[]
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی جنوب میں اپنا قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے حالیہ دورے اس بات کا مظہر ہیں۔ انہوں نے 2019 میں بھی ایسا ہی کیا تھا، کیونکہ اب یہ واحد علاقہ رہ گیا ہے جہاں وہ پارٹی کو وسعت دینے کی امید رکھتے ہیں۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انہوں نے جنوب کے لیے کیا کیا ہے؟ پچھلے دس سال کے اقتدار میں بی جے پی نے صرف قومی اسکیموں کے علاوہ کیرالہ کے لئے کچھ نہیں کچھ نہیں کیا، جو بہرحال پورے ملک میں نافذ ہیں۔ اس نے کیرالہ سے تین وعدے کیے تھے اور تینوں کو توڑ دیا۔ انہوں نے کیرالہ کو نیشنل آیوروید یونیورسٹی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ آج کہاں ہے، اسے گجرات میں بنا دیا گیا۔ میری درخواست پر 2015-16 کے بجٹ میں انہوں نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسپیچ اینڈ ہیئرنگ، ترواننت پورم کو نیشنل یونیورسٹی فار ڈس ایبلٹی اسٹڈیز میں تبدیل کرنے کی بات کی۔ پارلیمنٹ میں اس وعدے کے باوجود انہوں نے اسے شمال مشرق میں قائم کیا۔ ایسے میں کیرالہ کے لوگ ان پر کیسے بھروسہ کر سکتے ہیں؟
یہ سمجھنا ہوگا کہ جنوب میں مودی یا بی جے پی کی طرف کوئی جھکاؤ کیوں نہیں ہے۔ ہندوستان میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی کئی پیرامیٹرز پر مبنی ہے، جن میں سماج کی کشادگی، تعلیم اور خواندگی کی سطح اور سماجی ہم آہنگی اہم ہیں۔ جنوب ان تمام محاذوں پر سرفہرست ہے۔
ہمارا معاشرہ ایک ایسے ماحول میں تیار ہوا ہے جہاں کئی دہائیوں میں سماجی اصلاحات ہوئی ہیں اور اس نے تینوں مذاہب، ہندو، مسلم اور عیسائی میں ایک نیا شہری شعور بیدار کیا ہے۔ یہاں خواندگی شمال کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ ہماری تاریخ بھی مختلف رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے صدیوں سے تمام مذاہب کے لوگوں کو خوش آمدید کہا ہے اور سب مل جل کر امن کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ لہٰذا، فرقہ پرستی، مذہبی تقسیم، تاریخ سے چھیڑ چھاڑ اور سماجی تبدیلیوں کی جس کی بی جے پی شمالی ہندوستان میں بات کرتی ہے وہ یہاں کام نہیں کریں گے۔ ترقی کا دعویٰ کرنے والی پارٹی کو معلوم ہونا چاہیے کہ حقیقی ترقی اسی علاقے میں ہوتی ہے، باقی صرف بی جے پی کا ایجنڈا ہے۔