طوفان الاقصیٰ آپریشن مکمل فلسطینیوں کا تھا/افغانستان کے موجودہ حالات کا حل ایک جامع حکومت کا قیام ہے

[]

مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے تہران یونیورسٹی میں “یوم طلباء” کے موقع پر شہید طلباء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہے آج طلباء کے درمیان موجود ہوں اور ان کی آراء سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا۔ ایران کے اسلامی انقلاب اسلامی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صرف نظریہ نہیں بلکہ عمل کی خوبی بھی بھرپور موجود ہے۔

انہوں نے بیان کیا کہ بہت سے دوست ممالک کے حکام کہتے ہیں کہ ہمیں ایران کے حالات پر رشک آتا ہے۔ جب صدر مرسی عوام کے ووٹوں سے مصر میں برسراقتدار آئے تو میں نے قاہرہ اور تہران میں کچھ طلباء سے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریر اسکوائر پر دھرنے کا ہمارا بنیادی محرک یہ تھا کہ ایرانی طلبہ میں تخلیقی صلاحیتیں ہیں اور ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے۔

اسی طرح البرادعی نے ایک بار ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایرانی سائنسدانوں کی اوسط عمر 27 سال ہے اور یہ ان کے سوال تھا کہ ایرانی نوجوان ایسا کیوں کر سکتے ہیں لیکن ہم نہیں کر سکتے؟

امیر عبداللہیان نے غزہ کی صورت حال کے بارے میں واضح کیا کہ فلسطین کی حمایت میں جعلی اسرائیلی رجیم کے مقابلے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں اور کیے جانے چاہیے تھے، ان میں سے بعض اقدامات کا تعلق علاقے میں مزاحمت سے ہے۔ سید حسن نصر اللہ کی تقریر کے بعد وزارت خارجہ کے چند قابل قدر دوستوں نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم صیہونی حکومت پر حملے کے حکم کی توقع کر رہے تھے۔ ہم مزاحمتی گروہوں کو ہدایات نہیں دیتے بلکہ وہ خود اپنے فیصلوں کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

طوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیل مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ صیہونی حکومت کی سات انٹیلی جنس سروسز سکیورٹی کی جدید تری سہولیات کے ساتھ چوبیس گھنٹے سرگرم ہیں لیکن طوفان الاقصی نے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ چنانچہ امریکی وزیر خارجہ نے بعض علاقائی رہنماؤں سے ملاقات میں کہا کہ میں تل ابیب پہنچ کر حیران رہ گیا۔

امیر عبداللہیان نے مزید کہا کہ آج ملک کے زیادہ سے زیادہ مفادات کے حصول کے لیے سفارت کاری اور میدان کے درمیان قریبی اور قریبی ہم آہنگی ہے۔

امیر عبداللہیان نے صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں مزاحمت کی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت کا فیصلہ یہ تھا صیہونی رجیم کی کھلی حمایت کے ردعمل میں خطے بھر میں امریکی اڈوں پر حملہ کیا جائے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن سو فیصد فلسطینیوں کا تھا۔

انہوں نے کہا کہ س وقت غزہ میں کئی ہزار کلومیٹر لمبی سرنگیں ہیں اور امریکی نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے۔ آج مزاحمتی مراکز راکٹ اور میزائل ٹیکنالوجی خود سے تیار کر رہے ہیں۔

انہوں نے امریکہ کی طرف سے بھیجے گئے پیغامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک پیغام میں انہوں نے مزاحمتی گروہوں سے کہا کہ وہ ہمارے اڈوں پر کارروائیاں بند کر دیں، لیکن ہم نے جواب دیا کہ ہم کوئی آپریشنل آرڈر جاری نہیں کریں گے کیونکہ وہ مکمل طور پر خودمختار ہیں اور ہم ان کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے ان کی حمایت جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آج اسرائیلی فوج کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ حزب اللہ کے ساتھ انگیج ہے اور حزب اللہ نے بھرپور جوابی اقدامات کیے ہیں۔ البتہ بہت کچھ ایسا ہے جو منظر عام پر نہیں آیا کیونکہ میڈیا کی دھوکہ دہی موجود ہے۔ جب کہ دستیاب رپورٹوں کے مطابق تمام علاقوں میں جنگ چل رہی ہے اور صیہونی حکومت صرف ایک صحرائی علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ جی ہاں، صحرائی علاقہ! لیکن میڈیا میں وہ لوگ کچھ اور کہتے ہیں۔ تاہم گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، فیصلہ اقدام مزاحمت کا ہی ہوگا۔

امیر عبداللہیان نے مزید کہا کہ حماس نے مہارت سے کام لیتے ہوئے صیہونی فوجیوں کو گرفتار کیا جب کہ صیہونی رجیم بنیادی طور پر حماس کو تباہ کرنا چاہتی تھی لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی، پھر کہا کہ وہ 20 دن کے اندر حماس کو تباہ کر دیں گے، لیکن جب یہ ہدف بھی حاصل نہیں کر سکے تو کہا کہ فوجی قیدیوں کو رہا کرو، لیکن وہ اس مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ آج صیہونی حکومت بے بسی کے عالم میں کہتی ہے کہ ہم نے 7 اکتوبر کے آپریشن کے ماسٹر مائنڈ کے گھر کی شناخت کر لی ہے!” جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس جنگ کو ختم کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔

انہوں نے غزہ کے مسئلے میں ثالثی ممالک کے کردار کے بارے میں کہا کہ ایران سے مشاورت کے بغیر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے نہیں پایا ہے۔ اور ہم نے عراق اور شام میں داعش سے کامقابلہ کرنے والے گروہوں کی حمایت کی۔

افغانستان کا حل ایک جامع حکومت کا قیام ہے

امیر عبداللہیان نے افغانستان کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا معاملہ پیچیدہ معاملہ ہے۔ یہ ملک اس وقت استحکام کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے جب حکومت میں تمام نسلی گروہ شریک ہوں۔ کیونکہ طالبان اور پشتون عوام افغانستان کی حقیقت کا حصہ ہیں لیکن یہ پوری حقیقت نہیں ہیں۔ البتہ یہ کہنا چاہیے کہ طالبان داعش نہیں ہے اور افغانستان کا حصہ ہیں اور خطے میں داعش کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ہمیں حتی المقدور افغانستان کے اندر حالات کو مستحکم کرنے میں مدد کرنی چاہئے تب جا کر مہاجرت کے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے ایران عراق تعلقات کے بارے میں کہا کہ ہماری پالیسی کا ایک حصہ پڑوسی پالیسی ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹجک تعلقات اور اعلیٰ سطحی تعاون کے باوجود، ہم عمل درآمد کے مرحلے میں دریائے اروند کی کھدائی کے حوالے سے عراق کے ساتھ معاہدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

ایٹمی معاہدہ دن بدن بے معنی ہوتا جا رہا ہے

وزیر خارجہ نے جے سی پی او اے کے بارے میں کہاکہ ہم اس سلسلے میں ریڈ لائنز عبور نہیں کریں گے۔ بعض اوقات فریق مخالف نے ہماری ریڈ لائنز پر توجہ نہیں دی، اب تک ہم JCPOA پر دستخط کرنے کے راستے پر نہیں لوٹے ہیں اور یہ معاہدہ دن بدن بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔ اب ہم JCPOA کے جال میں نہیں پھنسیں گے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *