سقوط دمشق کی کہانی، بشار الاسد نے اقتدار کیوں چھوڑ دیا؟

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:8 دسمبر 2024 کو شام کی معاصر تاریخ کا ایک اہم باب رقم ہوا۔ 54 سال تک بعث پارٹی اور اسد خاندان کی حکمرانی کے بعد شام کی تاریخی سرزمین میں سیاسی حالات یکسر بدل گئے۔ دہشت گردوں نے صرف دس دن میں حلب، حماہ، حمص، درعا، اور بالآخر دمشق پر قبضہ کرتے ہوئے بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ دمشق کے سقوط کے بعد تمام سرکاری اور عسکری مراکز دہشت گردوں کے کنٹرول میں آ گئے اور شام کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی قرارداد 2254 کے تحت آئندہ آزاد انتخابات کے انعقاد اور نئے آئین کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی “تاس” کے مطابق بشار الاسد اور ان کے خاندان نے ماسکو پہنچ کر روس میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ تکفیری دہشت گردوں کے دمشق پر قبضے کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ہرٹزی ہالیوی نے شام کے جنوب پر حملے کے آغاز کا باقاعدہ اعلان کیا کیونکہ وہ اس صورتحال کو شام میں اپنی کارروائیوں کے لیے موزوں سمجھتے تھے۔

سقوط دمشق کی کہانی، بشار الاسد نے اقتدار کیوں چھوڑ دیا؟

مبصرین اور قارئین کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد کس طرح بغیر کسی قسم کی مزاحمت کے دمشق تک پہنچنے اور دارالحکومت کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے؟ وہ کیا عوامل تھے جن کی وجہ سے بشار الاسد اقتدار میں رہنے میں ناکام رہے اور تاریخ نے اپنے آپ کو کیوں نہیں دہرایا؟

اسد نے مدد نہیں مانگی؛ کیوں؟

شام کے صوبہ ادلب میں دہشت گرد تکفیریوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور شامی فوج کی ناقص کارکردگی نے ایرانی عسکری قیادت کو چند ہفتے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ ایرانی فوجی حکام نے دمشق کا دورہ کر کے بشار الاسد کو آگاہ کیا کہ ادلب میں موجود دہشت گردوں نے وسیع پیمانے پر عسکری تربیت اور ہتھیاروں سے لیس ہونے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔

ایرانی مشیروں نے شمال مغربی شام میں خاص طور پر ادلب کے آس پاس مزاحمتی فورسز کو دوبارہ منظم اور فعال بنانے کی منصوبہ بندی کی لیکن یہ سب اس وقت ممکن تھا جب بشار الاسد اس کے لئے گرین سگنل دیتے۔ اس سفر کے دوران ایرانی فوجی حکام پر واضح ہوگیا کہ شامی حکومت سے عوام کی اکثریت ناراض ہے جس کی دلیل شہروں کی تعمیر نو نہ ہونا اور اقتصادی مشکلات تھیں۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران السویدا جیسے حکومت کے حامی ترین صوبے میں بھی عوام نے مظاہرہ کیا تھا۔

سقوط دمشق کی کہانی، بشار الاسد نے اقتدار کیوں چھوڑ دیا؟

شام کے دوسرے شہروں میں بھی کم و بیش ایسی صورتحال تھی۔ ایرانی حکام نے مخلص اتحادی کی حیثیت سے بشار الاسد کو عوامی تشویش سے آگاہ کیا۔ شامی فوج کی کمزوری، مختلف محاذوں پر شکست، اور عوامی سطح پر پھیلی ہوئی ناراضگی نے بشار الاسد کو مزید کمزور کر دیا۔ یہ عوامل اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ اسد نے ایران سے عسکری مدد طلب کیوں نہیں کی اور وہ اپنے اقتدار کو بچانے میں کیوں ناکام رہے۔

مقاومت سے دوری اور نئے دوستوں کی فریب کاری

بدقسمتی سے بشار الاسد نے ایرانی تجاویز پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ مذکورہ مسائل کے حل کے لیے کسی قسم کا اقدام کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ دہشت گرد گروہ وسیع جنگ کی صلاحیت نہیں رکھتے اور کسی عسکری پیش قدمی کی صورت میں آپس میں الجھ جائیں گے۔ یہ ناقص تجزیہ اور موقف درحقیقت شام میں ایران کے کردار کو کم کرنے کے لیے ایک بہانہ تھا۔ اس سے قبل اسد نے عرب ممالک کے اصرار پر ایرانی کمانڈرز کو شام میں اپنی ذمہ داریاں ختم کرنے کے احکامات دیے تھے۔ بشار الاسد کے طرزِ عمل اور ایران کے انتباہات کو نظرانداز کرنے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اسد حکومت دیگر عالمی کھلاڑیوں کے جھوٹے وعدوں کے زیر اثر تھی۔ شام کی حکومت نے داخلی بحرانوں کے حل اور جنگ کی تباہ کاریوں کی بحالی کے لیے ایران سے دور ہو کر امریکہ اور عرب ممالک کی طرف جھکاؤ کا فیصلہ کیا تھا۔

سقوط دمشق کی کہانی، بشار الاسد نے اقتدار کیوں چھوڑ دیا؟

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق متحدہ عرب امارات نے واشنگٹن اور دمشق کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے بشار الاسد کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ ایران اور محورِ مقاومت سے دوری اختیار کریں تو پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا اور پابندیوں سے آزاد ہوکر شام تیل کی دولت اور اقتصادی منصوبوں کے ذریعے اپنی معیشت کو بحال کر سکے گا۔ یہ پرکشش اور پرفریب وعدے دراصل محض ایک سراب ثابت ہوئے۔ 8 دسمبر 2024 کو جب دہشت گردوں نے دمشق کا کنٹرول سنبھال لیا، تو یہ واضح ہو گیا کہ نہ تو کوئی وعدہ پورا ہوا اور نہ ہی اسد حکومت کو کوئی مدد ملی۔ ڈاکٹر بشار الاسد کی حکومت کا سقوط درحقیقت ان جھوٹے وعدوں پر اعتماد کرنے کا نتیجہ تھا۔

مشرق وسطی میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں

جب ادلب سے دہشت گرد گروہوں نے اپنی جنگی کاروائیاں شروع کیں تو اسلامی جمہوریہ ایران نے شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ اعلی سطح پر رابطہ کیا اور دمشق کے ساتھ مکمل تعاون اور حمایت پر اپنی آمادگی کا اظہار کیا۔ تاہم اسد نے ایران کی اس فراخدلانہ پیشکش کے جواب میں واضح طور پر کہا کہ تکفیری دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا محاذ ان کے کنٹرول میں نہیں۔ اس طرح انہوں نے گیند تہران کے کورٹ میں پھینک دی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شام کے قانونی صدر نے ایرانی حکام سے باقاعدہ درخواست کرنے کے بجائے اپنے نئے اتحادیوں کی پیشکشوں پر غور کرنے کو ترجیح دی۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ ایک سنگین غلطی تھی کیونکہ مشرق وسطی کے پیچیدہ سیاسی منظرنامے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی یا غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔

سقوط دمشق کی کہانی، بشار الاسد نے اقتدار کیوں چھوڑ دیا؟

اس غیر یقینی صورت حال کے باوجود ایران کی مسلح افواج مکمل تیاری کی حالت میں تھیں۔ ایرانی فوجی دمشق کی جانب سے گرین سگنل ملتے ہی جنگی محاذ کی طرف روانہ ہونے کے لیے تیار تھے۔ آخری لمحے میں بھی ایرانی حکام نے بشار الاسد سے رابطہ کیا اور ایک بار پھر دمشق کے حق میں حالات کو بدلنے کے لیے اپنی مکمل آمادگی کا اعادہ کیا۔ تاہم بشار الاسد کی عدم آمادگی، شامی فوج کی کمزوری اور عوامی ناراضگی کے باعث ایرانی حکام طویل مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس بار شام میں ایران کی عسکری مداخلت کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔

حاصل کلام

شام کے محورِ مقاومت سے عارضی طور پر الگ ہونے کے بعد اس محاذ کے مختلف حصوں کے درمیان رابطے اور تعاون میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ خاص طور پر حزب اللہ کے مجاہدین تک اسلحے کی ترسیل کے سلسلے میں مزید مشکلات سامنے آرہی ہیں۔ مشرق وسطی میں جاری تیز رفتار تبدیلیاں اور امریکہ، اسرائیل، اور سنی انتہا پسند حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شمالی غزہ کی جغرافیائی سیاست کو بدلنے اور طاقت کا توازن عبری-عربی-مغربی محور کے حق میں کرنے کے لیے برسوں سے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

تاہم یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسلامی تاریخ کے اتار چڑھاؤ سے محور مقاومت کے مجاہدین کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اگر وہ جنگ احد کے واقعات سے سبق حاصل کریں تو خیبر کی فتح ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ مشرق وسطی کی موجودہ صورتحال جدوجہد اور مقاومت کے جذبے کو مزید تقویت دینے کی دعوت دیتی ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *