[]
رشحات قلم
عبد القیوم شاکر القاسمی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء امام وخطیب مسجد اسلامیہ استاد عربی ادارہ مظہرالعلوم نظام آباد تلنگانہ
9505057866
ریاست تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات کا شور ہے ہر پارٹی اور اس کا امیدوار پوری شدت سے مہم چلارہا ہے اور ہر کوی اپنی اپنی کامیابی کا دعویدار بھی نظر آرہا ہے
گرچیکہ فیصلہ 3ڈسمبر کو آنے والا ہے راے دہی مراکز پر تیاریاں شروع ہوچکی ہیں محلہ جات میں گشتی مہم اور ووٹر سلیپ بھی تقسیم ہورہے ہیں
بہر حال
اس وقت ہم سب مسلمانوں کے لیے سب سے اہم اوربنیادی کام ہے ووٹ ڈالنا اپنی حق راے دہی کا استعمال کرنا جس کی جانب بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ گذشتہ دوماہ قبل سے ہی ہماری ریاست تلنگانہ کے اکابر وبزرگ علماء کرام پورے منظم انداذ میں اس کی مہم بھی چلاتے آے ہیں جس کے نتیجہ ہزاروں ووٹرس کے ناموں کا الحمدللہ اندراج ہوا ہے اب بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان 30 نومبر کو صبح کی اولیین ساعتوں میں اپنے گھروں سے نکل کر پولنگ بوتھ پہونچیں اوراطمینان سے ووٹ کا استعمال کریں ۔۔۔۔
اس حوالہ سے میں چندباتین ذکرکرنا مناسب سمجھتا ہوں گرچیکہ آپ کے اپنے نظریات جدا ہوں۔۔۔۔۔میرا ماننا ہے الیکشن کے روز ہمارے لوگ تین طبقات میں بٹ جاتے ہیں
(1)مالدار اور انتہای مصروف ترین زندگی گذارنے والے لوگ
جو بہت آسانی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم کو ایک دن چھٹی کا مل گیا لہذا اس کوکارآمد بنالینا چاہیے اوروہ شہر کے باہر چلے جاتے ہیں کچھ رشتہ داروں سے ملاقات یا سیر وتفریح کا ان کو موقع مل جاتا ہے
(2)دوسرے طبقہ کے لوگ جو کچھ متمول گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ زیادہ مصروفیات ان کی نہیں ہوتی میرا ماننا ہے کہ صحیح سونچ سمجھ کر یہی طبقہ ووٹ ڈالتا ہے اور اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوے پورے اہتمام اورفکر سے راے دہی کا حق استعمال کرتا ہے
(3)تیسرا طبقہ وہ ہے سلم علاقوں کے باشی ہوتے ہیں جن کو ووٹ کی اہمیت اور وزن کا اندازہ نہیں ہوتا وہ لوگ صرف نوٹ کے بدلہ ووٹ ڈال کرسمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا حق ادا ہوگیا اورہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔
اب اس طبقاتی تناظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کا نظریہ صحیح اور درست ہے اور کون غلط راہ پر ہے
تو جواب بس اتنا ہوگا کہ
ہم میں سے ہر ایک کا ووٹ استعمال ہونا چاہیے اور صد فی صد راے دہی کو یقینی بنانے کی جان توڑ کوشش کرنی چاہیے ۔۔۔۔۔
اگر ہم قران وحدیث کی روشنی میں مذکورہ دونوں سوالات کے جوابات تلاش کریں تو معلوم ہوگا کہ
ووٹ
ہمارا ایک دینی شرعی فریضہ بھی ہے اورملی وملکی حق بھی ہے اس لےء ووٹ ڈالیں اور اس کو ضروری سمجھتے ہوے دالیں ۔۔۔
ووٹ
شرعی اعتبار سے تین حیثیتوں کا حامل ہے
1:شہادت یعنی گواہی
2:شفاعت یعنی سفارش
3: حقوق مشترکہ میں وکالت یعنی ہمارا منتخب کردہ نمائندہ ملکی وملی حقوق میں ہمارا وکیل ہے
ان تینوں اعتبارات سے بھی ہمارے ووٹ کا استعمال لازمی طور پر ہونا چاہیے
اگر ایمانداری کے ساتھ جائزہ لے کر ووٹ ڈالیں تو اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے اوراگر محض کسی کی دشمنی یا مال ودولت کی لالچ میں ووٹ ڈالیں گے تو ظاہر ہے کہ برے اثرات مرتب ہوں گے
علماء کرام نے لکھا ہے کہ ہرمسلمان ووٹر پر فرض ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اس بات کی پوری پوری تحقیق کرلیں کہ جس کو ووٹ دے رہا ہوں وہ کام کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں اور قوم وملت کے مسائل کو حل کرنے میں دیانتدار ہے یا نہیں
محض غفلت ولاپرواہی یا اس کو معمولی سمجھ کر اپنے ووٹ کو ضائع کردینا بھی جرم ہے
اللہ پاک توفیق فہم وسمجھ نصیب فرمائے
آمین