خواتین تحفظات بل دو تہائی اکثریت سے لوک سبھا میں منظور

[]

نئی دہلی: خواتین کو لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں ایک تہائی نشستوں پر تحفظات فراہم کرنے والے بل کو اپوزیشن کے ان مطالبات کے بیچ کہ دیگر پسماندہ طبقات کی خواتین کو بھی ایسے ہی فوائد فراہم کئے جائیں اور آئندہ سال انتخابات سے پہلے اس کو نافذ کیا جائے،لوک سبھا نے چہارشنبہ کے روز تقریبا اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔

8 گھنٹے طویل پُرجوش بحث جس میں 60 ارکان نے حصہ لیا کے بعد لوک سبھا نے دستوری ترمیمی (128ویں ترمیم) بل کو منظوری دے دی۔ 454 ارکان نے اس کے حق میں اور 2 نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ بل پر ووٹنگ کے دوران وزیراعظم نریندرمودی بھی موجود تھے۔

اس بل کو دستور کی دفعہ 368(2) کی گنجائش کے مطابق منظوری دی گئی جو دستوری ترمیمی بلوں کی منظوری سے تعلق رکھتی ہے اور جس کے لئے ایوان کے ارکان کی اکثریت کی تائید درکار ہوتی ہے۔ دو تہائی ارکان کی موجودگی اور ووٹنگ ضروری ہوتی ہے۔ ایوان نے حکومت کی جانب سے پیش کی گئی چند ترمیمات کو جو دستوری ترمیمی بل کو نمبر دینے سے متعلق تھی‘کو بھی منظور کرلیا۔

عہدیداروں نے بتایا کہ مجوزہ قانون کو جب راجیہ سبھا میں غوروخوض کے لئے پیش کیا جائے گا تو اسے دستوری (106 ویں ترمیم) بل کہا جائے گا۔ سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) کو بھی مجوزہ قانون کے دائرہ میں لانے پر زور دیا اور کہا کہ کوٹہ کو فوری نافذ کرنے میں کوئی بھی تاخیر خواتین کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی۔

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بحث میں مداخلت کرتے ہوئے مجوزہ قانون کے نفاذ میں تاخیر سے متعلق اندیشوں کو مسترد کردیا اور زور دے کر کہا کہ آئندہ حکومت انتخابات کے فوری بعد مردم شماری اور حلقوں کی ازسر نوحد بندی کرائے گی جس کے نتیجہ میں خواتین کے تحفظات ایک سچائی بن جائیں گے۔ امیت شاہ نے اشارہ دیا کہ خواتین کے لئے تحفظات 2029 کے بعد حقیقت بن جائیں گے۔

وزیرداخلہ نے اوبی سی ذیلی کوٹہ کو شامل نہ کرنے پر اپوزیشن کی تنقیدوں کو مسترد کردیا اور کہا کہ بی جے پی نے اس برادری کو ان لوگوں سے زیادہ نمائندگی دی ہے جو ان کے لئے آواز اٹھانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ امیت شاہ نے بتایا کہ تقریبا 29 فیصد یا 85 بی جے پی ارکان پارلیمنٹ، 29 مرکزی وزراء اور اس کے 1358 ارکان اسمبلی کے منجملہ 365 جو زائداز 27 فیصد ہوتے ہیں، اوبی سی زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے زائداز40 فیصد ارکان قانون ساز کونسل بھی دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سیز) سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس بحث کے دوران حریف سیاسی جماعتوں کو خواتین تحفظات بل کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کرتے دیکھا گیا۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ یہ بل ان کے آنجہانی شوہر اور سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کا خواب تھا جنہوں نے 1989 میں خواتین کو مجالس مقامی میں تحفظات دینے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے تھے۔

بی جے پی ارکان نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے دو مرتبہ یہ بل پیش کیا تھا لیکن ایوان میں ہنگامہ آرائی کے مناظر دیکھے گئے تھے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ کی زیرقیادت مخلوط حکومت نے 2008 میں یہ بل لایا تھا اور اسے راجیہ سبھا نے 2010 میں منظوری دے دی تھی جہاں اسے متعارف کیا گیا تھا۔ بہرحال سیاسی اختلافات کی وجہ سے یہ بل لوک سبھا میں منظور نہیں کیا جاسکا تھا۔

15 ویں لوک سبھا کی تحلیل کے بعد اس کے کارآمد ہونے کی مدت ختم ہوگئی تھی۔ اے آئی ایم آئی ایم کے لیڈر اسدالدین اویسی اس بل کی مخالفت میں اٹھنے والی واحد آواز تھے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ یہ بل صرف ساورنا خواتین کو تحفظات فراہم کرے گا اور اوبی سی و مسلم خواتین اس میں شامل نہیں ہیں جن کی پارلیمنٹ میں بہت کم نمائندگی ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم کے لوک سبھا میں 2 ارکان ہیں۔

مجوزہ قانون کے فوری نفاذ کے مسئلہ پر امیت شاہ نے کہا کہ اس اقدام سے جانب داری کے الزامات عائد کئے جائیں گے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس معاملہ کو حدبندی کمیشن پر چھوڑ دینا بہتر ہے جو اس مشق کو شفاف انداز میں انجام دے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایسا کریں اور وایاناڈ محفوظ حلقہ بن جائے گا تو آپ کہیں گے کہ یہ ایک سیاسی اقدام ہے۔ اگر حیدرآباد محفوظ نشست بن جاتا ہے تو اویسی جی کہیں گے کہ یہ سیاسی محرکات پر مبنی ہے۔

واضح رہے کہ وایاناڈ کیرالا میں ہے اور کانگریس لیڈر راہول گاندھی لوک سبھا میں اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ امیت شاہ نے کہا کہ یہ بل حد بندی کمیشن خواتین کے لئے محفوظ حلقوں کی حدبندی کے لئے ایک مناسب فورم ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اس کی صدارت کرتے ہیں اور اس میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی بھی شامل ہے۔

کئی ارکان نے خواتین تحفظات بل کو فوری نافذ کرنے کا مطالبہ کیا اور ان دفعات پر تنقید کی جن میں کہا گیا ہے کہ یہ بل مجوزہ قانون کے آغاز کے بعد پہلی مردم شماری اور حلقوں کی ازسرنو حد بندی کی مشق کے بعد نافذ ہوگا۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *