[]
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
٭ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف آئے تو حکومتی ردِّ عمل کیا ہوگا۔
٭ کیا ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی صورت پیدا ہوگی۔؟
٭ کیا زعفرانی حکومت مخالف حکومت فیصلہ کو تسلیم کرے گی؟
٭ ملک کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔
آزادی کے ایک سال بعد ریاستِ جموں و کشمیر کے مہاراجہ نے اپنی ریاست کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ کئی شرائط بھی رکھیں جن کو ہندوستان نے تسلیم کرلیا۔ پھر اس کے بعد ریاست کے الحاق کی تیاریاں شروع ہوئیں ۔ جو شرائط مملکتِ ہندوستان نے تسلیم کرلیں‘ ان کو دستورِ ہند کے آرٹیکل370 اور 35-A میں جگہ دی گئی اور اس طرح ریاستِ جموں و کشمیر کو خاص مراعات دی گئیں۔ ان مراعات میں ترنگا اور کشمیر کے پرچم کی ایک ساتھ ایستادگی ۔ ریاست میں صرف کشمیریوں کو ہی حق رائے دہی‘ غیر کشمیریوں کی ریاست میں جائیدادوں کی خرید پر پابندی اور ہندوستان کے کسی بھی قانون کا ریاستِ جموں و کشمیر میں عدم اطلاق۔ اور دیگر کئی مراعات ہیں۔ آرٹیکل 35-A دستورِ ہند کے مطابق اگر مستقبل میں کسی بھی وقت ریاستِ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی ایک متفقہ قرارداد منظور کرے کہ اب دستورِ ہند کے آرٹیکل370کی کوئی ضرورت باقی نہیں ہے اور ایسی قرارداد صدرِ جمہوریہ کو پیش کرے تو صدرِ جمہوریہ کو اختیار حاصل ہوگا کہ ریاستِ جموں و کشمیر کے خصوصی موقف کو برخاست کردیں۔ گویا ایک ریاست کے اندر دوسری ریاست کے وجود کو تسلیم کرلیا گیا اور یہی موقف 5؍اگست 2019ء تک جاری رہا۔ ان مراعات میں خاص بات یہ بھی تھی کہ ریاست جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمتوں پر صرف کشمیریوں کا ہی حق ہوگا اور یہ حق ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے لوگوں کو نہیں دیا جائے گا۔
آرٹیکل 370اور 35-A کے اقتباسات کو اوپر بالکل سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو آسانی سے سمجھ میں آسکے۔
لیکن 5؍اگست 2019ء کی تاریخ کے دن حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کرکے ریاستِ جموں و کشمیر کے خصوصی موقف کو ختم کردیا۔ بل پاس ہوگیا اور پھر اس کے بعد ریاستِ جموں و کشمیر کا موقف ہی بدل دیا گیا۔ اب یہ ریاستِ جموں و کشمیر نہ رہی بلکہ دو مرکزی زیر انتظام علاقوں یعنی جوں کشمیر اور لداخ میں تقسیم ہوگئی۔ عموماً مرکزی زیر انتظام علاقوں کو ریاستوں میں ترقی دی جاتی ہے مثلاً پانڈیچری اور خود دہلی ۔ لیکن کشمیر میں الٹی گنگا بہہ گئی یعنی ریاست کو مرکزی زیرِ انتظام علاقوں میں تقسیم کردیاگیا۔
اس لاقانونیت کے خلاف کئی رٹ درخواستیں پیش کی گئیں۔ ان درخواستوں میں جن نکات کو اٹھایا گیا ان کی تفصیل اس طرح ہے۔
-1 کیا ریاست کے گورنر کی سفارش کو ریاست ِ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی سفارش سمجھا جاسکتا ہے؟
-2 کیا ریاستی گورنر جو حکومت ِ ہند کا مقرر کردہ ایک عہدیدار ہے‘ اس بات کا مجاز ہے کہ خود کو ریاست ِ جموں و کشمیر کے عوام کا منتخبہ صدر یا نمائندہ سمجھ کر اس قسم کی سفارش کرسکتا ہے۔؟
-3 کیا یہ کارروائی ریاستِ جموں و کشمیر کی مملکتِ ہند سے کئے گئے معاہدۂ الحاق کی خلاف ورزی میں ہے‘ جو بعد میں آرٹیکل370اور35-A کی قانون سازی کا باعث بنا۔
-4 کیا گورنر کی سفارش کو ریاستِ جموں و کشمیر کے عوام کی آواز سمجھا جائے گا؟
اب یہ بحث ان ہی چار نکات پر مرکوز ہے۔
11؍جولائی 2023ء کے دن چیف جسٹس آف انڈیا جو پانچ رکنی بنچ کی صدارت کررہے تھے‘ نے ایک سخت رخ اپناتے ہوئے حکومتِ ہند کے تازہ حلف نامہ کو قبول نہ کرتے ہوئے واپس کردیا اور کہا کہ ہم اپنی بحث صرف دستوری نکات تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں اور ان تمام باتوں کو سننا نہیں چاہتے کہ آرٹیکل370 کی برخاستگی کے بعد کس قدر ریاست میں امن و امان قائم ہوا اورعوام کی معاشی حالت کتنی بہتر ہوئی۔ ہم صرف اپنی بحث کو ان دستوری نکات تک ہی محدود رکھیں گے۔ ہم اس مقدمہ کی سماعت روزانہ اساس پر ہر ہفتہ میں بروز منگل‘ چہارشنبہ‘ اور جمعرات کریں گے اور اس مقدمہ کا اختتام کردیں گے۔ لہٰذا دوبارہ 2؍اگست 2023ء سے روزانہ اساس پر ہفتہ میں تین روز سپریم کورٹ کا دستوری پانچ رکنی بنچ سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ کے تیکھے تیوروں نے زعفرانی حکومت کو دہلا کر رکھ دیا اور اب ہر سیاسی اور صحافی حلقوں میں یہی بحث ہورہی ہے ۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اگر فیصلہ حکومت کے خلاف آیا اور دوبارہ آرٹیکل 370 اور 35-A کو برقرار رکھا گیا تو حکومت کی ساکھ متاثر ہوگی کیوں کہ یہ اقدام بھی انتخابی وعدوں میں سے آخری وعدہ تھا۔ رام مندر تو بن گیا۔ یونیفارم سیول کوڈ کے نفاذ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اور اگر فیصلہ حکومت کے خلاف آتا ہے تو مودی جی عوام کی دہلیز تک پہنچ جائیں گے اور کہیں گے کہ میں نے تو وعدہ پورا کرنے کی کوشش کی لیکن کیا کروں شائد میری تپسیا ادھوری تھی۔ اور اس طرح سے عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے مارک انٹونی کی طرح دوبارہ جنم لے کر اپنی دھنواں دار تقریروں کے ذریعہ سیاسی فائدہ اٹھائیں گے اور یہ تقریریں حیاتِ نو کا جامہ اوڑھے ہوئی کانگریس پارٹی کے لئے بہت نقصاندہ ثابت ہوں گی۔
دوسرے حلقوں میں ایسی باتیں گردش کررہی ہیں اور ایک بڑے سیاست دان اور صحافی مسٹر پریم شنکر جھا نے دو روز قبل اپنے انٹرویو میں کہا کہ مسٹر مودی جی کس حد تک جاسکتے ہیں کسی کو اندازہ نہیں۔ اگر یہ فیصلہ حکومت کے خلاف آتا ہے تو وہ ملک میں ایمرجنسی تک لاگو کرسکتے ہیں۔ اس 45منٹ کے انٹرویو کو(NEELU VYAS) چیانل پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ملک میں ایک ہیجانی صورت پیدا ہوسکتی ہے اور اس کو فرقہ وارانہ رنگ بھی دیا جاسکتا ہے۔ حالات انتہائی نازک ہیں۔ کل کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ UCC اور آرٹیکل 370 کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں ہر کسی کے لئے یہ ایک پریشان کن بات ہوسکتی ہے۔
GHMC اسپیشل ڈپٹی کلکٹر کی نوٹس کا جواب دینا ضروری ہے ورنہ معاوضہ محدود رہے گا
سوال:- میں پرانے شہر میں رہتا ہوں۔ گھر کے سامنے کی سڑک کو دونوں جانب مزید 40 فیٹ کی حد تک توسیع دی جارہی ہے جس میں میرا تقریباً سارا گھر متاثر ہورہا ہے۔ مکان تین منزلہ ہے اور سامنے سڑک سے لگ کر دو ملگیاں ہیں جن کے کرایوں پر ہمارا گزر ہے۔ GHMC کے اسپیشل کلکٹر لینڈ اکویزیشن نے نوٹس جاری کرتے ہوئے اعتراضات طلب کئے ہیں۔ میرا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ میرے گھر کو اور میرے پڑوسیوں کو ہی نشانہ بنایا گیا جبکہ سڑک کی دوسری جانب کے تمام مکانوں اور دوکانوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر سڑک کی توسیع چاہ رہے ہیں تو دونوں جانب کے مکانات کو نشانہ بنایا جاسکتا تھا جبکہ سڑک کے صرف ایک جانب ہی توسیع کی کارروائی کی جارہی ہے۔ اسپیشل کلکٹر نے اعتراضات طلب کئے ہیں اور اس مہینے کے آخر میں اعتراضات اور دستاویزات پیش کرنا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا سڑک کے صرف ایک ہی جانب توسیع دینے کے خلاف ہائیکورٹ سے کچھ راحت فراہم ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہورہے ہیں۔ اگر دونوں جانب کی جائیدادیں حاصل کی جارہی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس ضمن میں آپ سے گزارش ہے کہ قانونی رہنمائی فرمائیں۔
XYZ حیدرآباد
جواب:- نوٹس کو Whatsapp کے ذریعہ روانہ کیجئے۔ دیکھنے کے بعد ہی کچھ رائے دی جاسکتی ہے۔ پھر بھی آپ کو اس نوٹس کا جواب دینا چاہیے اور ان نکات کو اٹھانا چاہیے جن کا آپ نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔
بھائیوں کے حق میں وصیت
سوال:- میں اور میرے دوبھائیوں نے مل کر تجارت شروع کی اور ہماری متحدہ کوششوں سے ہم نے ایک بڑی تجارت قائم کی اور جائیدادیں بھی بنائیں۔ کاروبار میں ہم تینوں بھائی شریک پارٹنرس ہیں لیکن چار پانچ مکانات۔ کچھ پلاٹس میرے اپنے نام پر ہم سب کی کمائی سے خریدے گئے ۔ بھائیوں کے نام پر کوئی جائیداد نہیں ہے۔
بیگم صاحبہ اور ان کے دو بھائی مجھ پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ساری جائیدادیں میں اپنے دو بیٹوں کے نام کردوں تاکہ میرے بھائی محروم ہوجائیں۔
لیکن میں نے بھی ارادہ کرلیا ہے کہ اپنے بھائیوں کے نام پر میری تمام غیر منقولہ جائیدادوں میں سے ایک تہائی حصہ کی وصیت کروں تاکہ میرے بعد میرے بھائی محروم نہ ہوجائیں۔ میری جائیدادوں میں ان بھائیوں کی بھی محنت شامل ہے ۔ اس بارے میں جناب کی رائے مطلوب ہے۔
XYZ حیدرآباد
جواب:- آپ اپنے دونوں بھائیوں کے حق میں ایک ثلث حصہ جائیداد کی وصیت کرسکتے ہیں۔ اس وصیت کی رجسٹری کروادیجئے تو بہتر ہوگا۔آپ اگر نہ رہیں تو آپ کی غیر منقولہ جائیدادیں آپ کی اہلیہ اور دونوں بیٹوں کی ہوجائے گی اور دونوں بھائی محروم الورث ہوجائیں گے۔
لہٰذا آپ نے اچھا ارادہ کیا ہے ۔ اس ارادہ کی تکمیل جلد از جلد کردیجئے۔
سوال:- ہماری آبائی زرعی اراضی موقوعہ میڑچل موازی 12ایکر20گنٹہ ہے۔ پٹہ والد صاحب کے نام تھا اور ان کے نام پر پٹہ دار پاس بک اور ٹائٹل بک بھی تھی۔ زمین پر ہم کاشت نہیں کررہے ہیں کیوں کہ گزشتہ چند سالوں سے یہاں تعمیراتی سرگرمیاں ہورہی ہیں اور اراضی کی قیمت بہت ہی زیادہ یعنی کروڑوں روپے فی ایکر پہنچ گئی ہے۔ ایک سال قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ہم لوگ شہر میں تھے لہٰذا وہاں آنا جانا بہت کم تھا کیوںکہ ہماری دوسری مصروفیات بہت زیادہ تھیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ہم نئی پاس بک لینے پہنچے۔ ہمیں تحصیلدار نے کہا کہ عدالت جاکر وراثتی سرٹیفکیٹ لے کر آؤ۔ ‘ اس مطالبہ کی بھی تکمیل کردی گئی۔ اب جو گئے تو پتہ چلا کہ ہماری اراضی کی حد اب صرف چھ ایکر رہ گئی ہے اور ہماری ہی اراضی کے ساڑھے چھ ایکر پر کسی دوسرے نام پر منتقلی ہوکر دھرانی پورٹل میں اس شخص کے نام کی انٹری ہوئی ہے۔
جب ہم نے احتجاج کیا تو کہا گیا کہ اس آدمی سے Compromise کرلو تو چھ ایکر اراضی آپ کے نام کردی جائے گی۔ پتہ چلا کہ موجودہ شخص نے ایک سادہ بیع نامہ کی بنیاد پر اراضی اپنے نام پر منتقل کروالی۔ والد صاحب نے ایسا کوئی بھی بیع نامہ نہیں کیا تھا۔ وہ ایک ذمہ دار عہدیدار تھے۔ ان کی موت اور ہماری غیر حاضری اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ایسی دھاندلی کی گئی۔ اب آپ سے اس بارے میں قانونی رائے درکار ہے۔
XYZ حیدرآباد
جواب:- ایسی دھاندلیاں ہورہی ہیں اور یہ روز کا معمول ہے۔ آپ کو کسی اعلیٰ ریوینیو عہدیدار سے رجوع ہوئے بغیر مقامی سیول کورٹ میں ریکارڈ کی درستگی کا مقدمہ دائر کرنا چاہیے ۔ جب ریکارڈ عدالت آئے گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا اور آپ کی اراضی کے ریکارڈ میں تبدیلی کی جائے گی اور آپ کی اراضی آپ کو مل جائے گی۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰