دہلی پارٹیشن میوزم میں تقسیم ہند کی بیش بہا یادیں محفوظ

[]

دہلی کے کشمیری گیٹ پر واقع امبیڈکر یونیورسٹی کے کیمپس اور دارا شکوہ لائبریری میں بنائے گئے اس میوزیم میں تقسیم ہند کے دور کی تمام یادیں موجود ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ&nbsp;www.newsclick.in</p></div>

تصویر بشکریہwww.newsclick.in

user

نئی دہلی: تقسیم ہند 1947 کے دردناک واقعات اور اس وقت ہوئی قتل و غارت گری پر یوں تو متعدد کہانیاں اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ شاعروں اور ادیبوں نے بٹوارے کے غمناک قصوں کو اس طرح قلم بند کیا ہے کہ پڑھتے وقت قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ خود اپنی آنکھوں سے تقسیمِ ہند کے واقعات دیکھ رہا ہو۔ 1947 میں ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے وجود کے بعد رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے جو زخم دیئے ہیں وہ کہیں نہ کہیں آج بھی تازہ ہیں۔

آج سے 77 سال قبل ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جو لکیر کھینچی گئی تھی وہ صرف سرحدی نہیں تھی۔ تقسیم کی اس لکیر نے لوگوں کے دلوں میں شگاف ڈالنے کا کام کیا۔ آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں ان لوگوں کے خاندان آباد ہیں جو بٹوارے کے وقت اپنا وطن چھوڑ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ ہندوستان و پاکستان کے بٹوارے کی زندہ یادوں کو نئی نسل کو رو برو کرانے کیلئے ‘دہلی پارٹیشن میوزم’ بہترین جگہ ہے۔ امرتسر کے پارٹیشن میوزم کو تیار کرنے والے آرٹس اینڈ کلچرل ہیریٹیج ٹرسٹ نے ہی اس میوزم کو سجایا ہے۔

دہلی کے کشمیری گیٹ پر واقع امبیڈکر یونیورسٹی کے کیمپس اور دارا شکوہ لائبریری میں بنائے گئے اس میوزیم میں تقسیم کے دور کی تمام یادیں موجود ہیں۔ میوزم کشمیری گیٹ میٹرو اسٹیشن سے متصل ہے، یہاں آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ پارٹیشن میوزیم دیکھنے کے لیے آپ صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک جا سکتے ہیں۔ میوزیم منگل سے اتور تک سیاحوں کیلئے کھلا رہتا ہے اور پیر کے روز بند رہتا ہے۔ علم میں اضافہ کے لیے بتاتے چلیں کہ تقسیم سے جڑے لوگ اور ان کے اہل خانہ مفت میں اس میوزیم کو دیکھ سکتے ہیں۔

اشونی پائے بہادر، ڈائر یکٹر پارٹیشن میوزم نے بتایا کہ میوزم میں اُس وقت کے مہاجرین اور ان کے خاندانوں سے متعلق بہت سی چیزیں محفوظ ہیں جو خود تقسیم کا درد بیان کر رہی ہیں۔ اس میوزیم میں تقسیم کے وقت دہلی پہنچنے والے مہاجرین کی آبادی اور اس پر پڑنے والے اثرات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ یہ میوزیم ان لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے وقف ہے جنہوں نے راتوں رات اپنے گھر اور زندگیاں کھو دیں۔ میوزیم میں سات گیلریاں ہیں جو مختلف مراحل میں تقسیم کی فوری حالت کو ظاہر کرتی ہیں۔

اس میوزیم کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ میوزیم آپ کو ایسے سفر پر لے جاتا ہے جہاں دکھ، درد، جدوجہد اور دور دور تک صرف مایوسی ہے۔ لیکن آخر تک جاتے ہوئے آپ کو لگتا ہے کہ زندگی میں سب کچھ ختم ہونے کے بعد بھی زندگی اور اس دنیا کو بہتر بنانے کی گنجائش باقی ہے۔ میوزیم میں تصویروں کو اس طرح لگایا گیا ہے کہ دیکھنے والا تقسیم ہند کے درد کو محسوس کر سکے۔ ساتھ ہی جو اشیاء شو کیس میں رکھی گئی ہیں ان کی معلومات بھی تحریری طور پر موجود ہیں۔ میوزیم میں جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا گیا ہے جو لوگوں کو مزید معلومات فراہم کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ پاکستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آنے والے لوگوں کی روداد کو ان کی ہی زبانی ریکارڈنگ کی گئی ہے اور اسے اسکرین پر سنا اور دیکھا جا سکتا ہے۔ میوزیم میں تقسیم ہند کے وقت کی خبروں کی کٹنگ کو بھی نمایاں طور پر سجایا گیا ہے۔

ہندوستان اپنا 77واں یوم آزادی منا رہا ہے۔ جن لوگوں نے تقسیم ہند کے واقعات کو اپنے بڑوں کی زبانی سنا اور کتابوں میں پڑھا ہے، اگر وہ اپنی نئی نسل کو تقسیم کے بارے میں معلومات دینا چاہتے ہیں تو دہلی کا ‘دہلی پارٹیشن میوزم’ بہت عمدہ ذریعہ ہے۔


[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *