’’دنیا پاگل ہے،یاپھر میں دیوانہ‘‘

[]

حمید عادل

حال ہی میں ہمیں احتیاط علی محتاط کے ساتھ ’’ پاگل خانہ‘‘ جانے کا اتفاق ہوا ۔جی نہیں! وہ ابھی پاگل نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی ہمارا دماغی توازن بگڑا ہے ، البتہ احتیاط علی محتاط کے چھوٹے بھائی’’غمگین علی غم زدہ‘‘ ضرورپاگل ہوچکے ہیں،ان کا ذہنی توازن بگڑنے کی بھی بڑی دلچسپ داستان ہے۔ ایک رات وہ، گھوڑے بیچ کر سورہے تھے کہ گھر میں سانپ گھس آیا،جسے دیکھ کر ان کی گونگی شریک حیات نے ’’سانپ ،سانپ ‘‘کاایساشورِقیامت برپاکیا کہ غمگین علی غم زدہ جو جنم سے بہرے ہیں، اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے!
پاگل خانے کاماحول بڑا ڈراؤنا تھا، بڑے سے ہال میں ٹی وی پر کوئی فلم چل رہی تھی ، جس کے ارد گرد کچھ لوگ جمع تھے ۔
’’ یہ کون لوگ ہیں؟‘‘
ہم نے احتیاط علی محتاط سے سوال کیا۔
’’ یہ وہ پاگل ہیں، جوفلم کاپہلے ہی دن پہلا شو دیکھنے کا جنون رکھتے تھے،اسی جنون نے انہیں آخر کارپاگل بنا دیا ۔‘‘
احتیاط علی محتاط نے پاگلوں کے تعلق سے رائے قائم کی۔
’’ شکل صورت سے تو لیکن یہ ہرگزپاگل دکھائی نہیں دیتے!‘‘
ہم نے حیرت سے کہا۔
’’ یہاں کوئی بھی شخص شکل صورت سے پاگل دکھائی نہیں دیتا،کیوںکہ یہ ابتدائی درجے کے پاگل ہیں۔‘‘
’’ اوہ آئی سی!‘‘
ہم نے سر کوزور زور سے ہلایا۔
احتیاط علی محتاط اپنے بھائی کو لے کر ڈاکٹر کے کیبن میں گھس گئے تو ہم اکیلے ہو گئے۔ہم ان کے ساتھ اس لیے بھی نہیں گئے کیونکہ ہم کچھ لمحات پاگلوں کے درمیان گزارنا چاہتے تھے۔دراصل ایک زمانے سے ہمارے دل میں یہ خواہش پل رہی تھی کہ ہم پاگلوں سے دریافت کریں کہ وہ پاگل بن کر کیسا محسوس کررہے ہیں؟ اگر ہمیں کوئی معقول جواب ملے توپھر ہم خود خوشی خوشی پاگل بننے کے لیے تیار تھے۔اب ہم آپ کو کیا بتائیں کہ ہمیں پاگلوں کو دیکھ کر بڑا رشک ہوتا ہے کیونکہ یہ دنیاوی فکروں سے بے نیازاپنی ہی دنیا میں مگن ہوتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں !
ہم ہال میں موجودپاگلوں کا تفصیلی جائزہ لے رہے تھے کہ دفعتاً ہم بدک گئے کیوںکہ کوئی شخص ہمارے نہایت قریب آکر نجانے کب سے ہمیں حسرت بھری نگاہوں سے گھورے جارہا تھا۔
’’ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے جناب، آپ اطمینان سے بیٹھیں ،میں تو آپ کو اکیلا پا کر بات چیت کے لیے چلا آیا۔‘‘
اجنبی شخص نہایت ملائم لہجے میں بولا۔
’’ بہت بہت شکریہ!‘‘
ہم نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ نووارد کا شکریہ توادا کیا لیکن ہم یہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ یہ شخص پاگل ہے یا پھر کسی پاگل کا نارمل رشتے دار!کیوںکہ یہاں کچھ پاگلوں کے ساتھ ان کے رشتے دار بھی موجود تھے۔ ہم نے اس شخص سے راست طور پرپوچھنا اس لیے گوارا نہیںکیاکیونکہ ہمیں ڈر تھا کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے،لیکن ہم نے اپنے آپ میں یہ فیصلہ ضرورکرلیا تھاکہ ہم اس شخص کی گفتگو اور حرکات و سکنات سے اس کے تعلق سے کوئی نہ کوئی رائے قائم کرلیں گے ۔ چنانچہ اس شخص سے کچھ دیر کی گفتگو سے ہی ہم نے تاڑ لیا کہ یہ شخص پاگل نہیں ہے!
دریں اثناء ایک دبلا پتلا شخص دوڑتا ہوا بلکہ ہوا میںاڑتا ہوا ہماری جانب آیا اور اس نے ہمارے کان میں جو سرگوشی کی اسے سنتے ہی ہمارے ہوش اڑگئے۔ اس نے کہا تھاکہ ’’جو شخص تمہاری گردن میں ہاتھ ڈالے بیٹھا ہے وہ ایک خطرناک قسم کا پاگل ہے، گردن میں ہاتھ ڈال کربڑی بیدردی سے گردن مروڑ دیتا ہے!‘‘ اتنا سننا تھا کہ ہم نے فوری پاگل(جسے ہم نہایت سمجھدار انسان سمجھ رہے تھے) کا ہاتھ بڑے سلیقے سے اپنی گردن سے ہٹادیا۔
’’ جناب! آپ اپنی کوئی نشانی دیجیے !‘‘
پاگل نے ہم سے فرمائش کر ڈالی۔
’’ ایسی کوئی نشانی ابھی ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔‘‘
ہم نے مسکرا کرتھوک نگلتے ہوئے بمشکل جملہ ادا کیا۔
’’ سل فون ہے نا۔‘‘
پاگل نے ہمارے سل فون کی جانب نادیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا:
ہم نے سٹپٹاکرسل فون شرٹ کی جیب سے نکالا اور اپنی پتلون کی جیب میں ٹھونستے ہوئے کہا:’’’ نہیں نہیں،سل فون ہم نہیں دے سکتے ۔البتہ جب ہم دوبارہ یہاں آئیں گے تو آپ کو اپنی کوئی نہ کوئی نشانی ضرور دیں گے۔‘‘
ہمارا دو ٹوک جواب سن کرپاگل خاموش نہیں ہوا بلکہ اس نے دلچسپ ریمارک کرڈالا:’’ آپ کودوبارہ یہاں آنے کے لیے خواہ مخواہ مزید رقم خرچ کرنی پڑے گی، بہتری اسی میں ہے کہ آپ مجھے ابھی اپنا سل فون دیدیں!‘‘
پاگل کا یہ ہوش اڑا دینے والاتبصرہ سن کر ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اتنا دوراندیش انسان بھلا پاگل کیسے ہوسکتا ہے؟لیکن ہمیں اپنی رائے اس وقت بدلنی پڑی جب وہ شخص ہمیں کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگا ۔ ہم دل ہی دل میں مختلف آیات کا ورد کرتے ہوئے وہاں سے کھسک کر اس بھلے آدمی کے قریب جاپہنچے جس نے ہمیں سرگوشی کے ذریعہ چوکنا کردیا تھا…
’’آپ نے اپنا نام نہیں بتایامحترم؟‘‘
ہم نے اس اجنبی شخص سے گفتگو کا آغاز کیا۔
’’ جی میرا نام سلمان خان ہے!‘‘
مریل قسم کے آدمی نے مسکرا کر جواب دیا، جس نے اپنی شرٹ فلم اسٹار سلمان خان کی طرز پر نجانے کس خوش فہمی میں کھلی رکھ چھوڑی تھی۔ اس کے پچکے ہوئے سینے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ہم کوئی ایکسرے دیکھ رہے ہیں۔ مجموعی طورپر کپڑوںاور چپل سمیت اس آدمی کا وزن پچیس تیس کلو سے زائد نہ تھا۔
’’ بڑی خوشی ہوئی سلمان صاحب آپ سے مل کر!‘‘
ہم نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔
’’ مجھ سے مل کر آپ کو خوشی کیوں ہوئی بھلا؟‘‘
سلمان خان نے شرارتی انداز میںسوال داغا۔
’’ آپ سے مل کر ہمیں خوشی اس لیے ہوئی جناب ، کیونکہ ہم اپنے دوست احباب سے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ’’سلمان خان‘‘ سے مل چکے ہیں!‘‘
’’ اوہ! اچھا اچھا!‘‘سلمان خان نے ایک زور دار قہقہہ فضا کی نذر کیا۔
’’ویسے آپ کی تعریف؟‘‘سلمان خان نے ہمارا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے سوال داغا۔
’’ جی ہم کالم نگار ہے!‘‘
’’ اچھا اچھا! تو آپ مزدور ہیں، بلڈنگ کے لیے کالم بناتے ہیں۔‘‘
’’ جی نہیں! ہم کالم بناتے نہیں لکھتے ہیں۔‘‘
’’ اچھا، اچھا! آپ کالم بناتے نہیں لکھتے ہیں، ویسے کالم کی تیاری میںسیمنٹ اور ریتی تو آپ عمدہ استعمال کرتے ہوں گے!‘‘
’’ جی؟یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
’’ ارے بھائی! آپ نے خودکہا ہے ناکہ آپ کالم بناتے ہیں!‘‘
’’ ہم نے کب کہا کہ ہم کالم بناتے ہیں،ہم تو طنزو مزاح پر مبنی کالم لکھتے ہیں بھائی۔‘‘
تو یوں کہیے نا کہ آپ رائٹر ہیں۔‘‘
’’ جی ہاں! ہم رائٹر ہیں!‘‘
’’اچھایہ تو بتایے کہ ایک کالم کے لیے کتنی سیمنٹ اور ریتی درکار ہوتی ہے؟‘‘
’’ جناب!ہم ریتی اور سیمنٹ کے کالم بنانے والے مزدورنہیں ہیں بلکہ ہم قلم کے مزدور ہیں، طنز و مزاح لکھتے ہیں، کہہ تو دیا ہے!‘‘اس بار ہمارے لہجے میں شدیدجھلا ہٹ تھی۔
’’ ویری گڈ!تو آپ طنز و مزاح لکھتے ہیں، یہ آپ کو پہلے ہی کہنا چاہیے تھا نا!‘‘ اور پھر قدرے توقف سے سلمان خان چہکے ’’عام طور پر آپ کس برانڈ کا سیمنٹ استعمال کرتے ہیں؟‘‘
’’ جناب! ہم آپ سے بار بارکہہ رہے ہیں کہ ہم سیمنٹ اور ریتی سے بنے کالم کھڑے نہیں کرتے بلکہ ہم طنز و مزاح پر مبنی کالم لکھتے ہیں۔‘‘اس بار ہمارا غصہ شدت اختیار کرگیا تھا۔
’’ارے ہاں ہاں! تو آپ عمارت والے کالم کھڑے نہیں کرتے ! ‘ ‘
’’جی نہیں!‘‘
’’، کالم لکھتے ہیں‘‘
’’ جی ہاں!‘‘
’’ تو پھرفوری ہماری خدمت میں فوری کوئی کالم پیش کیا جائے!‘‘
مضمون سنانے کی خواہش سن کرہمارے اندر کا کالم نگارمچل اٹھا اورہم نے لگے ہاتھوںاپنی تیسری تصنیف ’’رنگے ہاتھوں ‘‘ سے ایک مضمون منتخب کیا اور اسے شان بے نیازی سے سنانا شروع کردیا۔
سلمان خان، طنز و مزاح کے بہت بڑے شیدائی نکلے، وہ ہمارے مضمون کے ہر جملے بلکہ ہر لفظ پر اپنی بتیسی دکھارہے تھے۔جیسے جیسے ہم مضمون سناتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جارہے تھے ویسے ویسے سلمان خان کے قہقہے تیزسے تیز تر ہوتے چلے جارہے تھے بلکہ انہوں نے تودیوانہ وار قہقہے لگاتے ہوئے قلابازیاں کھانا اور اچھل کود کرنا بھی شروع کردیا تھا اور ہم خود بھی اس قدر جذباتی بلکہ باؤلے ہوچلے تھے کہ ہم سلمان خان کے پیچھے دوڑ دوڑ کر اپنا مضمون سنا رہے تھے ۔ ابھی ہمارا مضمون اختتامی مرحلے سے گزر رہاتھاکہ اچانک کسی کے مضبوط ہاتھوںنے پیچھے سے ہماری نازک سی گردن دبوچ لی اور کرخت لہجے میں ہم پر سوال داغا ’’پاگل خانے کے کس وارڈ سے تمہاراتعلق ہے؟‘‘
ہم نے پلٹ کر دیکھا توایک ہٹے کٹے شخص کو اپنے پیچھے کھڑا پایا۔اس کا سوال سنتے ہی ہمارے چہرے کی رنگت فق ہوگئی ، ہم نے نہایت معصومیت سے جواب دیا ’’ بھائی صاحب! ہم پاگل نہیں ہیں!‘‘
’’ تو پھر آپ ایک خونخوارپاگل کو اپنا مضمون اِترا اِترا کر کیوںسنار ہے تھے، جس نے اب تک دو قتل کردیے ہیں؟‘‘
’’کک ۔۔۔کیا ؟ہم ایک پاگل اور وہ بھی ایک خونخوار پاگل کو اپنا مضمون سنا رہے تھے؟‘‘
’’ جی ہاں!‘‘
وہ شخص غرایا۔
دوستو!اس ہٹے کٹے شخص کا انکشاف سن کرہم بڑی عجیب و غریب کشمکش اور الجھن میں مبتلا ہوچکے تھے،کیوںکہ اب تک ہمارے ساتھ یہی ہوتا آیا تھا کہ جس نے بھی کسی اور کو پاگل قرار دیا تھا بعد میں وہ خود پاگل نکلاتھا …ہم نے کھسیانے پن کا شکار ہوکر کھمبا نوچنے کی بجائے اپنے بال نوچے اور ایک پاگل خانے سے دوسرے پاگل خانے آگئے۔ جی ہاں! دنیا بھی توایک پاگل خانہ ہی ہے، جہاں ہم سب اپنی آخرت سنوارنے کی بجائے فانی دنیا کے پیچھے دیوانہ وار دوڑے چلے جارہے ہیں…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *