ذکیہ جعفری : انصاف ہارگیا حوصلے جیت گئے

تحریر:سید سرفراز احمد

انسان چلاجاتا ہے لیکن مثالیں باقی رہ جاتی ہے ایسی کئی مثالیں اس ملک میں مدفون ہےجن کو بیان کیا جاسکتا ہے کچھ واقعات انسانی زندگی کا وہ اہم حصہ بن جاتے ہیں جس سے یا تو روح تڑپ اٹھتی ہے یا قلب میں بے کلی سی پیدا ہونے لگتی ہے کچھ واقعات ایک کمزور انسان کو بھی اتنا طاقتور بنادیتے ہیں کہ وہ حوصلوں کی چٹان بن جاتا ہے پھر دنیا دیکھتی ہی رہ جاتی ہے۔

 

یعنی یکم فروری 2025 کو ایک ایسی خبر سامنے آئی کہ طویل وقت سے اپنے شوہر کے حق کی لڑائی لڑنے والی انصاف کی امید کی خاطر ٹھوکریں کھا کھا کر آج اس دنیا کو الوادع کہہ دیا ایک یکم فروری 2025کا دن اور ایک وہ 28 فروری 2002 کا دن تھا جب گجرات فسادات رونما ہوۓ تھے اور ایک شدت پسند ہندو ہجوم ذکیہ جعفری کے 72 سالہ شوہر احسان جعفری کو گجرات کی گل برگ سوسائٹی میں واقع ان کے عالی شان بنگلے سے گھسیٹ کر باہر لےجاتا ہے اور پھر انہیں تشدد کے ذریعہ قتل کر دیا جاتا ہے یہ دن ذکیہ جعفری کے لیے ایک قیامت خیز تھا جس دن ان کی زندگی پوری طرح بدل گئی۔

 

لیکن ذکیہ جعفری نے صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھامتے ہوۓ حوصلوں کی اڑان بھری اور اپنے شوہر کو انصاف دلوانے کا جذبہ اپنے اندر پیداکیا حالانکہ اس وقت ان کی عمر 64 برس تھی لیکن انھوں نے ڈھلتی عمر سے نہیں بلکہ اعلی عزائم کی طاقت سے انصاف کی جنگ لڑنے کی ٹھانی اور ہم تمام کو یہ پیغام دیا کہ اپنے حق کی لڑائی کے لیئے بے خطر جدوجہد کرنی چاہیئے ظالم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنا چاہیئے اور نہ ہی بزدلی سے کام کرنا چاہیئے بلکہ حوصلوں کی چٹان بننے کا ہنر سیکھنا ہوگا پھر دیکھنا راستے خود بن جائیں گے ٹھیک اسی طرح ذکیہ جعفری نے انصاف کے لیئے اس لیئے بھی پر امید تھی کیونکہ وہ سچائی کی جنگ لڑ رہی تھی اور وہ خود اس واقعہ کی چشم دید گواہ تھی بلکہ جنھوں نے اس قیامت خیز منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا انھوں نے بھی حق گوئی کہنے سے منہ نہیں موڑا۔

 

جب آٹھ جون 2006 کو ذکیہ جعفری کے وکلا نے 64 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر تیار کی تھی جس میں نریندر مودی اور کئی وزرا، ان کی حکومت کے بیوروکریٹس، سینیئر پولیس افسران کے نام شامل تھے جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ پولیس نے اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی و دیگر بی جے پی قائدین کے خلاف مقدمات درج نہیں کیئے تھے یہ ذکیہ جعفری کا مجرموں کی طرف اٹھنے والا سب سے بڑا قدم تھا کہ انھوں نے پوری جرات کے ساتھ نریندر مودی کو انصاف کے کٹھگرے میں لاکر کھڑا کیا تھا لیکن بار بار سازشیں رچی گئی اور لگ بھگ دو دہائیوں تک طویل جدوجہد کرنے والی ذکیہ جعفری کی محنتوں پر پانی اس وقت پھر جاتا ہے جب ایس آئی ٹی نریندر مودی و دیگر کو لیکن چٹ دے دیتی ہے۔

 

انصاف کی خاطر ذکیہ جعفری کا مطالبہ سال 2008 میں مزید زور اس وقت پکڑا جب سپریم کورٹ نے گل برگ سوسائٹی سمیت دیگر نو مقدمات کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا اور ساتھ ہی ذکیہ جعفری کی شکایت کا جائزہ لینے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم ایس آئی ٹی بھی قائم کی گئی تھی ایس آئی ٹی سے کہا تھا کہ وہ ذکیہ جعفری کی درخواست میں جمع کروائے گئے شواہد کا بھی جائزہ لے درخواست میں ان کے شوہر کی موت کے بارے میں بذات خود عینی شاہد ہونے کا بیان اور ساتھ ہی اعلیٰ پولیس عہدیداروں کی جانب سے ناناوتی کمیشن کو بھیجے گئے حلف نامے بھی شامل تھے واضح ہو کہ ناناوتی کمیشن کو گجرات حکومت نے سابرمتی ایکسپریس قتل عام اور اس کے بعد ہونے والے تشدد کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا تھا۔

 

جب سازشوں کو کامیاب بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور سچ کو پردہ نشین کرنا ہوتا ہے تو سرکاری ادارے ہو یا سرکاری عہدیداران حکومت کے چاٹو کار بن کر کام کرنے لگتے ہیں یہاں بھی ویسا ہی ہوا نانا وتی کمیشن اور ایس آئی ٹی دونوں نے ذکیہ جعفری کی درخواست میں فراہم کردہ شواہد کو مسترد کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ گجرات حکومت کی طرف سے کوئی بھی وسیع تر سازش نہیں کی گئی۔

 

ذکیہ جعفری کے فرزند تنویر جعفری نے کہا کہ ہم نے رپورٹ کو ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ مجسٹریٹ کورٹ میں بھی چیلنج کیا لیکن دونوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ان کے پاس رپورٹ کا دوبارہ جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہم موجودہ درخواست کے ساتھ 2018 میں دوبارہ سپریم کورٹ گئے کیونکہ ہمارے پاس موجود ثبوتوں کے مجوعہ کا ہم کیا کرتے؟ کیا ہم اسے پھینک دیتے؟

 

لیکن ذکیہ جعفری انصاف کی امیدوں کو اپنے سر سے باندھے اور سچ کی گہار لگانے کے لیئے خاموش نہیں بیٹھی رہی بلکہ اپنے لاغر جسم میں جوش اور ولولہ سے بھری طاقت کا استعمال کیا اپنی ڈھلتی عمر کے کانپتے قدم میں جرات پیدا کی اور عدلت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں ایس آئی ٹی رپورٹ کو چیلنج کیا گیا ذکیہ جعفری نے اپنی درخواست میں یہ استدلال پیش کیا کہ 2012 میں پیش کی گئی ایس آئی ٹی رپورٹ کا دوبارہ جائزہ لیئے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں اہم شواہد کو نظر انداز کیا گیا تھا۔

 

اس معاملے کی دوسری درخواست گذار اور غیرسرکاری تنظیم ’سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس‘ (سی جے پی) کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں گجرات میں 2002 کے قتل عام کی ذمہ داری ان لوگوں پر ڈالی جانی چاہیے جو اس وقت اقتدار میں تھے وہ لوگ جو تشدد کو روکنے میں ناکام رہے اور ہو سکتا ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہو۔‘ایسی بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں تھی جو ذکیہ جعفری کے شانہ بہ شانہ چل رہی تھی جو ان کے ساتھ انصاف کی جنگ میں ان کا بھر پور ساتھ دے رہی تھی لیکن اسی شدت سے سرکاری ادارے ہو یا کمیشن جو مختلیف سازشوں کے تحت سچ کو پوشیدہ رکھ کر سیاست کے گداگروں اور تشدد و قاتلوں کی پوری طرح سے پشت پناہی کررہے تھے۔

 

بہر حال ذکیہ جعفری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایس آئی ٹی رپورٹ کی دوبارہ جانچ کی ضرورت پر دلائل سننا ہی اپنے آپ میں ایک فتح ہے دلچسپ بات دیکھئے کہ جو سچ کی خاطر میدان جنگ میں اترتا ہے وہ تختہ دار پر پہنچنا قبول کرسکتا ہے لیکن خوف کھاکر خاموش نہیں بیٹھ سکتا جب ذکیہ جعفری سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ ریاستی حکومت کا مقابلہ کرنے اور ملک کے اعلیٰ عہدیداروں کا نام لینے میں خوف محسوس کرتی ہیں؟ تو انہوں نے کہامیں کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہوں میں نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا اور میں سچ جانتی ہوں میں دیکھ رہی تھی جب انہوں نے میرے شوہر کو تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کردیا جس سے مجھے لڑنے کی ہمت ملتی ہے۔

 

وہ اپنی آب بیتی بتاتے ہوۓکہتی ہیں کہ انہیں اس دن تشدد کی نوعیت کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھا چونکہ کرفیو کا اعلان کر دیا گیا تھا لہذا ہم گھر پر تھے پڑوسی اور میرے شوہر اسی واقعہ پر گفتگو کررہے تھے باہر کا ماحول کیسا تھا ہمیں یہ معلوم نہیں تھالیکن جلد ہی ہمارے سوسائٹی کا ماحول بدل گیاگل برگ سوسائٹی میں ہزاروں افراد کا ایک پرتشدد ہجوم جمع ہوا اور لوگ پناہ لینے کی غرض سے بھاگ رہے تھے۔

 

ذکیہ جعفری کہتی ہیں کہ ہمارا گھر بھرا ہوا تھا تقریباً 200 افراد اس امید پر جمع ہوئے تھے کہ اگر وہ احسان جعفری کے گھر میں رہے تو انہیں بچا لیا جائے گا کیونکہ احسان جعفری کانگریس پارٹی کے سابق رکن پارلیمان تھےلوگ ہمارے گھر آتے رہے اور میرے شوہر نے کسی کو نہیں روکا وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔

 

کچھ ہی پل میں افراتفری پھیل گئی اور ہجوم ان کے دروازے تک پہنچ گیا جعفری اور تقریباً 50 دیگر افراد جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے انھیں ان کے شوہر نے چھپانے کے لیے اوپر بھیجا تھاانہوں نے کہا کہ میں نے اپنے شوہر ہونے والے تشدد کو پہلی منزل سے اپنی آنکھوں سے دیکھا جہاں میں چھپی ہوئی تھی میں نے ہجوم کو اپنے شوہر کو گھر سے باہر گھسیٹتے اور بے دردی سے ان پر تشدد کرتے دیکھاانہوں نے انھیں برہنہ کیا ان کی انگلیاں، ہاتھ، پیر کاٹے گئے، اور پھر میرے شوہر کا گلا کاٹ دیا اور انھیں ہاؤسنگ سوسائٹی کے چوراہے پر لے جاکر زندہ جلا دیامیں اس دن کو کبھی نہیں بھولوں گی۔

 

ظلم اور تشدد کی یہ وہی المناک شام تھی جب ذکیہ جعفری بحالت مجبوری اپنے بے روح شوہر کو چھوڑ کر دیگر افراد کے ہم راہ گھر سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی اس وقت شائد اعصاب نے کام کرنا بھی بند کردیا تھا وہ شائد صرف یہ سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ ان کی زندگی میں یہ کیا اور کیوں ہوگیا؟ کیا منظر تھا ہوگا وہ جب اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے شوہر پر ظلم کی لاٹھیاں اور موت کے کنویں کو اپنی گھبرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی وہ کہتی ہے کہ گراؤنڈ فلور پوری طرح سے جل کر خاکستر ہوگیا تھا وہاں موجود تمام لوگ مارے گئے ہم صرف اس وجہ سے بچ گئے کہ ہم اوپر تھے۔

 

ذکیہ جعفری کا کہنا ہے کہ جس شخص کو میرے شوہر جانتے تھے انہوں نے ہمیں لینے کے لیے گل برگ میں ایک ٹیمپو بھیجا ہم سب جو پہلی منزل پر تھے سوار ہوگئے اور ہمیں پولیس اسٹیشن کے قریب ایک کھلی سڑک پر چھوڑ دیا گیا ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں مزید آگے لے جانا بہت خطرناک ہے

ہم سب دوپہر سے بناۓ کچھ کھاۓ اور بناء پانی کے وہاں رہے میرے ایک رشتہ دار نے کسی بھی طرح مجھ تک رسائی حاصل کی اور مجھے اپنے گھر لے گئے میرا بیٹا تنویر جعفری جو سورت میں رہتے تھے اگلے دن احمد آباد آئے اور انہیں اپنے گھر لے گئے۔

 

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے تین سال قبل ذکیہ جعفری کی جانب سے 2002 کے گجرات فسادات میں نریندر مودی اور دیگر کئی افراد کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست کو مسترد کر دیا تھا

تاہم ذکیہ جعفری آخری سانسوں تک انصاف کی جنگ لڑتی رہی وہ بدستور ہمیشہ بے خوف رہی لوگوں کے پوچھے جانے پر کہ تمہیں ڈر نہیں لگتا وہ جواب میں کہتی وہ مجھ سے کچھ نہیں چھین سکتے میں پہلے ہی سب کچھ کھو چکی ہوں بالآخر انصاف ہار گیا اور ذکیہ جعفری کے حوصلے جیت گئے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *