[]
ابو صوفیہ چترالی
ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل میں آج کل ’’ ہیکل گروپس‘‘ نامی جنونی مذہبی ٹولے تلمودی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے قبۃ الصخرہ کو گرانے، مسجد اقصیٰ پر یکبارگی حملہ کرنے اور پھر مزعومہ تیسرے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کےلیے نہایت سرگرم ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا سےلائی جانے والی سرخ گائے کی قربانی کی بھی تیاریاںجاری ہیں۔ اسرائیلی اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر گائے کی قربانی کی یہ رسم عین عید الفطر کے دن نبھائی جائے گی۔ چونکہ عبرانی کلینڈر کے مطابق یہ قربانی نیسان مہینے کے دوسری تاریخ کو کرنی ہے اور اتفاقی طور پر اس سال کا جو کلینڈر جاری ہوا ہے اُس کے مطابق ماہ نیسان کی دوسری تاریخ کو شمسی تقویم کے حساب سے 10 اپریل ہے اور اسی دن فلسطین سمیت بیشتر عالم اسلام میں عید الفطر منائی جارہی ہے۔ اس دن انتہا پسند مذہبی گروہ مسجد اقصیٰ کے بالمقابل مقبوضہ بیت المقدس میں زیتون کے پہاڑ پر سرخ گائے کو ذبح کریں گے۔ تورات کی تعلیمات کے مطابق اس قربانی کی تیاریوں اور طریقہ کارکو حتمی شکل دینے کے لیے گزشتہ بدھ کے روز انتہا پسند یہودی مذہبی گروہوںنے ایک خصوصی کا نفرنس منعقد کی تھی، جس میں زیتون کے پہاڑ پر سرخ ہیٹر ( بچھیا) کو ذبح کرنے، پھر اسے جلانے اور اس کی راکھ کو سلوان چشمہ کے پانیوں میں ملانے کی تیاریوں پر غور کیا گیا تھا۔ مذہبی تعلیمات کے مطابق یہ رسم یہودیوں کو مردے کو ناپاکی سے پاک کرنے کے لیے نبھائی جانی ضروری ہے جبکہ جنونی مذہبی گروہ اسے نام نہاد ٹیمپل ماؤنٹ ایڈمنسٹریشن کے ساتھ عملی تعاون کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں۔
ذبح کی تیاریاں: تو راتی عقائد کے مطابق اسرائیل میں چیف ریٹیٹ (بڑے مذہبی پیشواؤں) کا متفقہ فتویٰ مذکورہ جنونی گروہوں کی مہم جوئی کے خلاف ہے۔ صہیونی ریاست میں چار چیف ربی ہوتے ہیں، ہر ایک کے عہدے کی مدت 20 سال ہوتی ہے۔ ان چاروں کا فتوی ہے کہ یہودیوں کو مسجد اقصیٰ پر حملہ کرنے سے پہلے نجات دہندہ مسیحا (دجال اکبر ) کے ظہور اور نجات کے آغاز تک صبر کرنا چاہیے۔ وہ ( دجال) آکر انہیں ٹیمپل ماؤنٹ پر چڑھنے کی اجازت دے گا۔ اس کے بعد مسجد اقصیٰ پر حملوں کے ساتھ تیسرے ہیکل کی تعمیر کا با قاعدہ آغاز بھی ہوگا۔ یہ عقیدہ تو رات سیجز کی کونسل کے عقائد کے مطابق ہے۔ تاہم جنونی گروہ (بیکل گروپس ) اسے تسلیم نہیں کرتے ۔ ان کا موقف ہے کہ مسیحا ( دجال ) کی آمد سے قبل ہی ہیکل کی تعمیر شروع کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں بدھ کو مذکورہ کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں مختلف مذہبی تحریکوں سے تعلق رکھنے والے تقریبا 100 ربیوںنے شرکت کی۔ یہ کانفرنس پرانی شیلوہ بستی میں منعقد کی گئی جو کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں رام اللہ کے شمال مشرق میں خیر بیت سلون کے کھنڈرات پر تعمیر کی گئی تھی پر تھی۔
یادر ہے کہ یہودیوں کےنزدیک یہ علاقہ مذہبی اور بائبلی عقائد کی رو سے نام نہاد ریاست یہودیہ اور سامریہ کا مرکز تھا۔
کانفرنس میں شریک ربیوں نے تلمودی رسومات اور سرخ گائے کو ذبح کرنے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا۔ 5 سرخ گا ئیں پرانی شیلو بستی میں پائی جارہی ہیں، جنہیں ستمبر 2022 ء میں امریکی ریاست ٹیکساس کے فارموں سے خصوصی پرواز کے ذریعے لایا گیا تھا جس کا انکشاف اسرائیلی چینل 12 نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا۔ عبرانی جریدے یدیعوت احرونوت کی رپورٹ کے مطابق صہیونی قیادت عرصے سے سرخ گائیوں کی تلاش میں تھی۔ پھر سابق حکومت کے دور میں نفتالی بینیٹ اور یائر لا پڈ کی سربراہی میں اسرائیل لائی گئی تھیں ۔ حکومت نے گایوں کی درآمد اور دیکھ بھال کے لیے خصوصی فنڈز فراہم کئے تھے۔ نفتالی کی حکومت کے بعد نتن یا ہو کی سربراہی میں بننے والی حکومت نے ریڈ کاؤز (سرخ گائے) کے منصوبے کی حمایت جاری رکھی۔ ریڈ کاؤ کا نفرنس میں شرکت کے ساتھ ان گائیوںکی قربانی سے متعلق مذہبی رسوم کی ترویج میں بھی حصہ لیتی رہی۔
اسرائیل میں ’ بونی ‘ نامی ایک عظیم ہے جو انتہا پسند یہودیوں پر مشتمل ہے۔ ربی زاچی اسحاق میمو ‘ اس کا سربراہ ہے۔ یروشلم کے اس ربی نے کچھ عرصہ قبل سرخ گائے کی تلاش کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ دنیا بھر کے یہودی فارم چھان لینے کے بعد بھی اسے سرخ گائے نہ ملی۔ آخر کار امریکی ریاست ٹیکساس Texas کے ایک فارم پر انہیں ان کا گوہر نایاب نظر آگیا لیکن اب یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ اسرائیل کے کسٹم ضابطوں کے تحت امریکا سے مویشی در آمد کرنے کی اجازت نہیں۔ ربی ’ مذہبی میلے ‘‘ کا سہارا لے کر گائے کی پانچ نو مولود بچھیوں کو بطور پالتو جانور (Pet) اسرائیل لے آیا تھا۔ اسحاق میمو کے علاوہ چوٹی کے بدترین شدت پسند اور جنونی افراد اس بونی تنظیم کے اہم عہدیدار ہیں جن میں کمداش انسٹی ٹیوٹ تنظیم کا بانی ربی یسرائیل ایریل (کچ تحریک سے تعلق) اور اندرونی سلامتی کے موجودہ وزیر ا تمار بین گویر بھی اس تنظیم کا حصہ ہے۔ یہی تنظیم گایوں کی قربانی سے متعلق تمام امور کی نگرانی کرتی ہے۔ قربانی سے قبل ان کے بدن پر بالوں کی تحقیق اور دیکھ بھال بھی اس کے ذمہ ہے جبکہ بدھ کی کانفرنس بھی اسیتنظیم کے تحت منعقد کی گئی۔
قدامت پسند عناصر کا اصرار ہے کہ ہیکل کی تعمیر نو اس جگہ ہوگی جہاں مسجد اقصیٰ و گنبد صخرہ واقع ہیں۔ عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے سرگرم مذکورہ عظیم کی ایک عورت رہنما ملیسا جین کرون فیلڈنے امریکی ٹی وی CBS کےنمائندے سے صاف صاف کہا کہ عبادت گاہ اسی مقام پر بنی تھی، لہٰذا نئی عبادت گاہ یہیں پر تعمیر ہوگی۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں سے کچھ چھینا چاہتے ہیں نہ ان کی مسجد مسمار کرنا مطلوب ہے۔ مسجد اپنی جگہ رہے اور ہیکل کا حصہ بن کر سب کی عبادت گاہ بن جائے۔ تاہم گنبدِ صخرہ کو یہاں سے ہٹانا ہوگا۔ ہمیں سنہری گنبد اور عبادت گاہ کو گرانے کا کوئی شوق نہیں، بس اسے یہاں سے کہیں اور منتقل کر دیا جائے ۔ جب صحافی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس کے نتیجے میں خونریز جنگ ہو سکتی ہے، جس سے مشرق وسطی میں عدم استحکام پیدا ہو گا تو موصوفہ نے فرمایا مشرق وسطی ایک عرصے سے عدم استحکام کا شکار ہے اوراس وقت بھی یہاں ( غزہ) جنگ ہورہی ہے۔
عرب امور کے ماہرین کی رائے: جنونی یہودیوں کے اس منصوبے کو اگر عرب اور اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یروشلم اور الاقصی کے مسائل کے محقق وکیل خالد زبرقہ کہتے ہیں: جب ہم الاقصیٰ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں ان گروہوں کے حتمی مقصد کو ذہن میں لانا چاہیے۔ ہیکل کی تعمیر ایک مذہبی نظریاتی ہدف ہے جو اُن کے عقائد کا بنیادی حصہ ہے۔ الاقصیٰ کو نشانہ بنانے اور مبینہ ڈھانچے کی تعمیر پر ان کی نگاہ مرکوز ہے۔ زبرقہ نے الجزیرہ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں وضاحت کی کہ یہ گروہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پوری طاقت کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں اور وہ سرخ گائے کو جلانے اور ہیکل کی تعمیر کے لیے موجودہ حالات کو سنہرا موقع سمجھ اپنی تحریک کو تیز کر رہے ہیں۔ اگر چہ کچھ لوگ بونی کی سرگرمیوں کے مخالف ہیں لیکن سارے یہودی اپنے نجات دہندہ مسیح ( دجال ) کی آمد کے شدت سے منتظر ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد ظاہر ہو۔
مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی واقعات کو سامنے رکھ کر ز برقہ کا یہ یقین پختہ ہو چکا کہ یہ جنونی گروہ دنیا میں سب سے زیادہ با اثر بن چکے ہیں اور بعض عرب اور اسلامی حکومتوں پر بھی ان کا کنٹرول اور اثر و رسوخ ہے۔ وہ اپنی پوری طاقت سے ظہور مسیح ( دجال کی آمد) کو تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ غزہ جنگ کو بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ یروشلم اور الاقصیٰ کے مسائل کے محقق نے نشاندہی کی کہ صیہونی مذہبی عقائد کے مطابق مسجد اقصی کے انہدام کے بعد سرخ گائے کو ذبح کر کے اس کی راکھ سے اس جگہ کو پاک کیا جانا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی ہیکل کی تعمیر ہوگی۔ زبرقہ کے کے مطابق یہودی گروہوں کا مانتا ہے کہ سرخ گائے کو ذبح کرنا اقصیٰ کی جگہ کو پاک صاف کرنا اور ہیکل کی تعمیر کے لیے الاقصیٰ کو منہدم کرنا یہ وہ چیزیں ہیں جو نجات دہندہ کی آمد تیز کریںگی، جس کو یہودی دو ہزار سال سے ڈھونڈ رہے تھے۔ ز برقہ کا کہنا ہے کہ یروشلم میں محکمہ اوقاف کے عہدیداروں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ مقامی مسلمانوں میں بھی الاقصی شریف کے خلاف کسی خفیہ اسکیم اور گھناؤنی سازش کے وجود کا احساس مضبوط ہوا ہے۔ زبرقہ نے وضاحت کی کہ ٹیکساس سے سرخ گائے لانا اسرائیل میں اس کی دیکھ بھال اور تشہیر کرنا ایک انتہائی خطر ناک اشارہ ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰