آتش کرنے لگے تو یہاں جنگ چھڑ جائے گی۔ میں جو دکھانا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
رواں برس جنوری میں سویڈن کے دائیں بازو کے انتہا پسند راسموس پالوڈن نے نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی درخواست اور سویڈن کو اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دینے کے لیے ترکی کے ساتھ مذاکرات کی مذمت کرنے کے لیے قرآنی نسخے کو نذر آتش کیا تھا۔
28 جون کو، سویڈن میں ایک عراقی پناہ گزین نے عید الاضحٰی کے دن اسٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے قرآن پاک کے نسخے کے کچھ صفحات جلائے تھے۔ ان واقعات نے مسلم دنیا میں غصے اور مذمت کی لہر دوڑا دی تھی۔ اگرچہ سویڈش پولیس نے نشاندہی کی کہ مظاہرے کی اجازت کسی مقدس کتاب کو جلانے کی باضابطہ اجازت نہیں تھی، تاہم مقدس کتابوں کو جلانے کی ممانعت کا کوئی قانون بھی اس ملک میں موجود نہیں ہے۔ لیکن اگر سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہو یا ایسی کارروائیوں سے اگر نسلی نفرت بڑھنے کا خدشہ ہو تو پولیس مظاہرے کی اجازت دینے سے انکار کر سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔