مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب اللہ کے سابق سیکریٹری جنرل شہید حسن نصراللہ اور شہید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ میں لبنان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ افراد نے شرکت کی۔ مسئلہ فلسطین کے لئے ان کی عظیم خدمات پر فلسطینی رہنماوں اور عوام نے بھی ان کو خراج عقیدت پیش کی۔
فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل جناب زیاد نخالہ نے خامنہ ای ڈاٹ آئی آر سے گفتگو کرتے ہوئے شہید حسن نصراللہ کو مسئلہ فلسطین کے شہداء کے سید اور سردار قرار دیا اور کہا کہ شہید حسن نصراللہ کے جسد خاکی کو اگرچہ بیروت میں دفن کیا گیا تاہم شہید نصراللہ سارے فلسطینیوں کے دل میں زندہ ہیں۔
انہوں نے صہیونی حکومت کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائيل اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے پر عملدرآمد پر مجبور ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقاومت کے پاس موجود یرغمالیوں میں صہیونی فوجی اور جنرل بھی ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے بعد رہبر معظم کے ساتھ پہلی ملاقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات فلسطینی قوم اور مقاومت کے لیے بہت اہم ہے۔ کچھ ہی دن پہلے حماس کے ہمارے بھائيوں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی تھی۔ رہبر معظم سیاسی، معنوی اور دیگر حوالوں سے فلسطینی مزاحمت کی حمایت بہت ہے۔ اسی وجہ سے فلسطینی قوم اور مزاحمت رہبر انقلاب کی بہت قدردان ہے۔ ملاقات کے دوران رہبر انقلاب نے فلسطینی مقاومت اور اس کی کامیابیوں کو بہت زیادہ سراہا۔
طوفان الاقصی آپریشن اور صہیونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے عمل کے دوران فلسطینی مقاومتی تنظیموں کے باہمی اتفاق اتحاد کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مزاحمتی گروہ مخصوصا حماس اور جہاد اسلامی پہلے ہی دن سے ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی صف میں ہیں۔ ہم نے پہلے ہی دن اعلان کردیا تھا کہ میدان جنگ میں ہم سب ایک ہی صف میں ہیں۔ سیاسی عمل اور مذاکرات میں بھی ایک ہی نظریے کے ساتھ ہماری ایک ہی ٹیم ہے۔ فلسطینی مقاومت کے تمام شہید خاص طور پر حماس اور جہاد اسلامی کے شہید، اس بڑی اور مقدس جنگ کے شہید ہیں۔ میں یہیں سے اعلان کرتا ہوں کہ فلسطینی قوم نے اس جنگ میں اپنے رہنماؤں اور کمانڈروں کا نذرانہ پیش کیا۔ برادر شہید اسماعیل ہنیہ، برادر شہید یحیی سنوار اور جہاد اسلامی اور حماس کے دوسرے بڑے کمانڈر شہید ہوئے۔ اس موقع پر ہم لبنانی مقاومت اور بھائیوں کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لبنانی مقاومت بدستور فلسطینی مزاحمت کی پشت پناہ ہے۔ سید بزرگوار، فلسطین کے سید الشہداء، جناب سید حسن نصر اللہ اور حزب اللہ کے بڑے بڑے کمانڈر جہاد اور استقامت کی راہ میں شہید ہوئے۔ شہادت اور کامیابی یہ سارے واقعات صیہونی دشمن سے ٹکراؤ میں متفقہ موقف کے تحت سامنے آئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور یمن کے شہداء کا بھی ذکر کرنا لازم ہے۔ خلاصہ یہ کہ مختلف ممالک اور خطوں کے افراد نے ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر جہاد کیا۔ مقاومت ایک اور متحد ہے۔ اسی اتحاد اور اتفاق کی وجہ سے ہم یہ عظیم کامیابی حاصل کر سکے۔
فلسطینی مقاومت اور عوام کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں طوفان الاقصی کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو میں یہ کہوں گا کہ طوفان الاقصی خطے میں مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد کی تجلی تھی۔ حزب اللہ جیسی مقاومتی تنظیم کی شرکت کے بعد یکجہتی اور اتحاد کا عظیم مظاہرہ دیکھا گیا۔ حزب اللہ کی عظیم قربانیاں خطے میں مقاومتی محاذ کے درمیان اتحاد کی عکاس ہیں۔ حزب اللہ کے رہنماؤں کی شہادت خاص طور پر جناب سید حسن نصر اللہ کی شہادت، فلسطین کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہے۔ فلسطینی مقاوممت جناب سید حسن نصر اللہ کی شہادت کو فلسطین، لبنان، پوری امت مسلمہ اور پورے مقاومتی محاذ کے لیے ایک بڑا نقصان سمجھتی ہے۔ طوفان الاقصی نے تمام مزاحتمی گروہوں کو آپس میں متحد کردیا اور امت مسلمہ کو فلسطینی قوم اور لبنانی مزاحمت کی پشت پر متحد کردیا۔ اسی اتحاد نے صہیونی حکومت کو پیش قدمی سے روکے رکھا۔ 1982 کی لڑائی میں صہیونی فوج نے کئی کلومیٹر پیش قدمی کرتے ہوئے لبنان کے اندر بڑے علاقے پر قبضہ کیا تھا لیکن طوفان الاقصی کے بعد ہونے والی اس جنگ میں صہیونی فوج اپنی پالیسی کے مطابق آگے نہیں بڑھ سکی۔
مقاومت کے ہاتھوں امریکہ اور صہیونی حکومت کی شکستوں کے بارے میں زیاد النخالہ نے کہا کہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے بارے میں سامنے آنے والی سبھی خبریں ایک گھٹیا عالمی پروپیگنڈے کا حصہ اور مذاکرات کو شکست سے دوچار کرنے کی کوشش ہیں۔ اسرائيل، اپنے قیدیوں کو رہا کرانے کے لیے سمجھوتے پر عمل کرنے کے لیے مجبور ہے، خاص طور پر اس لیے کہ باقی بچنے والے یرغمالیوں میں صہیونی فوجی اور جنرل بھی شامل ہیں۔ بنابریں اسرائیل ہمیں نظرانداز نہیں کرتے ہوئے نئی جنگ شروع نہیں کرسکتا۔ یہ بات قطعی اور واضح ہے۔ میں فلسطینی قوم اور فلسطینی خاندانوں کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اسرائيل کچھ نہیں کرسکے گا کیونکہ پچھلے ڈیڑھ سال میں وہ جو کرسکتا تھا، اس نے کر لیا۔ اس دوران امریکہ نے نہ صرف اسرائيل کی حمایت کی بلکہ اس کے ساتھ مل کر لڑتا بھی رہا۔ اس نے تل ابیب کو ٹیکنالوجی دی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائلوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کی۔ بنابریں میڈیا میں نیتن یاہو کے ذریعے سمجھوتے کو ناکام بنانے کی کوشش کے سلسلے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ صیہونیوں کو اس معاہدے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بھی پورا یقین اور اطمینان ہے کہ جو کچھ سمجھوتے میں طے ہوا ہے، وہ عملی جامہ پہنے گا۔
زیاد النخالہ نے کہا کہ میں ایک بنیادی مسئلے کے بارے میں بھی متنبہ کر رہا ہوں کہ عرب ملکوں کا موقف متحدہ ہونا چاہیے اور انھیں، سیاسی محاذ پر مستقبل میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس میں دشمن کو ایسا کوئی امتیاز نہیں دینا چاہیے جو فلسطینی قوم کے مفادات کے خلاف ہو۔
شہید حسن نصراللہ اور شہید ہاشم صفی الدین کی تشییع جنازہ کے حوالے سے تحریک جہاد فلسطین کے سربراہ نے کہا کہ سب سے پہلے تو میں کہوں گا کہ سید مقاومت اور شہید صفی الدین کی شایان شان تشییع کا ہونا ضروری تھا۔ میں کوئی تعارف نہیں کررہا ہوں بلکہ صدق دل سے کہہ رہا ہوں کہ جناب سید حسن نصر اللہ شہید فلسطین، شہید اسلام اور شہید قدس ہیں اور ہم سب کے دلوں میں ہیں۔ فلسطینی قوم اور فلسطینی مزاحمت کی حیثیت سے ہم، ہمیشہ جہاد اور مزاحمت کے اس عظیم مظہر اور نمونۂ عمل کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ وہ ایسے شہید ہیں جو ہمارے درمیان سے چلے گئے اور آج ہم مزاحمتی محاذ میں ان کی دوری اور فراق کو محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں خداوند عالم سے ان کے لیے اجر کی دعا کرنی چاہیے اور جناب سید حسن نصر اللہ اور ان تمام برادران کی یاد کو باقی رکھنا چاہیے جو اس لڑائی میں ہمارے درمیان سے چلے گئے۔ جی ہاں! وہ ہمارے درمیان سے چلے گئے لیکن انھوں نے ہم پر بڑا اثر ڈالا اور فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی ایک عظیم اور گہری تاریخ رقم کی۔ انھوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی جنگ میں فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اس کی پشت پناہی میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔ یہ چیز خطے میں مزاحمت کے درمیان پائے جانے والے اتحاد کی عکاسی کرتی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کے شانہ بشانہ حزب اللہ کی تاریخی استقامت کبھی فراموش نہیں کی جائے گی۔