[]
مہر خبررساں ایجنسی-تحریر گل زہرا رضوی؛ کربلا شہر کی ابتدا میں نصب کیے گئے گنتی کے برقی نظام سے حاصل ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق 20 صفر اربعین کے لیے کربلا آنے والے زائرین کی تعداد 22,019,146 دو کروڑ، بیس لاکھ، انیس ہزار ایک سو چھیالیس ہے۔ میں نے کبھی نجف سے کربلا مشی نہیں کی،معلوم نہیں جب کروڑوں لوگ لبیک کہتے کربلا میں داخل ہوتے ہونگے، جب ہر گھر میزبانی پر آمادہ بلکہ مُصر ہوتا ہو گا، جب ہر لمحہ فضا میں امام حسین ع کے پاکیزہ نام کی بازگشت ہوتی ہو گی تو کیسا لگتا ہو گا۔ مشی سے لوٹ آنے والوں سے سنا ہے، ایک ملکوتی احساس ہوتا ہے، گویا امام عالی مقام کے حضور کھڑے ہیں۔ عاشورہ کے سوگ پر، زینبِ کبری سلام علیھا کی فتحیابی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔
سوا دو کروڑ ایک بہت بڑا نمبر ہے۔ قیامت کا رش ہے۔ جب آپ اس کا حصہ بنیں تو احساس ہوتا ہے یہ کتنے انسانوں کی بات ہو رہی ہے۔ مختلف کام کرتے انسان نہیں، ایک طرف قدم اٹھاتے انسان۔ ایک مقصد کی طرف جاتے انسان۔ ایک آواز بلند کرتے انسان۔ ایک نعرہ لگاتے دو کروڑ انسان: لبیک یا حسین ع۔ اور یہ رش ہر سال ہزاروں نہیں،لاکھوں کے حساب سے بڑھ رہا ہے۔ دا_عش کا خاتمہ، صدام کی حکومت کا خاتمہ، امریکی فوجوں کا انخلاء، پاکستان جیسے ملکوں میں شیعوں پر بڑھتی پابندیاں اور سب سے بڑھ کر اس آخری حجت کے ظہور کی تیاریاں جس کے ہم منتظر ہیں۔ اربعین کیا ہے؟ حجتِ خدا عج کی آمد کی تیاری ہی تو ہے، کہ جب وہ آئینگے تو یونہی پوری دنیا سے انسان آپ کی جانب بڑھتے جائینگے جیسے آج سید الشہداء کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔
یہ دو سوا دو کروڑ انسان کربلا میں کیسے رہتے ہیں، کہاں سوتے ہیں، کھاتے کیسے ہیں۔ اربعین پر کربلا جانے والے کوئی پیشگی انتظام کر کے نہیں جاتے کہ کربلا سے واقف ہیں۔ امام حسین ع کی میزبانی سے واقف ہیں۔ یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہاں کوئی بغیر رہائش کے نہیں رہتا۔ یہاں دنیا کا طویل ترین 500 کلومیٹر لمبا دسترخوان لگتا ہے، یہاں گھروں کے دروازے کھلے رہتے ہیں، یہاں زائرین کے آرام کے لئے سال بھر کی جمع پونجی خرچ کی جاتی ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا اگر امام حسین ع کے اس اعجاز کو نہیں سمجھتی تو کیسے سمجھے گی۔ آپ نے ضرور کہیں نہ کہیں پڑھا ہو گا کہ کربلا میں دونوں روضوں کا کل رقبہ بین الحرمین ملا کر قریبا 85000 m2 ہے۔ اس کے برعکس مسجد الحرام کا کل رقبہ قریبا 456,519 m2 ہے۔
مسجد الحرام میں کربلا سے پانچ گنا زیادہ افراد کی گنجائش ہے
مکہ میں فائیو سٹار ہوٹلوں کی بھرمار ہے، کئی کئی منزلہ ہوٹل ہیں۔
کربلا میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 400 ہوٹل ہیں۔ زیادہ سے زیادہ تھری سٹار ہیں۔ ہر ہوٹل میں 100 افراد بھی مقیم ہوں، تو 40 ہزار بنتے ہیں۔ اس میں 50 امامبارگاہیں بھی شامل کر لیتے ہیں۔ ہر امامبارگاہ میں پانچ سو لوگ ٹھہرا دیں، یہ 25 ہزار لوگ ہو گئے۔ سمجھیں ہزار گھروں میں زائرین ٹھہرائے جاتے ہیں، ہر گھر میں دس لوگ ٹھہرا لیں، یہ مزید دس ہزار لوگ ہو گئے۔
کربلا کی اپنی آبادی قریبا چھے لاکھ ہے۔ اس میں مزید سوا دو کروڑ زائرین شامل کر لیں۔ یہ لوگ کہاں رہتے ہیں؟ کہاں سے کھاتے ہیں؟ کہاں سوتے ہیں؟ ان کی گاڑیاں، بسیں کہاں رکتی ہیں، پارکنگ کہاں ہوتی ہے؟ یہاں مسلسل کروڑوں افراد کی موجودگی میں مشینیں کام کرتی رہتی ہیں۔ کوئی حادثہ نہیں ہوتا۔ یہاں مقامی و ایرانی بین الحرمین دوڑتے ہیں، عزاداری کرتے ہیں، کوئی بھگدڑ نہیں مچتی۔
اس برس کے شروع میں جب میں کربلا میں تھی، تو باب الساعات پر کھڑی یہ سب سوچ رہی تھی، حساب کتاب کر رہی تھی۔ دم بخود تھی، یہ سب کیسے ہوتا ہے، کون کرتا ہے۔ پھر خیال آیا میں خود بھی تو “یہ سب” ہوں۔ یہ سب، میں ہوں۔ ہم سب کربلا آنے والے کسی اور ہی دنیا میں آتے ہیں۔ یہاں ہمیں کھانے پینے کی آسائشیں نہیں چاہئے ہوتیں۔ ہم وطن میں لگزری گاڑیوں کے عادی ہوتے ہیں یہاں ہم سر کے بل چلتے ہیں پیدل چلتے ہیں، چلتے رہتے ہیں۔ پھر کوئی عراقی خاتون سورہ قدر پڑھتی پاس سے گزری۔ وماادراک ما لیلتہ القدر۔۔۔ یہ میرے حساب کتاب کا اصل جواب تھا۔ تم کیا جانو، حسین ع کیا ہے۔ وہ جو زینب ع نے واویلا کیا تھا تلہ زینبیہ پر۔ وہ جو امام حسین ع نے جان دی تھی مقتل میں۔ وہ جو بنی ہاشم نے، اصحاب نے کئی گھنٹے مزاحمت کی تھی۔ وہ جو عباس ع کا خون بہا تھا۔ وہ جو علی اصغر ع مسکرائے تھے ۔ تم کیا جانو وہ سب کیا ہے۔ کربلا میں وہ سب کیسے ہوا، اس کا ادراک ممکن نہیں۔
کربلا میں آج یہ سب کیسے ہوتا ہے، اس کا بھی ادراک ممکن نہیں۔
حسین ع، مافوق الادراک ہیں۔ وما ادراک ما الحسین ع