[]
بھارت کے قومی دارالحکومت میں بدترین فضائی آلودگی کے بحران پر قابو پانے کے لیے دہلی حکومت کے مصنوعی بارش کرانے کے منصوبے پر 13 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ لیکن یہ کرائی کیسے جاتی ہے اس کے مضمرات کیا ہیں؟
دہلی اور اس کے اطراف میں جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ہونے والی ہلکی بارش سے گوکہ فضائی آلودگی سے پریشان حال لوگوں کو تھوڑی سے عارضی راحت ملی ہے لیکن ماہرین کے مطابق آلودگی کی یہ صورت حال فوراً ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اسی کے مدنظر دہلی کی عام آدمی پارٹی حکومت نے دارالحکومت کے کچھ علاقوں میں مصنوعی بارش (آرٹیفیشئل رین) کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
دہلی کے وزیر ماحولیات گوپال رائے نے جمعرات کو بتایا کہ حکام کو دہلی میں مصنوعی بارش کرانے کے حوالے سے ہدایات دے دی گئی ہیں۔ اس منصوبے پر تقریباً 13 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔
گوپال رائے نے بتایا کہ بھارت میں انجینیئرنگ کے معروف ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی)، کانپورکے ماہرین کی ایک ٹیم نے مصنوعی بارش کے سلسلے میں تفصیلی تجویز پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آئی آئی ٹی پہلے بھی مصنوعی بارش کے تجربات کرچکی ہے۔ لیکن اس نے یہ تجربات بارش کے موسم میں کیے تھے اور سردیوں کے لیے یہ ایک نیا تجربہ ہو گا۔
مصنوعی بارش کے لیے آسمان میں کم از کم 40 فیصد بادلوں کا ہونا ضروری ہے۔ وزیر ماحولیات کا کہنا تھا کہ ماہرین موسمیات کے مطابق 20-21 نومبر کو بادل کی مطلوبہ مقدار رہے گی اور ان دنوں میں مصنوعی بارش کرائی جاسکتی ہے۔
مصنوعی بارش کیسے کرائی جاتی ہے؟
مصنوعی بارش کلاوڈ سیڈنگ (Cloud seeding) تکنیک کے ذریعہ کرائی جاتی ہے۔ اس کے لیے خصوصی ہوائی جہاز کے ذریعہ دو سے چار ہزار فٹ کی بلندی سے بادلوں کے اوپر سوڈیم کلورائیڈ، سلور آئیوڈائیڈ اور دیگر کیمیکل چھڑکے جاتے ہیں جو بادلوں میں برفیلے کرسٹلز بناتے ہیں اور بادلوں کو بھاری کر دیتے ہیں، جس کے بعد بارش ہونے لگتی ہے۔ ہوائی جہاز کی جگہ زمین سے راکٹ یا مخصوص آلات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
لیکن مصنوعی بارش ہر قسم کے بادلوں اور ہر موسم میں نہیں برسائی جاتی بلکہ اس کا لیے خاص ماحول درکار ہوتا ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کے مطابق دس میں سے تین قسم کے بادلوں میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ایسے بادل جن کی تہہ سات سے دس ہزار فٹ موٹی ہو۔ مصنوعی بارش کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہوا میں رطوبت یعنی نمی 70 سے 75 فیصد ہو اور ہوا کی رفتار 30 سے 50 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو۔ جب تک یہ سارے عوامل نہ ہوں مصنوعی بارش کا تجربہ مکمل کامیاب نہیں ہو سکتا۔
دنیا بھر میں مصنوعی بارش کا استعمال
کہا جاتا ہے کہ دو امریکی سائنس دانوں ونسنٹ شیفر اور برنارڈ وونیگو نے سن1946 میں پہلی مرتبہ مصنوعی بارش کرانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے ڈرائی آئس کا استعمال کرکے کامیاب کلاوڈ سیڈنگ کی تھی۔
آج دنیا کے پچاس سے زائد ملکوں میں کلاوڈ سیڈنگ کے پروگرام چل رہے ہیں۔ امریکہ، چین، مالی، تھائی لینڈ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک خشک سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال کر رہے ہیں۔
سن 2008 میں بیجنگ اولمپکس کے دوران اس کا استعمال کرکے اس امر کو یقینی بنایا گیا تھا کہ بارش افتتاحی اور اختتامی تقریب کا مزہ خراب نہ کردے۔ اس کے لیے کلاوڈ سیڈنگ تکنیک کی مدد سے وقت سے پہلے ہی بارش کرالی گئی تھی۔ اب اس کا استعمال نجی پروگراموں میں بھی ہونے لگا ہے۔ آج کل کچھ ایونٹ کمپنیاں شادی سے قبل بارش کرانے کا کام بھی کرتی ہیں تاکہ شادی کے دن ‘رنگ میں بھنگ’ نہ پڑ جائے۔
مصنوعی بارش کے مضمرات
بھارت میں بھی کلاوڈ سیڈنگ کے تجربات 1950کی دہائی سے جاری ہیں لیکن اس پر اب تک کوئی قومی پالیسی نہیں بنی ہے۔ اس لیے دہلی میں مصنوعی بارش کرانے سے قبل حکومت کو سپریم کورٹ کی اجازت درکار ہے۔ یوں تو مصنوعی بارش کا طریقہ بظاہر بڑا ہی دل خوش کن اور آسان لگتا ہے لیکن اس کے مضر اثرات بھی ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ بادلوں کو برسایا تو جا سکتا ہے لیکن وہ اپنی مرضی سے ہی رکیں گے۔ اسکے علاوہ اس طریقہ کار کو اپنانے سے ماحول پر غیر فطری دباؤ بڑھ جاتا ہے، شدید حبس اور گرمی بڑھ سکتی ہے۔ چونکہ اس بارش کے پانی میں کیمیائی مادے شامل ہوتے ہیں اس لیے یہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;