عوام ایک بار پھر کانگریس کو موقع دینا چاہتی ہے: سابق ڈی جی پی

[]

سابق آئی پی ایس افسر ایم ڈبلیو انصاری نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں بھی عوام نے اپنی مرضی سے بی جے پی کو مسترد کر کے کانگریس کو چنا تھا، اس امید پر کہ اب امن و انصاف ہوگا

<div class="paragraphs"><p>سابق آئی پی ایس افسر ایم ڈبلیو انصاری / یو این آئی</p></div>

سابق آئی پی ایس افسر ایم ڈبلیو انصاری / یو این آئی

user

بھوپال: آج ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتیں بیداری ہو چکی ہیں اور ان کا سیاسی شعور پختہ ہو چکا ہے اس مرتبہ لاکھ کوششوں کے باوجود ووٹوں کی تقسیم ممکن نہیں کانگریس کے حق میں ماحول بن چکا ہے، امید ہے کہ وہ اس بار زبردست اکثریت سے فتح یاب ہو گی تاکہ آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے آیا رام اور گیا رام کا کھیل نہ ہو سکے ان خیالات کا اظہار سابق آئی پی ایس افسر ایم ڈبلیو انصاری نے یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں کیا۔

مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزورم میں عوام الناس کانگریس کو دیکھنا چاہتی ہے۔ ہر طرف سے کانگریس کا بول بالا ہے۔ امید ہے کہ اس مرتبہ کانگریس حکومت بنے گی لیکن اس کے باوجود عوام کانگریس سے بھی یہ سوال کر رہی ہے کہ جس امید سے عام آدمی کانگریس کو جتا رہا ہے کیا کانگریس اس امید پر کھرا اترے گی؟ عوام سوال کر رہی ہے کہ کانگریس کے پاس آئندہ کا کیا ایجنڈا ہے؟ نوجوانوں کے روزگار کے لئے، کسانوں کے لئے، اقلیتوں کے لئے، خواتین تحفظ کے لئے؟ وہ سب واضح کرے اور اعلان کرے کہ کانگریس حکومت بنتے ہی ان سب پر عمل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں بھی عوام نے اپنی مرضی سے بی جے پی کو مسترد کر کے کانگریس کو چنا تھا، اس امید پر کہ اب امن و انصاف ہوگا۔ ہر ایک کو اس کا حق ملے گا۔ ہر مذہب والے کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی پوری آزادی ہوگی۔ریاست میں قانون آئین کے مطابق چلے گا، لیکن افسوس کہ بی جے پی نے اپنے مزاج اور پالیسی کے تحت اور اپنی فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دھوکے سے ،فریب سے اور پیسوں کے بل پر تختہ پلٹ کر دیا اور ان بچے ہوئے برسوں میں ظلم کی انتہا کر دی لیکن عوام الناس کو سب بخوبی یاد ہے ۔

انہوں نے کہا، ”جب ظلم کی انتہا ہو جاتی ہے اور عام آدمی ظلم برداشت کرتے کرتے عاجز آ جاتا ہے تو وہ ظالم کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر چاہے وہ ظلم کسی بھی نوعیت کا ہو۔ دلتوں کی بہو-بیٹیوں کے ساتھ عصمت دری ہو، یا کسی غریب مزدور پر پیشاب کرنے کا واقعہ، پہلوان بچیوں کے ساتھ ناانصافی ہو یا پھر پوری زندگی کی محنت سے بنائے ہوئے گھر پر بلڈوزر کا چلنا ہو، نہتے مسافر سے جبریہ نعرے لگوانا ہو، پتنگ ڈور کے معاملے میں بے گناہوں کی سزا ہو یا پھر بلقیس بانو جیسی مظلوم کو انصاف نہ ملنا ہو، کسانوں کے ایم ایس پی کا معاملہ ہو یا پھر گورنمنٹ ملازمین کے ساتھ ناانصافی ہو۔ عام آدمی بھولا نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے الزام لگایا کہ ہمارے ملک ہندوستان کا ماحول گزشتہ نو دس برسوں میں کس طرح خراب ہوا ہے تو یقیناً ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے اس میں سب سے بڑا ہاتھ بر سر اقتدار پارٹی کا ہی رہا ہے جس میں ظالموں کو تحفظ دیا گیا مظلوموں کے ساتھ ناانصافی سے کام لیا گیا ۔جو امیر تھے انہیں مزید امیر اور دولت مند بنایا گیا ہے اور جو غریب تھے وہ غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے ہیں۔ نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ آج نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے، نوکری کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔نیز جو نوکری پیشہ افراد اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں ان کی پنشن بھی بند کر دی گئی ہے۔

پرانی پنشن اسکیم کی دوبارہ بحالی کی بات حکومت نہیں کرتی بلکہ اس حکومت کی ساری کی ساری صلاحیت محض جگہوں، سڑکوں اور شہروں کے نام تبدیل کرنے میں صرف ہوئی ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ نئی سڑکیں بنائی جاتیں، نئی فیکٹریوں کا قیام عمل میں آتا جس سے روزگار کے مواقع بڑھتے اور ان جگہوں کا نام عظیم ہستیوں کے نام پر رکھا جاتا تو شاید ملک کی عوام ان کے کام تعریف بھی کرتی۔

چھتیس گڑھ کے سابق ڈی جی پی نے کہا کہ کیا بی جے پی عوام کو بے وقوف اور احمق سمجھتی ہے؟ انتخابات کے آخری سال میں ترقیاتی کام کر کے، غریب بہنوں کو چند روپے دے کر چند نوجوانوں سے روزگار کا وعدہ کر کے، محض چناؤ جیتنے کے لئے کسانوں کا ایم ایس پی بڑھا دینے سے عوام گزشتہ برسوں میں ہوئے مظالم کو بھول جائے گی۔ عوام یہ بھی سوال کر رہی ہے کہ چناؤ سے عین پہلے جنتا آپ کو یاد آئی ہے اب ان سب چیزوں کا لالچ دے کر آپ چناؤ جیتنا چاہتے ہو؟ اور جیتنے کے بعد پھر وہی حال ہونے والا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس بار بڑی اکثریت سے چناؤ جیتنا ضروری ہے تاکہ کسی بھی طرح کی دھوکہ دہی نہ ہو سکے ۔یہ بھی سچ ہے کہ ایس سی، ایس ٹی، دلت، او بی سیز اور اقلیتوں کے بغیر اکثریت کے ساتھ جیت ممکن نہیں ۔اس لئے کانگریس کو انہیں ساتھ لے کر چلنا ہی پڑے گا اور جو کوتاہی کانگریس نے ٹکٹ تقسیم وغیرہ میں کی ہے، اس کی تلافی بھی کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ایجنڈا بنانا چاہئے۔ جس طرح بی جے پی نے، ”سب کا ساتھ سب سب کا وِکاس“ نعرہ دیا ہے، کانگریس کو بھی ”ساری جنتا ایک سمان، ہندو ہو یا مسلمان “ کا نعرہ دینا چاہئے اور اسی کے تحت آگے کام کرنا چاہئے۔


;

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *