سٹی پولیس کمشنر تک عام آدمی کی رسائی ناممکن،مظلوم افراد کی فریادکون سنے گا؟

[]

حیدرآباد: عوام کی جان ومال کی حفاظت کرنا‘نظم وضبط کوبرقراررکھنا اورقانون کی بالادستی کویقینی بنانا پولیس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور پولیس فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے معقول سیکوریٹی انتظامات بھی کرتی ہے –

مگر آج کل پولیس کے اعلیٰ عہدیداربشمول سٹی پولیس کمشنراور ڈی جی پی خودکوسخت  سیکوریٹی کے حصار میں رکھ کررہے ہیں جبکہ عوام کی سکوریٹی کاکوئی پرسان حال نہیں ہے۔

حکومت نے شہر کے پاش علاقہ بنجارہ ہلز روڈ نمبر12 پر عالی شان پولیس کمانڈ سنٹر تعمیر کی ہے جہاں عصری سہولتیں دستیاب ہیں۔ سٹی پولیس کمشنر بھی اس پر شکوہ عمارت سے فرائض انجام دیتے ہیں اس عمارت کے اطراف اور داخلہ پرسیکوریٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔

 ماہرنشانہ بازکمانڈوز بھی تعینات رہتے ہیں‘ ایسی سیکوریٹی میں ایک مظلوم ضرورت مند عام شخص کس طرح سٹی پولیس کمشنرتک رسائی حاصل کرسکتا ہے؟ یا ڈی جی پی سے ملاقات کرتے ہوئے اپنی فریاد سناسکتا ہے؟۔

کمشنر پولیس سے ملاقات کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ گیٹ پر ہی سیکوریٹی عملہ مختلف سوالات کرتا ہے۔ کمشنر سے ملنے کی غرض ونمایت بتانی پڑتی ہے۔ اپنا شناختی کارڈ‘فون نمبر اور دیگر تفصیلات ظاہرکرنے کے بعد اس کے نام کاپاس بنتاہے۔

درخواست گزار کواپنی تصویر بھی کھینچانی پڑتی ہے تب جاکر کمشنر یا کسی دوسرے اعلیٰ عہدیدار سے ملاقات کا وقت دیا جاتاہے۔میڈیا کے افراد کوبھی دفتر کمشنر میں جانے کی اجازت نہیں ہے اس لئے میڈیا کے افراد‘دفتر پولیس کمشنرجانے سے گریز کررہے ہیں۔یہی حال دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے دفاتر کا بھی ہے۔

 دفتر پولیس کمشنر جب تک بشیرباغ پر تھا تو عوام‘عہدیداروں سے راست طورپر ملاقات کرسکتے تھے مگر اب یہ دفتر پولیس کمانڈ سنٹر منتقل کردیاگیا۔عوام کے ٹیکس کے پیسہ سے ہی اعلی عہدیداروں کواعلی سیکوریٹی فراہم کی جاتی ہے۔جبکہ عوام کی سیکوریٹی کاکوئی پرسان حال نہیں ہے۔

عوام کا کہنا ہے کہ سیکوریٹی حصار میں رہنے کے لئے ہی عہدیدار اعلی عہدہ پر فائز ہوناچاہتے  ہیں؟۔ عہدیداروں کویہ بات ہمیشہ یادرکھنی چاہئے کہ وہ عوام کے خدمات گزار ہیں۔ وظیفہ پرسبکدوشی کے بعد عہدیداروں کوبھی عام افراد کے درمیان رہناپڑے گا۔

عوام کی حفاظت اور انہیں راحت پہوچاناپولیس کے فرائض میں شامل ہیں۔پولیس جوان اگر خود اپنے عہدیداروں کی سیکوریٹی پر مامور رہیں تو عام عوام کی حفاظت کرن کرے گا؟۔

پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کوعوام کی فریاد‘ ان کی شکایتوں کوسننے کے لئے کم ازکم ہفتہ میں ایک بار پرجادربار پروگرام کااہتمام کرناچاہئے تاکہ عوام اورپولیس کے درمیان روابط مستحکم بنے رہیں مگر پرجادربار کے اہتمام کاان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

شہر میں پولیس دفاتراورپولیس عہدیداروں کی سخت سیکوریٹی پر یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کہ کیا شہر حیدرآباددہشت گردوں کی پناگاہ بن گیا ہے؟ یا یہ ماسٹوں کا ہب؟۔ تمام پولیس عہدیداروں کوعوام کے درمیان رہتے ہوئے فرائض انجام دیناچاہئے تب ہی انٹلیجنس نظام موثر ہوگا اورشہر میں حالات بھی پرامن رہیں گے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *