[]
حیدرآباد: بی آر ایس پارٹی ان دنوں تذبذب کا شکار نظر آرہی ہے۔ قیاس آرئیوں کے مطابق مرکزی حکومت، 18 ستمبر سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں ملک کا نام انڈیا سے بھارت میں تبدیل کرنے کا بل پیش کرنے جارہی ہے۔
دوسری طرف بی آر ایس کی حلیف جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین ملک کے نام کو انڈیا سے بھارت میں تبدیل کرنے کی شدید مخالف ہے۔ عنقریب منعقد شدنی اسمبلی انتخابات اور پارلیمنٹ انتخابات میں بی آر ایس کو ایم آئی ایم کی تائید کافی اہمیت کی حامل ہے۔
اس صورت میں اگر بی آر ایس مرکزی حکومت کے فیصلہ کی تائید کرتی ہے تو ایم آئی ایم ناراض ہوجائے گی۔ دوسری طرف بی آر ایس کے نام میں بھی بھارت شامل ہے۔ اگر بی آر ایس ملک کے نام انڈیا سے بھارت میں تبدیل کرنے کے فیصلہ کی مخالفت کرتی ہے تو یہ سیاسی حلقوں میں موضوع مذاق بن جائے گا۔
بی جے پی کو بی آر ایس پر تنقیدین کرنے کا موقع مل جائے گا۔ بی جے پی، بی آر ایس سے مطالبہ کرسکتی ہے کہ اپنے نام سے بھارت نکال دے بی آر ایس پارٹی ذرائع کے مطابق 15 ستمبر کو طلب کی گئی بی آر ایس پارلیمنٹری اجلاس میں اس موضوع پر غور وخوص کیا جائے گا۔
پارٹی کے چند قائدین کے مطابق بی آر ایس اس موضوع پر کوئی موقف اختیار کرنا نہیں چاہے گی اور وہ بی جے پی کے اقدام کی نہ ہی تائید کرے گی اور نہ مخالفت۔
چند دوسرے قائدین کا کہنا ہے کہ اگر مرکزی حکومت اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بل لاتی ہے تو بی آر ایس ایوان میں اکثریتی ارکان کے موڑ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرے گی۔ پارٹی قائدین کا ماننا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے ابھی تک اس موضوع پر کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے اور محض قیاس آرائیوں کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنا پارٹی کیلئے سردرد بن جائے گا۔
چونکہ ریاست کے کئی اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندگان کو بادشاہ گر کا موقف حاصل ہے اور کہا جاتا ہے کہ عموماً مسلم رائے دہندگان مجلسی قیادت کی ہدایت کے مطابق ووٹ دیتے ہیں۔
بی آر ایس نہیں چاہے گی کہ بھارت اور انڈیا کے مسئلہ پر مجلس کی رائے کی مخالفت کرے ورنہ بی آر ایس کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اس لئے پارٹی اس مسئلہ پر کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتی ہے۔