[]
مہر خبررساں ایجنسی_ بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جرائم نے چونکا دینے والی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ آٹھ ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں سے نصف بچے ہیں۔ دسیوں ہزار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
تقریباً دو لاکھ مکانات تباہ ہوئے۔ غزہ کے رہائشی علاقوں کے بڑے حصے بالخصوص اس کے شمالی حصے مٹی کے ڈھیر میں بدل چکے ہیں۔
غاصب اسرائیل معصوم لوگوں کو اپنے تباہ کن ہتھیاروں سے نشانہ بناتا ہے جن میں ایک ٹن وزنی بم سے لے کر فاسفورس بم تک شامل ہیں۔ پانی، بجلی، انٹرنیٹ اور ٹیلی فون منقطع ہیں۔
عوام کی اشیائے خوردونوش کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ دوا ختم ہو رہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے لوگوں کو تباہ کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا ہے۔
ان وحشت ناک جرائم نے بین الاقوامی سطح پر عوامی غم و غصہ کو ہوا دی ہے۔ لندن، نیویارک، پیرس اور دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں زبردست مظاہرے کئے گئے ہیں۔ مظاہروں کا دائرہ امریکی کانگریس کی عمارت اور کینیڈا میں حکومتی مراکز تک پھیل گیا ہے۔
دنیا بھر میں مشرق اور مغرب کے بہت سے سیاست دانوں نے ان جرائم کی مذمت کی ہے۔ ہسپانوی کابینہ کے وزیر اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ بولیویا نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ دیگر ممالک جیسے چلی اور کولمبیا نے اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والے اسلامی ممالک نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی سنجیدہ اور ذمہ دارانہ ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
صرف اردن نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلایا ہے۔ ایسے وقت میں جب صیہونی حکومت کے جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں اور 20 لاکھ آبادی پر مشتمل مسلم آبادی کا وجود خطرے میں ہے، اسلامی ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیں اور اس ملک سے اپنے تعلقات منقطع کر لیں یا کم از کم دھمکی دیں کہ اگر اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملے اور عام شہریوں اور فلسطینی بچوں کا قتل عام جاری رہا تو وہ اس حکومت سے اپنے تعلقات منقطع کر لیں گے۔
کوئی بھی ان (نام نہاد مسلم) ممالک سے فوجی لڑائیوں میں حصہ لینے کی توقع نہیں رکھتا لیکن اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا توقع کی جاسکتی ہے۔ اسرائیل کے لیے علاقائی ممالک کی اہمیت کے پیش نظر یہ خطرہ اسرائیل پر شدید دباؤ ڈال سکتا ہے اور غزہ کے معصوم لوگوں کی حقیقی مدد کر سکتا ہے۔
ان اقدامات سے غزہ کے بہت سے مسلمانوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں اور بچوں اور عورتوں کے بے دریغ قتل کو روکا جا سکتا ہے۔
اس لیے تمام مسلم اقوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی حکومتوں کو مخاطب کریں اور ان سے کہیں کہ وہ تماشائی بننا چھوڑ دیں اور مظلوم فلسطینیوں کی جان بچانے کے لیے موثر اقدام کریں۔
اب اسرائیل نے اپنے جرائم سے مسلم ریاستوں متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، مراکش، ترکی، آذربائیجان، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، قازقستان، کرغزستان، چاڈ اور مالی پر اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے۔ آج اسرائیل میں ان ممالک کے سفیروں کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ تاریخ اسلام کے لیے یہ نہایت شرم کی بات ہے کہ اسرائیل نے اپنے جرائم سے 20 لاکھ مسلمانوں کو تباہی سے دوچار کیا اور مسلمان سفیر ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسرائیل میں بیٹھ کر اس تاریخی جرم کو دیکھتے رہے۔
پروفیسر سید ہادی برہانی، تہران یونیورسٹی