’’میرا مذہب کسی کو درس عریانی نہیں دیتا‘‘

[]

قاری ایم ایس خان
9391375008

آجکل کی اور موجودہ عریانیت ، بے حیائی، بے شرمی، مخلوط محافل، بے پردگی، غیراسلامی وغیرتہذیبی لباس، عورتوں کی مردوں جیسی مشابہت اور مردوں کی عورتوں جیسی مشابہت اور نوجوان لڑکیوں ولڑکوں کی شرعی واسلامی تعلیمات سے انحراف یا بغاوت کودیکھ کر ہرذی شعور انسان، والدین، اساتذہ اورمصلح قوم وملّت حیران وپریشان اور مہربہ لب ہیں،سمجھنے میں نہیں آرہا ہے کہ اس طوفان بدتمیزی اوربے حیائی وعریانیت کے ’’سونامی‘‘ کو کیسے روکا جائے۔ کیسے ختم کیاجائے، کیسے نجات دلائی جائے ؟

بچپن میں جب ایک حدیث شریف نظرسے گذری کہ قُرب قیامت کے وقت گھر گھر میں ناچ گانا ہوگا تومعصوم ذہن میں یہ سو ال اٹھا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس وقت ناچ گانے کے بارے میں صرف یہ تصور تھا کہ یہ بہت بڑی چیز ہے جوفلموں ‘ڈراموں کی حد تک محدود ہے یا اس سے بڑھ کر یہ طوائفوں کا مشغلہ ہے چنانچہ ہر گھر میں اورجھونپڑ پٹی وغیرہ میں ناچ گانا ممکن نہیں شریف اوردینی گھرانوں میں تو یہ قطعی ناممکن ہے لیکن جب 1980؁ء کی دہائی میں ٹی وی گھرگھر عام ہونے لگے توبات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی اوربیسویں صدی کے اختتام سے پہلے ہی جب ویڈیو اورپھر کیبل کلچر وغیرہ نے ہر خاص وعام اور ادنیٰ واعلیٰ اور غریب و امیر کو اپنا گرویدہ بنالیا تویہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ قربِ قیامت کی نشانیوں کا ظہور شروع ہوچکا ہے اسی لئے اب ہرگھر میں ناچ گانا اور اسمارٹ فون عام ہوچکا ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اورالکٹرانک وفلمی پروگرامس ہماری نسلوں کوہم سے چھین رہا ہے، گھر گھر میں کیبل ٹی وی اور گلی گلی میں پھیلے ہوئے سائبر کیفے اوررقص وسرور کی مخلوط محفلیں ہماری نوجوان نسل اور کمسن بچوں کو اس قدر مسحور ومشغول کردیا کہ یہ حرام وحلال جائیز وناجائیز اورشرعی وغیر شرعی احکامات وسائل کو بھی بھول بیٹھے ہیں اور علی الاعلان بے حیائی، بے پردگی اورعریانیت کا کھلے چھپے مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔

یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ مغربی تہدیب‘ مذہبی تشخص ، تہذیب وتمدن ،حیا وشرم خاندانی اور انسانیت وغیرہ کو تقسیم وخلط ملط کرنے کے تصور پر یقین رکھتی ہے، اس تصور نے لڑکوں اور عورتوں کی شخصیت ‘ ان کے اخلاق ‘ عادات واطوار‘ رہن سہن اورچال چلن کو یکسر بدل دیا ہے۔ اس تصور نے وہ طوفان بدتمیزی وبے حیائی برپا کیے کہ آج عورت صرف ایک جنسی موضوع اورسامان تسکین بن کر رہ گئی ہے۔ اس تصور ونقطۂ نظر اور بے ہودہ وبے حیا ء الیکٹرانک ودیگر پروگرامس کے نتیجہ میں بازار ‘ حسن وآرائش کی مصنوعات سے بھر گئے۔ اب اگر کسی چیز کی مارکیٹ بنانی ہے تو عورت کے حسن کی نمائش جوکہ نیم یامکمل عریانیت پرمبنی ہوتی ہے ضروری ہے‘ عورت کو تکریم اوراحترام سے گراکرتذلیل کے اس مقام پر گرانا تہذیب تو کا کارنامہ سے اگر ہم عورت کے حسن کو پردے میں رکھنا چاہتے ہیں تو اس پر قیدوبند کی پھبنی کسی جاتی ہے،اس نقطۂ نظر نے عورت اورمرد دونوں کی فطرت اس طرح مسخ کردی ہے کہ اب پہچاننا دشوار ہوگیا ہے کہ یہ وہی عورت ہے جسکی سب تعظیم کیا کرتے تھے۔

طرفہ تماشایہ بھی ملاحظہ کرنے کے لائق ہے کہ اب بعض خواتین یہ بھی دعویٰ کرنے لگی ہیں کہ اگروہ حسن رکھتی ہیں تو ان کو اپنے حسن کی سرِ بازار نمائش کرنے کا بلاشرکت غیرے حق بھی حاصل ہے اور کسی کوبھی انگشت نمائی کا حق نہیں ہے ۔ایک خاتون نے ہندوستان میں ایک میگزین کے صفحات میں اپنے حسن کی یہی کرشمہ سازی کی تھی ۔

عورت کو اصلاً حسن اور شہوت کی تسکین کا ذریعہ بنانے کی وجہ سے ہمارے ملک ونوجوانوں پربرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جنسی کشش، بے حیائی، بے پردگی اورناقابل بیان عریانیت کی وجہ سے زندگی ومعاشرے کے پاکیزہ روابط بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں، چنانچہ ماضی قریب میں دہلی کے حکام نے یہ انکشاف کیا ہے کہ زناباالجبر کے واقعات میں75%واقعات ایسے ہیں جسمیں قریبی رشتہ دار ملوث پائے گئے۔اسکول کی پاکیزہ فضاؤں میں بھی اب شیطان درآتا ہے، چنانچہ اساتذہ کے ملوث ہونیکی رپورٹیں آتی رہتی ہیں ڈاکٹر اپنی زیرعلاج خواتین کی عصمت دری سے باز نہیں آتے تقدس وپاکدامنی کے یہ روابطہ بھی اگرملحوظ نہیں رہ گئے ہیں تو اسکی ذمہ داری کس پر ہے ؟ ظاہر ہیکہ مغربی فکراور مغربی تہذیب پرجس نے عورت کومحض شہوانی خواہشات اور عریانیت ونمائش کا ذریعہ بنادیاہے۔ اس نے معاشیات سے لے کر سیاست تک عورت کو ترغیبات کا نہایت موثر ذریعہ بنادیا ہے اگر کسی کو حکمرانوں سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے تو یہ لوگ بھی عورت کو استعمال کرتے ہیں ہندوستان میں بھی یہی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا، اسمارٹ فونس ٹی وی وذرائع ابلاغ، الیکٹرانک میڈیا پر بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانیت سے ڈرہے کہ نئی نسل یاتو جنسی بے راہ روی کی طرف مائل ہوجائے گی یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی جنسی حس ہی ختم ہوجائے، دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔ پہلی صورت میں اگر نسلیں جنس پر ستی کا شکار ہوسکتی ہیں تو دوسری صورت میں نسلوں کی بقا پرسوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ مسلسل ماردھاڑ اور جرم وچوری وغبن کے نئے نئے طریقوں کا مشاہدہ،جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، بے ایمانی، رشوت خوری، بے راہ روی، بے حسی، دھوم مستی،ڈسکواورکلبوں کی چکاچوند ،انٹرنیٹ چاٹنگ اور فحش وعریاں ویب سائیٹس کے سامنے خاندانی اقدار ، خاندانوں کی نیک نامی، معاشرتی وسماجی پاس داریاں ،شرافت ،انسانیت ، حیا شرم، نقاب وپردہ، بڑوں کی عزت، چھوٹوں سے شفقت اورکردار ساز ی کے وہ تمام درس جوگھراور مدرسے میں دیئے جاتے ہیں۔ سب بے مزہ اور بے وقعت ہوکر رہ گئے ہیں۔ اب ہماری نسلوں پرہمارا کوئی اختیار نہ رہا یہ ایک تلخ حقیقت ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی نسلوں کی حفاظت کیسے کریں؟ اس کا معقول اورممکن العمل جواب یہ ہے کہ نئی نسل کو انقلابی ایمان وتربیت کی ضرورت ہے کیوںکہ نئی نسل کہتی ہے کہ دین ومذہب اور دھرم صرف فرسودہ خیالات کا مجموعہ اورایک ایسا نظام زندگی ہے جو عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل سے عاجزوبے بس بلکہ ناقابل عمل ہے۔ اس دورالیکٹرانک وعروج وترقی میں بھی تہذیب وتمدن ، علم وفن ،آرٹ وسائنس اورمخلوط تفریحات وپروگرامس کا دشمن اورقدیم طرزِ زندگی کا داعی ہے۔

اس قسم کے افکار ونظریات جدید تعلیم یافتہ نسل کا محور اور فکر ونظربن چکے ہیں لیکن اسمیں سراسرخطا وقصور ہمارا ہے کہ ہم نے اپنے فریضے کی انجام دہی میں کوتاہی کی کہ اس کے ذہن ودماغ کواسلامی ،مذہبی اور شرعی واخلاق سانچے میں ڈھالنے کی کوئی کوشش کی اور نہ ان کے دلوں میں ایمان ویقین اوردین ومذہب کی محبت وعظمت اوراس کی عقیدت کو پیوست کرنے کا کوئی معقول انتظام کیاہے کہ ہم نے تو انھیں ایسا بے بس ولاچار بناکر چھوڑا کہ وہ ہر طرف سے خطرات کا شکار اوردشمنان اسلام کے لقمہ تربن گئے۔ اسلامی، مذہبی، دینی اور قرآنی وشرعی وفقہی نظریات پر جدید نسل کی تربیت اوران کی خوابیدہ وپراسرار صلاحیتوں سے پورا فائدہ اٹھانا ایسا اہم اورنازک کام ہے، جس کا پورا اہتمام وانتظام اوراس کو سب سے مقدم رکھنا ہمارا سب سے اہم فریضہ اورعظیم ذمہ داری ہے۔ قیامت کے دن اﷲ کے سامنے اس کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا اگر ہم اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ مغرب سے مقابلہ کرنا اس کی تعلیم اوراس کے افکارو نظریات سے آراستہ ہوئے بغیر ناممکن ہے تو یہ محض فریب نفس وشیطان کے سوا کچھ نہیں ہے بلکہ ایمان ہی مغرب سے مقابلے کی شاہ کلید ہے!

آج کی مسلمان خاتون اورنوجوان لڑکیوں کویہ اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ مغرب کی بے قید آزادی ان کے لئے کسی بھی زاوئیے سے سود مند نہیں… مغرب کی آزادی ٔنسواں کا تصور بھی محض ایک کھوکھکا دعویٰ ہے یہ عورت اورلڑکیوں کو غلط وغیر شرعی راہ پر ڈال کراس کا اصلی جوہر یعنی نسوانیت اورحیاوشرم وحجاب چھین لینے کے علاوہ اورکچھ نہیں کرتا…اور اگر عورت سے اس کا عورت پن اورحیا وشرم وپردہ ہی چھن جائے تو پھر اس کے پاس بچتا ہی کیاہے؟

آج مسلم خواتین ‘ مسلم طالبات اورملازمت پیشہ خواتین کو اسلام اور دیگر مذاہب کا تقابلی مطالعہ بھی کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دوست اوردشمن کو پہچان سکے اور کسی کے فریب میں مبتلا نہ ہوں،جہاں عریانیت، فحاشی، بے حجابی،جنسی اور ذہنی وفکری اوراستحصال کا اندیشہ ہو۔

خدائی احکام سے بے نیازی نے انسانی معاشرہ کو کہاں پہنچادیا یہ چند مثالیں ہیں جوکہ قابل غور وفکر اورعمل ہیں۔

لمختصر اورحاصل کلام ومقصد تحریر یہ کہ
جہاں کوبے قیودعادات حیوانی نہیں دیتا
میرا مذہب کسی کو درسِ عریانی نہیں دیتا
عفت وحیاء دونوں حسن ہیں یہ عورت کے
اچھاکب ہے عورت کا بے حجاب ہونا

٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *