آئی آئی ٹی۔ گوہاٹی کا طالب علم گرفتار، آئی ایس آئی ایس سے وفاداری کا عہد

[]

گوہاٹی: آسام کے ہاجو میں ہفتہ کے روز آئی آئی ٹی۔ گوہاٹی کے ایک طالب علم کو حراست میں لے لیا گیا جس نے آئی ایس آئی ایس سے وفاداری کا عہد کیا تھا۔

بائیو ٹیکنالوجی کے چوتھے سال کے طالب علم نے حال ہی میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ای میل پر دعویٰ کیا تھا کہ وہ دہشت پسند تنظیم میں شامل ہونے کا اِرادہ رکھتا ہے۔

بعدازاں وہ آئی آئی ٹی۔ گوہاٹی کے کیمپس سے لاپتہ ہوگیا تھا۔ اُس پر انسداد غیرقانونی سرگرمیاں ایکٹ (یواے پی اے) کے تحت الزامات عائد کئے گئے ہیں اُسے آج گوہاٹی کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جس نے اُسے دس روزہ پولیس تحویل میں دے دیا۔

آئی ایس آئی ایس انڈیا کے سربراہ حارث فاروقی کو حال ہی میں ضلع دھوبری میں گرفتار کیا گیا تھا جو بنگلہ دیش سے غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق اس طالب علم کی تلاش کیلئے نوٹس جاری کی گئی تھی۔ وہ دہلی کا رہنے والا ہے اُس نے لنکڈان پر ایک کھلا مکتوب تحریر کیا تھا جس میں اپنے فیصلہ کی وجہ بتائی تھی۔ اُسے گوہاٹی سے 30 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ضلع کامروپ کے ہاجو میں پایا گیا اور پوچھ تاچھ کیلئے تحویل میں لے لیا گیا۔

پولیس نے جب آئی آئی ٹی۔ گوہاٹی کے حکام سے ربط پیدا کیا تو انہوں نے بتایا کہ مذکورہ طالب علم دوپہر سے لاپتہ ہے اور اُس کا موبائیل فون بھی بند ہے۔ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ٹی ایف) کلیان کمار پاٹھک نے بتایا کہ ایک ای میل موصول ہونے کے بعد ہم نے اس کے مشمولات کی صداقت کی جانچ پڑتال کی اور تحقیقات شروع کردیں۔

یہ ای میل طالب علم نے روانہ کیا تھا جس نے اُس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے جارہا ہے۔ خصوصی ٹاسک فورس کے ذرائع نے بتایا کہ اُسے ہاسٹل کے کمرہ میں لے جایا گیا جہاں پولیس ملازمین نے آئی ایس آئی ایس کے پرچم کے مماثل ایک سیاہ پرچم برآمد کیا۔

یہ طالب علم سب سے الگ تھلگ رہتا تھا اور کیمپس میں اس کے کوئی دوست و احباب بھی نہیں تھے۔ حارث فاروقی 2019 سے سرگرم تھا۔ آسام پولیس نے اُسے چہارشنبہ کے روز اُس کے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔

اس کا ساتھی انوراگ سنگھ عرف ریحان پانی پت سے تعلق رکھتا ہے اور وہ مشرف بااسلام ہوگیا تھا۔ اُس کی بیوی ایک بنگلہ دیشی شہری ہے۔ فاروقی پر شبہ ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں روپوش تھا اور ہندوستانیوں کو انتہاپسند بنارہا تھا۔



ہمیں فالو کریں


Google News



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *