[]
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
فلسطین ایک ایسا علاقہ ہے، جس سے دنیا کے تین بڑے مذاہب کا رشتہ ہے، یہودیت، عیسائیت اور اسلام، اور نسلی اعتبار سے بھی وہ مختلف قوموں کا مسکن رہا ہے، کنعانی، آموری، اَشوری، بابلی وغیرہ، ایران کے بت پرست بادشاہوں نے بھی اس خطہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی ہے اور جب رومیوں نے عیسائیت قبول کیا تو انھوں نے بھی وہاں یہودیوں کا قتل عام کیا، ظاہر ہے یہاں فاتحین کی بھی ایک معتد بہ تعداد نے قیام کیا ہوگا؛
اس لئے آج کل جو یہودی، مذہب یا وطن کی بنیاد پر فلسطین پر اپنا استحقاق جماتے ہیں، ان کا دعویٰ درست نہیں ہے، اگر یہاں یہودیوں کی مقدسات ہیں تو عیسائیوں کی بھی ہیں اور مسلمانوں کی بھی، یہود کہتے ہیں کہ یروشلم ان کا مقدس ترین شہر ہے، جو اُن کے عقیدے کے مطابق دنیا کا وسط ہے، اور یہیں ان کا ہیکل تعمیر ہوا تھا، مسجد اقصیٰ کے مغرب میں دیوار گریہ واقع ہے، یہ یہودیوں کے نزدیک سب سے مقدس مقام ہے، یہیں جبل صیہون اور جبل موریاہ ہیں، ان دونوں پہاڑوں سے ان کی متبرک یادیں وابستہ ہیں، یہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت اور حضرت داؤد علیہ السلام کی قبر ہے،
ان کے خیال میں یہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی دی تھی، تورات کے بیان کے مطابق یہیں خدا نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے کلام کیا تھا؛ اس لئے وہ اس کے وارث ہیں؛ مگر ان کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے؛ کیوں کہ اسی شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی ہوئی اور عیسائیوں کے لئے اس سے بڑھ کر مقدس مقام اور کیا ہو سکتا ہے؟ عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق یہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دی گئی اور ان کو دفن کیا گیا اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہیں سے وہ آسمان کی طرف تشریف لئے گئے، اسی خطہ میں انھوں نے دعوت حق کا جھنڈا بلند کیا۔
اگر مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہود جن انبیاء کی نسبت سے اس کو مقدس مانتے یں، مسلمان بھی ان تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں؛ بلکہ وہی ان کی حقیقی تعلیمات کو انسانیت تک پہنچانے کا کام کر رہے ہیں، اور ان انبیاء کی نسبت سے جو مقامات ہیں، ان کا پورا احترام کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حرمین شریفین کے بعد مسلمانوں کے نزدیک بیت المقدس افضل ترین جگہ ہے، یہیں مسجد اقصیٰ واقع ہے، جو مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور یہیں قبۃ الصخرۃ ہے، جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا سفر فرمایا ہے؛ اس لئے صرف مذہبی مقامات کی وجہ سے شہر کی ملکیت ثابت ہو تو اس کے سب سے زیادہ مستحق مسلمان ہیں؛ مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں مقدس مقامات کی وجہ سے کسی قوم کو زمین کا وارث نہیں مانا جاتا، اگر ایسا ہو تو ہندوستان کو بدھ مت کے پیروکاروں کے حوالہ کر دینا چاہئے، ایسی بنیادوں پر اگر صدیوں سے آباد ملکوں کی نوعیت تبدیل کی جائے تو اس سے دنیا میں ایک بڑا فساد شروع ہو جائے گا۔
یہود کہتے ہیں کہ وہی اس ملک کے اصل اور سب سے قدیم باشندے ہیں، ان کو اجاڑ کر دوسری قوموں نے اس خطہ پر قبضہ کیا ہے؛ لیکن اول تویہ بات ہی قابل غور ہے کہ کسی خطہ پر جو قوم آباد ہے، کیا اس کو ہٹا کر صدیوں پہلے جو قوم آباد رہی ہے، اس کو وہاں لا کر آباد کیا جا سکتا ہے؟ غور کیجئے کہ اس سے پوری دنیا میں کس قدر افرا تفری پیدا ہوگی، ایسی صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ امریکہ ریڈ انڈینس کا ہے، امریکہ کی سفید فام آبادی کو ملک بدر کر کے وہاں ریڈ انڈین قوم کو آباد کرنا اور اقتدار حوالہ کرنا ہوگا، ضروری ہوگا کہ آریہ نسل لوگوں کو بھارت سے ملک بدر کیا جائے اور پورے ملک میں دراوڑی نسل کے لوگوں کو بسایا جائے یا کم سے کم اقتدار کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں دی جاے، کیا یہ بات ممکن ہے؟ نامعلوم تاریخ سے مختلف اقوام کی ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کا سلسلہ جاری ہے، دنیا میں کم ہی ایسی قومیں ملیں گی کہ ان کے ذریعہ اس خطہ میں انسانی آبادی شروع ہوئی ہو اور تسلسل کے ساتھ وہی اس ملک میں موجود ہوں۔
جہاں تک فلسطین کی بات ہے تو تاریخی محققین کے نزدیک یہاں پہلے آموری آباد تھے، اس کے بعد یہاں عرب سے کنعانی آئے اور اسی نسبت سے ان کو کنعان کہا جانے لگا، یہ کنعانی بعد میں آہستہ آہستہ مسلمانوں کا حصہ بن گئے، پھر اس خطہ پر مختلف قوموں کا اقتدار رہا، اسیریوں کا، بابلیوں کا، عبرانیوں کا، یونانیوں کا، رومیوں کا، ایرانیوں کا، سلجوقیوں کا اور عثمانیوں کا،ظاہر ہے کہ جس زمانے میں جو قوم بر سر اقتدار رہتی ہے، اس قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ اس خطہ ارض پر آباد بھی ہوتے ہیں۔
دوسرے:یہ بات بھی غلط ہے کہ یہود یہاں کی قدیم ترین قوم ہیں، آثار قدیمہ کی کھدائی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں پہلے غیر سامی قبائل آباد تھے، جن کے یہاں مُردوں کو جلایا جاتا تھا؛ اس لئے کہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں کئی جگہ ایسی قبریں ملی ہیں، جن میں جلائے ہوئے مردے دفن کئے گئے ہیں، پھر یہاں آموری آباد ہوئے، جن کی نسل غالباََ ختم ہو چکی ہے، پھر عرب سے کنعانی آئے، ان کے دور میں یہاں دریائے فرات اور دریائے اردن کی دوسری طرف سے لوگ آئے، کنعان کے لوگ ان کو’’ عبرم‘‘ کہتے تھے، جس کے معنی تھے باہر سے آنے والے، یہی لفظ وقت کے گزرنے کے ساتھ عبرانی بن گیا، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عبرانی کے لفظ میں ہی یہ بات موجود ہے کہ فلسطین ان کا اصل آبائی وطن نہیں تھا؛ بلکہ وہ دریائے فرات کی دوسرے جانب سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے، مؤرخین کہتے ہیںکہ’’ اُر‘‘ نامی مقام سے کنعانی یہاں آئے تھے اور’’ اُر‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دور ہزار سال پہلے تہذیب وثقافت کا عظیم مرکز تھا،
قرآن مجید کے بیان اور مفسرین کی تشریح سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں پیدا ہوئے تھے، اور وہیں انھوں نے صدائے توحید بلند کی تھی، اگر یہود عبرانی ہیں اور عبرانی ان کے دعوے کے مطابق حضرت ابراہم علیہ السلام کی اولاد ہیں تو یہ بات صاف ہوگئی کہ یہودی فلسطین کے اصل باشندے نہیں ہیں، وہ عراق میں واقع دریائے فرات کی دوسرے جانب سے یہاں پہنچے تھے؛ اس لئے یہودیوں کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ وہ فلسطین کے حقدار اس لئے ہیں کہ وہ یہاں کے سب سے قدیم باشندے ہیں۔
غرض کہ اول تو کسی ملک پر دعویٰ کرنے کی یہ بنیاد ہی صحیح نہیں ہے کہ وہ اس کے قدیم شہری ہیں، دوسرے : دعویٰ بھی غلط ہے کہ وہ یہاں کے سب سے قدیم باشندے ہیں، اللہ تعالیٰ جزائے دے علامہ اقبال کو کہ انھوں نے دو مصرعوں میں یہودیوں کی اس کھوٹی دلیل کا جواب دے دیا ہے، فرماتے ہیں:
ہے ارض فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ کیوں نہیں حق اہل عرب کا
بابائے قوم مہاتما گاندھی جی نے بھی یہودیوں کے اس غلط دعوے اور اہل مغرب کی بے جا تائید پر صاف لفظوں میں رد کیاہے، انھوں نے اپنے اخبار ’’ ہریجن‘‘ ۱۲؍ نومبر ۱۹۳۸ء میں ذکر کیا ہے:
’’اگرچہ مجھے یہودسے مکمل ہمدردی ہے؛ لیکن یہ ہمدردی مجھے انصاف کے تقاضوں سے اندھا نہیں کر سکتی، یہود کی قومی وطن کی آواز مجھے متأثر نہیں کرتی، فلسطین اسی طرح عربوں کا ہے، جس طرح انگلینڈ انگریزوں اور فرانس فرانسیسیوں کا، یہود کو عربوں پر مسلط کرنا غلط ہوگا، اگر یہود کا فلسطین کے علاوہ کوئی وطن نہیں ہے تو کیا دوسرے ممالک میں رہنے والے یہود کا ان ممالک سے نکالنے کے لئے تشدد کرنا جائز ہوگا؟ یا وہ دوہری وطنیت چاہتے ہیں؟ تورات والا فلسطین اب جغرافیائی چیز نہیں ہے، صرف یہود کے دلوں میں ہے‘‘
یہودی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہماری ارض موعود ہے اور اس کے لئے وہ تورات کی مختلف عبارتوں کا حوالہ دیتے ہیں:
۰’’ خدا نے ابراہیم کو کہا: اپنے ملک کو چھوڑو اور اس علاقے میں چلے جاؤ، جو میں تمہیں دکھاؤں، اس علاقے میں دنیا کے نعمت یافتہ خاندان آباد ہوں گے‘‘
۰’’ اے اسرائلی وہ دن آرہے ہیں، جب تیری نسل زمین کے تباہ شدہ شہروں کو تعمیر کر کے آباد کرے گی اور میں انہیں اپنی دی ہوئی زمین میں اس طرح مستحکم طور پر آباد کروں گا کہ پھر کوئی انہیں نکال نہ سکے گا‘‘
۰’’ خدا نے ابراہیم سے حتمی وعدہ کیا کہ وہ اس کی نسل کو ستاروں کی طرح زیادہ کر دے گا اور ارض موعود پر انہیں حکمرانی عطا کرے گا‘‘
۰’’ میں تیرے جانشینوں کو آسمان کے ستاروں کے برابر کردوں گا، اور یہ ساری زمین جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا ہے، انہیں عطا کر دوں گا اور اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ آباد رہیں گے‘‘
تورات کے ان ارشادات پر غور کیجئے! پہلی بات یہ ہے کہ خدا نے یہ وعدہ ابراہیم کی نسل کے لئے کیا ہے، حضرت ابراہیم کے دو صاحبزادے تھے، حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق، حضرت اسماعیل کی اولاد عرب ہیں جنھوں نے اسلام قبول کیا اور حضرت اسحاق کی نسل سے یہودی ہیں، تو صرف یہودی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل نہیں ہیں، یہ وعدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واسطے سے دونوں قوموں کو حاصل ہے، بنی اسماعیل کو بھی اور بنو اسرائیل کو بھی، دوسرے اس میں کہا گیا ہے کہ میں تیرے جانشینوں کو اور تیری نسل کو ستاروں کے برابر کردوں گا، یعنی نسل ابراہیمی کی تعداد بہت بڑھ جائے گی، اب غور کیجئے کہ دنیا میں یہودیوں کی کتنی قلیل آبادی ہے، اس وقت ان کی آبادی ایک کروڑ ہے اور کبھی بھی کروڑ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ یہودیوں کی آبادی نہیں ہوئی؛ اس لئے اس پیشین گوئی کا مصداق مسلمان ہی ہو سکتے ہیں، جن کی آباادی دنیا میں دو ارب کے قریب ہے، ایشیاء، افریقہ اور یوروپ میں تقریباََ ساٹھ ممالک ان کے زیر اقتدار ہیں اور دنیا کے کونہ کونہ میں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی موجود ہے؛ اس لئے اس پیشین گوئی کا مصداق مسلمان ہیں نہ کہ یہود۔
بین الاقوامی قانون کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ فلسطین پر مسلمانوں نے حکومت صرف جنگ وجدال سے نہیں قائم کی؛ بلکہ اس وقت جو قوم بر سر اقتدار تھی یعنی عیسائی ، باقاعدہ معاہدہ کی بنیاد پر ان سے حاصل کی، جو سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عیسائی حکمران کے درمیان ہوا تھا اور صلیبی جنگوں کے بعد بھی انگلینڈ کے صلیبی افواج کے سربراہ کی حیثیت سے رچرڈ نے یہ علاقہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے بھائی ملک العادل کے ساتھ اپنی بہن کی شادی کرتے ہوئے جہیز میں دینے کا فیصلہ کر کے بہت المقدس پر دعویٰ سے دستبردار ہو گیا تھا، اس طرح جو بر سر اقتدار حکومت تھی، مسلمانواں نے ایک معاہدہ کے تحت فلسطین کے خطہ کو حاصل کیا ہے اور وہ اس وقت سے ہمیشہ اس ملک میں آباد رہے ہیں، فلسطین سے یہودیوں کے تعلق کا حال یہ ہے کہ ۱۴۹۵ء میں یروشلم میں صرف دو سو یہودی تھے اور ایک سیاح کے بیان کے مطابق ۱۲۶۷ء میں صرف دو یہودی خاندان آباد تھے؛ لیکن مسلمان حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کی فتح کے بعد سے ہمیشہ فلسطین کو اپنے سینہ سے لگائے رہے، سوائے اس وقفہ کے جب کہ صلیبیوں نے زبردستی اس پر قبضہ کیا اور ۱۹۴۸ء کے بعد جب مغربی طاقتوں کی ساز ش سے اسرائیل کا خنجر عربوں کے سینہ میں گھونپ دیا گیا؛ اس لئے تاریخی حقائق بین الاقوامی اور نسلی تعلق کے اعتبار سے بھی فلسطینی اور ان کے واسطہ سے امت مسلمہ ہی اس ارض مقدس کی مالک ہے، یہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کا حاصل ہے؛ بلکہ بین الاقوامی قانون بھی اس کی پشت پرہے!!!
٭٭٭