[]
محمد ہاشم القاسمی
فلسطین کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ لگ بھگ 2000 (ق م) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر” ار” سے جو دریائے فرات کے کنارے آباد تھا ہجرت کر کے فلسطین میں آباد ہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ایک بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو بیت المقدس میں، جبکہ دوسرے بیٹے حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کو مکہ میں آباد کیا تھا۔ حضرت اسحاق علیہ السلام، کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے جن کا ایک نام اسرائیل بھی تھا۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ صاحبزادے تھے،جن میں سے ایک صاحبزادے حضرت یوسف علیہ السلام کو نبوت عطاہوئی تھی۔حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داو¿د علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سرزمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی سر زمین کہلاتی ہے۔ سن 15 ہجری (637ء) میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں بیت المقدس فتح ہونے کے بعد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے یہودیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی عام اجازت دی، جبکہ اس سے پہلے عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا رکھی تھی۔ عیسائیوں نے یہودیوں سے حد درجہ بغض کی وجہ سے اس چٹان پر جس کے اوپر ”قبة الصخرة“بنا ہوا ہے، اس کو کچرے کے ڈھیر سے ڈھک دیا تھا۔ کیونکہ یہودی اس کو مقدس مانتے تھے۔ اس چٹان کے اوپر سے کچرہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیا۔ مسلمانوں کے نزدیک بیت المقدس و مسجد اقصیٰ کے ساتھ کئی اہم واقعات مربوط ہیں۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی پہلی منزل ہے، معراج کے موقع پر مکہ مکرمہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد اقصی تشریف لے گئے پھر وہاں سے آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی، واپسی میں بھی آپ مسجد اقصی تشریف لائے پھر وہاں سے مکہ مکرمہ واپس ہوئے۔ مکہ سے مسجد اقصی تک کے سفر کو اسراء اور مسجد اقصی سے آسمانوں تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ اسی سفر میں مسلمانوں کو پانچ وقت کی نماز کا تحفہ ملا، اسی سفر سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی کے پاس تمام انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کی امامت فرمائی۔ مسجد اقصی سے تعلق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے ، ہجرت مدینہ طیبہ کے بعد سولہ یا سترہ مہینے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرمائی۔ پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد خانہ کعبہ کی طرف آپ نے رخ فرمایا۔
صلیبی جنگیں در اصل مذہبی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا جسے قرون وسطی میں لاطینی کلیسیا نے منظور کیا تھا ، جس میں خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم کی مہمات، جن کا مقصد ارض مقدسہ کو اسلامی حکمرانی سے آزاد کرانا تھا۔1095ء سے 1291ء تک ارض فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر مسیحی قبضہ بحال کرنے کے لیے یوروپ کے مسیحیوں نے کئی جنگیں لڑیں جنہیں تاریخ میں “صلیبی جنگوں“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران 9 بڑی جنگیں لڑی گئیں جس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے۔ فلسطین اور بیت المقدس کا شہر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہی فتح ہوچکا تھا۔ یہ سرزمین مسلمانوں کے قبضہ میں رہی اور مسیحیوں نے زمانہ دراز تک اس قبضہ کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ گیارھویں صدی کے آخر میں سلجوقیوں کے زوال کے بعد دفعتاً ان کے دلوں میں بیت المقدس کی فتح کا خیال پیدا ہوا۔ ان جنگوں میں تنگ نظری ، تعصب، بدعہدی، بداخلاقی اور سفاکی کا جو مظاہرہ اہل یوروپ نے کیا وہ ان کی پیشانی پر شرمناک داغ ہے۔ اس دوران سارے یورپ میں مسیحی راہبوں کی ایک افواہ عوام و خواص میں بے حد مقبول ہوگئی کہ یسوع (عیسیٰ علیہ السلام ) دوبارہ نزول فرما کر مسیحیوں کے تمام مصائب کا خاتمہ کریں گے، لیکن ان کا نزول اسی وقت ہوگا جب یروشلم کا مقدس شہر مسلمانوں کے قبضہ سے آزاد کرالیا جائے۔ اس افواہ نے مسیحیوں کے مذہبی جوش میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ مسیحی مذہبی رہنماو¿ں نے یہ چیز عام کر دی تھی کہ اگر کوئی چور، بدمعاش اور بدکردار بھی بیت المقدس کی زیارت کر آئے گا تو وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ لہٰذا اس عقیدہ کی بنا پر بڑے بڑے بدکردار لوگ بھی زائرین کی صورت میں بیت المقدس آنا شروع ہو گئے۔ شہر میں داخل ہوتے وقت وہ ناچتے گاتے باجے بجاتے اور شوروغل کرتے ہوئے اپنی برتری کا اظہار کرتے اور کھلے بندوں شراب نوشی کے مرتکب ہوتے۔ چنانچہ زائرین کی ان نازیبا حرکات اور ان کی سیاہ کاریوں، بدنظمی اور امن سوز سرگرمیوں کی وجہ سے اس وقت ان پر کچھ اخلاقی پابندیاں لگا دی گئیں۔ لیکن ان زائرین نے واپس جاکر مسلمانوں کی زیادتیوں کے من گھڑت افسانے لوگوں کو سنانے شروع کر دیے تاکہ ان کے مذہبی جذبات کو ابھارا جا سکے۔ فرانسیسی پیٹر جب بیت المقدس کی زیارت کے لیے آیا تو اس نے بیت المقدس پر مسلمانوں کے قبضہ کو بری طرح محسوس کیا۔ یوروپ واپس جا کر مسیحیوں کی حالت زار کے جھوٹے سچے قصے کہانیاں پیش کیں اور اس سلسلہ میں سارے یوروپ کا دورہ کیا۔ پوپ چونکہ مغربی کلیسیا کا روحانی پیشوا تھا، اس لیے اس نے مختلف فرقوں کی ایک کونسل بلائی اور اس کے سامنے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ لوگوں کو اس بات کی بشارت دی گئی کہ جو بھی اس مقدس جنگ میں مارا جائے گا اس کے ہر قسم کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ جنت کا حقدار ہوگا۔ لوگ جوق در جوق سینٹ پیٹر کی قیادت میں فلسطین پر چڑھائی کی غرض سے روانہ ہوئے۔ پوپ کے اعلان جہاد کے بعد یکے بعد دیگرے چار عظیم الشان لشکر بیت المقدس کی فتح کا عزم لیے روانہ ہوئے۔ راہب پیٹر کی ماتحتی میں تیرہ لاکھ مسیحیوں کا ایک انبوہ کثیر قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہوا۔ سب سے زیادہ منظم اور زبردست گروہ جو دس لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھا 1097ء میں روانہ ہوا۔ اس میں انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سسلی کے شہزادے بھی شامل تھے۔ اس متحدہ فوج کی کمان ایک فرانسیسی گاڈ فرے کے سپرد تھی۔ مسلمان آبادی کو تہ تیغ کرتے ہوئے صلیبیوں نے مسلمانوں پر شرمناک مظالم ڈھائے۔ بچے بوڑھے جوان کوئی بھی ان سے بچ نہ سکا۔ تقریباً ایک لاکھ مسلمان مارے گئے۔ انطاکیہ کے بعد فتح مند لشکر شام کے متعدد شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے حمص پہنچا۔ حمص پر قبضہ کرنے کے بعد صلیبیوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا چونکہ فاطمیوں کی طرف سے شہر کا خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا تھا، اس لیے 15 جون 1099ء کو بیت المقدس پر ان مذہبی جنونیوں نے بڑی آسانی سے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کے اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کے بعد گاڈ فرے کو بیت المقدس کا بادشاہ بنایا گیا اور مفتوحہ علاقوں کو مسیحی مملکتوں میں بانٹ دیا گیا۔ جس میں طرابلس، انطاکیہ اور شام کے علاقے شامل تھے۔ اس شکست کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کی باہمی نا اتفاقی تھی، بدنظمی اور انتشار کا عمل تھا۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا اور تاریخ اسلام میں ایک ایسی شخصیت نمودار ہوئی جس کے سرفروشانہ کارنامے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس عمل ہیں۔ یہ عظیم شخصیت صلاح الدین ایوبی کی تھی۔ مصر کے فاطمی خلیفہ فائز باللہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ مسیحیوں کے طوفان کو روک سکتا، اس کے وزیر شاور سعدی نے صلیبیوں کے خطرہ کا اندازہ کرتے ہوئے نور الدین زنگی کو مصر پر حملہ کی دعوت دی۔ نور الدین نے اپنے سپہ سالار اسد الدین شیر کوہ کو اس مہم پر مامور کیا۔ چنانچہ اسد الدین نے مصر میں داخل ہو کر مسیحیوں کا قلع قمع کیا۔ لیکن شاور نے غداری کی اور شیر کوہ کے خلاف فرنگیوں سے ساز باز کر لی۔ 1127ء کو شیر کوہ نے دوبارہ مصر پر فوج کشی کی اور اسکندریہ پر قبضہ کے بعد مصر کا بیشتر علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔ صلاح الدین ایوبی بھی ان تمام محاربات میں شیر کوہ کے ہمرکاب رہے تھے۔ شاور سعدی اپنے جرائم کی وجہ سے قتل ہوا اور شیر کوہ خلیفہ عاضد کا وزیر بنا، اس کے بعد صلاح الدین ایوبی نے اس کی جگہ لی۔ خلیفہ نے صلاح الدین ایوبی کو ”الملک الناصر“ کا لقب دیا۔ خلیفہ عاضد کی وفات کے بعد صلاح الدین ایوبی نے مصر میں عباسی خلیفہ کا خطبہ رائج کر دیا۔ مصر کا خود مختار حکمران بننے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے خلاف جہاد کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا۔
مصر کے علاوہ صلاح الدین ایوبی نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ کے علاقے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ 1186ء میں مسیحیوں کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر مسیحی امرا کے ساتھ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً ریجنالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے اسے حطین میں جالیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ءکو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار مسیحی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ ریجنالڈ گرفتار ہوا۔ اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج مسیحی علاقوں پر چھا گئیں۔
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد مسیحیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 91 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ صلیبیوں کے برعکس سلطان نے مسیحیوں پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے دی اور انہیں چالیس دن کے اندر شہر سے نکل جانے کی اجازت عطا کی۔ رحمدل سلطان صلاح الدین ایوبی نے فدیہ کی نہایت ہی معمولی رقم مقرر کی۔ مردوں کے لیے 20، عورتوں کے لیے 10 اور بچوں کے لیے 5 اشرفیوں کا فدیہ طلب کیا اور جو لوگ فدیہ نہیں دے سکے، ان کا فدیہ سلطان صلاح الدین نے خود ادا کیا یا انہیں غلام بنالیا گیا۔ بعد ازاں سلطان نے فدیہ کی رقم مزید کم کرکے مردوں کے لیے 10، عورتوں کے لیے 5 اور بچوں کے لیے صرف 1 اشرفی مقرر کردی۔ بیلین نے اس پر بھی اعتراض کیا کہ یہ بھی بہت زیادہ ہے جس پر سلطان نے صرف 30 ہزار اشرفیوں کے بدلے تمام مسیحیوں کو چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
دو اکتوبر 1197 کو بیلین نے برج داو¿د کی چابیاں سلطان کے حوالے کر دیں۔ اس موقع پر اعلان کیا گیا کہ تمام مسیحیوں کو فدیہ کی ادائیگی کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا جا رہا ہے جس میں 50 دن تک کی توسیع کی گئی۔
صلاح الدین ایوبی ایک رعایا پرور اور رحم دل بادشاہ تھے۔ انہوں نے غلام بنائے گئے مسیحیوں کا فدیہ خود ادا کرکے انہیں رہا کر دیا۔ اور جو لوگ وہ ادا نہ کر سکے انہیں بغیر ادائیگی فدیہ شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔انیسویں صدی میں یوروپ اور روس میں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں میں شدید نفرت اور مظالم پھر سے ابھرے۔ ان حالات میں یہودیوں نے عیسائیوں کے ظلم سے تنگ آکر نقل مکانی کی۔ جرمنی، مشرقی یوروپ اور روس سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوگئے۔ ان کی بڑی تعداد امریکہ، برطانیہ اور کچھ فلسطین میں آگئی۔ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان کیا، جس کو ”اعلانِ بالفور“ کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ فلسطین میں برطانیہ آزاد یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد کرے گا۔ برطانیہ نے ان کو وہاں آباد ہونے اور منظم کرنے میں مدد دی۔ جب فلسطین کے عرب مسلمانوں میں یہودیوں کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہونے لگے اور دونوں کے درمیان میں شدید جھڑپیں ہونے لگیں تو برطانیہ نے فلسطین سے جانے کا فیصلہ کیا اور اقوام متحدہ سے اس علاقہ کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اپیل کی۔ اقوام متحدہ نے 1947ء میں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے : مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودی اسرائیل کی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوجائے۔ جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کرلیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اور عرب ممالک نے اپنے درمیان میں ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کردیا۔
اس کے بعد یہودیوں نے 14 مئی 1948ءکو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگیں چھڑ گئیں۔ یہ جنگیں 1967ء تک چلیں۔ جنگ کی شروعات میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور فلسطین کے کچھ اور علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔ بقیہ فلسطین کے مختلف علاقوں پر مصر، شام، لبنان اور اردن کا قبضہ ہوگیا۔ بیت المقدس کا مشرقی علاقہ، جس میں حرم شریف اور مسجد اقصیٰ سمیت مقدس مقامات ہیں، اردن کے قبضے میں تھا۔ یہ صورت حال 1967ءتک قائم رہی۔ 1967ء کی عرب۔اسرائیل جنگ کے اختتام پر اسرائیل کا پورے فلسطین پر قبضہ ہوگیا۔ مقدس مقامات تاریخ میں پہلی مرتبہ یہودیوں کے قبضہ میں آ گئے ۔
حماس فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے ، جس کی بنیاد 1987ء میں شیخ احمد یاسین نے رکھی۔ شہر میں حماس کے قیام کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر ہونی والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی. اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے مرحوم رہنما شیخ احمد یاسین شہید نے 2025ء تک اسرائیل کے صفحہ ہستی سے ختم ہوجانے کی پیشین گوئی کی تھی۔2004ء میں احمد یاسین اور ان کے بعد ان کے جانشین عبدالعزیز رنتسی شہید کی شہادت کے بعد ہزاروں افراد ان کے قتل پر احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
حماس کا بنیادی مقصد مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کا مکمل انخلاء ہے جبکہ طویل المیعاد ہدف ایک ایسی فلسطینی ریاست کا قیام ہے جو ان علاقوں پر مشتمل ہو جن کا بیشتر حصہ سن 1948 میں یہودی ریاست کے قیام کے بعد سے اسرائیل کا حصہ ہے۔فلسطینی حریت پسند گروپ پی ایل او کے سربراہ اور فلسطینی صدر یاسر عرفات کی حکومت حماس کو ہمیشہ اپنا مدِ مقابل سمجھتی رہی لیکن اس کے باوجود اس کو قومی سیاست کے دھارے میں شامل کرنے پر مجبور رہے۔تاہم یاسر عرفات حماس سے ہمیشہ یہ مطالبہ کرتے آئے کہ حماس ان کی حکومت کو واحد بااختیار ادارے کے طور پر تسلیم کرے اور اسرائیل کے خلاف فوجی کاروائیاں بند کر دے۔ حماس یہ مطالبات ماننے سے تو انکار کرتی رہی لیکن قومی یکجہتی کے نام پر یاسر عرفات کے خلاف لڑنے سے بھی گریز کرتی رہی۔ یاسر عرفات نے اپنی جدوجہد کا آغاز 1956ءمیں فتح تحریک شروع کر کے کیا۔ جس کے بعد انہوں نے 1966ء پی ایل او کی باگ دوڑ سنبھالی۔ یاسر عرفات نے اپنی جوانی فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزاردی۔ انہوں نے ساری زندگی خطرات سے کھیلتے ہوئے گزاری اور جب 1982ءمیں اسرائیل نے بیروت پر حملہ کیا تو اس وقت وہ بیروت میں موجود تھے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیروت میں روس کے سفارت خانے میں گھس کر جان بچائی۔ یاسر عرفات نے اپنی جدوجہد کے دوران کویت، تیونس، لبنان کے علاوہ کئی ملکوں میں قیام کیا۔ یاسر عرفات پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔ اسرائیل نے تیونس میں پی ایل او کے ہیڈ کواٹر پر حملہ کیا، لیکن یاسر عرفات اس حملے میں محفوظ رہے۔ اردن کی حکومت نے 1986ء میں عمان (اردن) میں ان کے دفاتر کو بند کر دیا۔ 1988ء میں امریکہ نے فلسطینی رہنما کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے سے روکنے کے لیے ان کو امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا، بعد میں انہوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ یاسر عرفات نے 1988ء میں امریکی یہودیوں کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کے وجود کو ماننے کا اعلان کیا۔ نوے کی دہائی میں یاسر عرفات کو امن کے کئی انعامات سے نوازا گیا۔ انہیں اسرائیلی وزیر اعظم رابن اور وزیر خارجہ شمعون پیرز کے ساتھ مشترکہ نوبل کا امن انعام دیا گیا۔ جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا نے بھی فلسطینی رہنما کو کیپ ہوپ انعام سے نوازا۔ چالیس سال سے زیادہ جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد 1994ء میں وہ واپس فلسطین گئے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ ایک امن سمجھوتہ کیا جس کے تحت فلسطین نیشنل اتھارٹی قائم ہوئی۔ بعد میں یاسر عرفات نے دو سال رملہ میں محصور کی زندگی گزاری لیکن باوجود اسرائیلی حملوں کے اسے چھوڑنے پر کبھی تیار نہ ہوئے۔
بتاریخ 29 اکتوبر 2004 کو پیرس کے ایک ہسپتال میں انتقال ہوا۔ بعض لوگوں کے مطابق انہیں زہر دیا گیا تھا، اسی وجہ سے ہسپتال نے رپورٹ بھی ان کے خاندان کو نہیں دی۔ غزہ میں اپنے کمپاونڈ کے قریب دفن ہوئے۔ جنازہ مصر میں پڑھایا گیا جس میں دنیا کے بہت سے سربراہان مملکت نے شرکت کی۔اسرائیل گزشتہ75 برس سے وقتاً فوقتاً فلسطینیوں پر حملے کرتا آ رہا ہے، جس میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور لاکھوں نقل مکانی پر مجبور کیے گئے۔ اگرچہ گزشتہ 75 سال کا مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے تاہم مختلف رپورٹس کے مطابق اسرائیلی قبضے کے بعد فلسطینی سرزمین پر ہونے والے حملوں میں ایک سے ڈھائی لاکھ تک فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ (یو این) کے فلسطینی سرزمین پر نظر رکھنے والے خصوصی ادارے (او سی ایچ اے) کے اعداد و شمار کے مطابق صرف آخری 20 سال میں ہی اسرائیلی حملوں میں 10 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام ادارے فلسطینی سرزمین ہر ہونے والی دہشت گردی کو اسرائیل – فلسطین تنازعے کے طور پر رپورٹ کرتے ہیں، جس پر پوری مسلم دنیا سمیت دنیا کے 135 سے زائد ممالک کو اعتراض رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2008 سے 2020 کے اختتام تک اسرائیلی حملوں سے 5 ہزار 590 فلسطینی جاں بحق جب کہ فلسطینیوں کی جوابی کارروائیوں سے محض 251 اسرائیلی ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر تعداد اسرائیلی فوجیوں کی تھی۔اقوام متحدہ اپنی رپورٹس میں متعدد مرتبہ تسلیم کرچکا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد جوابی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود عالمی ادارے نے کبھی بھی اسرائیلی جارحیت کو دہشت گردی یا حملے قرار نہیں دیا۔
اقوام متحدہ کو چھوڑ کر اگر یہودیوں کی جانب سے بنائی گئی ورچوئل لائبریری کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی تعداد اسرائیلیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہودیوں کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1948 سے 2014 تک اسرائیلی حملوں میں 91 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جب کہ اسی عرصے کے دوران 24 ہزار اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے۔
ووکس میڈیا کی 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق فلسطینی سرزمین پر ہونے والے حملوں میں ہونے والی ہر 24 اموات میں سے 23 اموات فلسطینیوں کی ہوتی ہیں جب کہ وہاں ہونے والے ہر طرح کے دہشت گردانہ حملوں میں اسرائیلیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کے امکانات 15 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2000 سے 2014 تک فلسطینیوں پر کیے جانے والے حملوں میں 7 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جب کہ ان حملوں کے رد عمل میں کی جانے والی کارروائیوں میں 1100 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ عرب نشریاتی ادارے ”الجزیرہ“ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضہ کیے جانے کے ابتدائی دو سال میں ہی صیہونی فوج نے 70 قتل عام کے واقعات میں 15 ہزار فلسطینیوں کو قتل کیا۔ رونگٹے کھڑے کردینے والی مذکورہ رپورٹ کے مطابق صیہونی ریاست کو بنائے جانے کے وقت میں اسرائیلی مظالم کے دوران فلسطینیوں کی 10 فیصد مرد آبادی کو قتل کیا گیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی ریاست کے باضابطہ قیام سے بھی 6 ماہ قبل اسرائیلی فوج نے برطانوی و مغربی ممالک کے تعاون سے فلسطینیوں کے 220 گاﺅں پر حملے کرکے وہاں سے ساڑھے 4 لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو نکال دیا اور صیہونی ریاست بننے سے قبل ہی متعدد قتل عام کے واقعات میں معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت دیگر افراد کو قتل کردیا گیا جب کہ 9 اپریل 1948 کو 110 فلسطینی افراد کو ذبح بھی کیا گیا۔ الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی ریاست کے قیام کے فوری بعد ساڑھے 7 لاکھ فلسطینیوں کو اپنی آبائی سرزمین چھوڑ کر قریبی ممالک مصر، اردن، عراق، لبنان اور شام جانے پر مجبور کیا گیا جب کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب فلسطینی اس وقت بنائی گئی اسرائیلی ریاست میں رہ گئے، جن کے ساتھ آج تک مظالم جاری ہیں۔اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد 3 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنی ہی سرزمین پر گھروں سے محروم ہوگئے اور ایک سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ مذکورہ 2017 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غرب اردن (مغربی پٹی) میں 30 لاکھ کے قریب فلسطینی افراد گھروں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ان کے گھر صیہونی ریاست کی جانب سے مسمار کرکے وہاں 100 سے زائد یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔ غزہ کی پٹی میں بھی 20 لاکھ کے قریب فلسطینی صیہونیوں کے ظلم و جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ اس وقت اسرائیلی ریاست میں 18 لاکھ کے قریب فلسطینی اقلیتی برادری کے طور پر سخت قوانین کے تحت انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
چھ سال قبل 2017 تک 75 لاکھ سے زائد فلسطینی افراد دنیا کے مختلف ممالک میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے، جن میں سے زیادہ تر فلسطینی اقوام متحدہ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں بنائے گئے 50 ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔
گزشتہ 73 برس میں اسرائیلی فوج نے 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کرکے انہیں سزائیں دیں جب کہ حملوں میں ایک لاکھ سے زائد گھروں کو مسمار کیا اور بدقسمتی سے 7 دہائیوں سے اسرائیل اور فلسطین کی سرحد کے قریب کوئی فلسطینی بستی تعمیر نہیں ہوئی جب کہ درجنوں یہودی بستیاں قائم کی جا چکی ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس جو اپنے ملک کی آزادی اور خودمختاری کے لیے اسرائیل پر راکٹوں سے حملے کر رہی ہے، اس کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ فلسطینی علاقے غزہ پٹی سے اسرائیل کی جانب بڑی تعداد میں راکٹ داغے جانے اور مسلح افراد کے اسرائیلی علاقے میں گھس کر حملے کرنے کے بعد ادھر اسرائیل کی طرف سے اعلان جنگ کیا جا چکا ہے۔ اسرائیلی طیاروں نے غزہ پٹی کے علاقے میں حماس کے فوجی اہداف اور کمانڈ سنٹرز کو نشانہ بنایا ہے۔ حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملوں اور اسرائیل کے جوابی حملوں کے تناظر میں مودی سرکار سمیت دنیا بھر سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے حماس کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے بھرپور دفاع کا حق حاصل ہے۔ جبکہ زیادہ تر مسلم ممالک نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچائیں۔
اپنے وطن کی آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے والوں کو تاریخ میں مجاہد آزای کہا جاتا ہے، دہشت گرد نہیں کہا جاتا، اصل دہشت گرد تو اسرائیل ہے جو فلسطین کی زمین پر ناجائز قبضہ جمائے ہوئے ہے،اور نہ صرف قبضہ بلکہ وہاں کے رہنے والوں کو آئے دن مارتے پیٹتے رہتے ہیں، ان کے گھروں کو بلڈوزر سے زمین بوس کر دیا جاتا ہے، نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال کر سالوں اذیت دی دی جاتی ہے، اپنے حق کی آواز بلند کرنے والوں، احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائی جاتی ہیں، سر عام شہید کر دیا جاتا ہے اور عام شہریوں پر راکٹ سے حملہ کرکے پوری پوری بستی تباہ و برباد کردی جاتی ہے، بچے بوڑھے خواتین سب موت کی نیند سلا دیے جاتے ہیں، کسی پر رحم نہیں کرتے، بجلی پانی کھانا دوا اور ضروری اشیا پر روک لگا کر بے موت مارنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔
امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل یہ دہشت گردی گزشتہ ستتر سالوں سے کرتا آ رہا ہے، لیکن کسی کی کیا مجال کہ کوئی اسے روکے اور روکنا تو دور کی بات ہے ،کم از اسرائیل کے اس دہشت گردانہ فعل کی مذمت ہی کرتے، فلسطینی جب ان سب کی روک تھام کے لیے کوشش کرتے ہیں تو ان کو دہشت گرد کہا جانے لگتا ہے، ان کو دہشت گردوں سے تعبیر کیا جاتا ہے!