[]
مہر خبررساں ایجنسی، سماجی ڈیسک؛ آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور مسائل پر بات کی جاتی ہے۔
ذیل میں رہبر معظم انقلاب کے “اسلام کے نقطہ نظر سے خواتین کے مقام و منزلت اور اسلامی انقلاب کی خواتین کے لئے خدمات” کے عنوان سے دئے خطبات کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔
اسلام عورت کے وقار اور عورت ہونے کو اہمیت دیتا ہے
خواتین کے معاملے پر ہمیں ایک جامع نظرئے کا حامل ہونا چاہیے، اور یہ جامع نظریہ صرف اسلام کے پاس ہے۔ عورت کی اصالت کے احترام کا مسئلہ عورت ہونے کے ناطے خود عورت کے لیے بہت بڑی قدر ہے۔ یہ ایک اصول ہے۔
عورت کے لیے مردوں سے مشابہت اختیار کرنا کسی بھی طرح قابل قدر نہیں ہے۔
اسی طرح مردوں کو عورتوں کے مشابہ نہیں سمجھا جاتا۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک کردار، مقام اور فطرت ہے، اور خدا کی حکیمانہ تخلیق میں ان کا ایک خاص مقصد ہے، اور اس مقصد کا پورا ہونا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ نہایت اہم ہے۔
سیاسی سماجی نقطہ نظر سے
اسلامی حکومت میں عورتوں کے لیے بیعت کا حق ثابت ہے۔
اسلام میں خواتین، مردوں کی طرح، تمام سیاسی اور سماجی شعبوں میں ذمہ دار ہیں، اور بیعت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اسلام میں عورتوں کی بیعت، خواتین کی ملکیت، ان بنیادی سیاسی اور سماجی میدانوں میں خواتین کی موجودگی کا حق واضح بیان کیا گیا ہے۔
پیغمبر اکرم ص نے یہ نہیں کہا کہ مرد بیعت کے لیے آئیں اور انہوں نے جس کو ووٹ دیا، جسے انہوں نے قبول کیا، عورتوں کو بھی انہیں قبول کرنا چاہیے۔ نہیں. ایسا باالکل بھی نہیں فرمایا۔ بلکہ انوں نے فرمایا کہ عورتوں کو بھی بیعت کا حق حاصل ہے۔ وہ اس حکومت کو قبول کرنے، اس سماجی اور سیاسی نظام کو قبول کرنے میں بھی برابر کی شریک ہیں۔
مغرب والے اس میدان میں اسلام سے 1,300 سال پیچھے ہیں۔ اور وہ کھوکھلے دعوے کرتے ہیں! اسی طرح ملکیت اور دیگر سماجی و سیاسی مسائل سے متعلق شعبوں میں بھی وہ اسلام سے پیچھے ہیں۔
تمام سیاسی اور سماجی شعبوں میں مساوات
“اسلام جب کہتا ہے کہ اور مومنین اور مومنات اولیاء ہیں اور ایکدوسرے کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں۔
یعنی مومن مرد اور عورتیں معاشرتی نظام کو برقرار رکھنے اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں شریک ہیں۔ اسلام نے خواتین کو خارج نہیں کیا۔ ہم بھی خواتین کو خارج نہیں کر سکتے۔ اسلامی معاشرے کو سنبھالنے اور اسلامی معاشرے کی ترقی کی ذمہ داری سب کے کندھوں پر ہے۔ عورت کے کندھے پر، مرد کے کندھے پر؛ ہر ایک اپنی صلاحیتوں کے مطابق یہ ذمہ داری ادا کرے۔
اسلام میں خواتین کی جائیداد کے حقوق اور معاشی آزادی
خواتین کی جائیداد اور آزادی کا حق اسلام میں ایک رسمی طور پر مسلمہ اور ثابت شدہ حق ہے۔اسلام میں عورت اپنے مال کی خود مالک ہے۔ اس کا شوہر راضی ہے یا نہیں؛ اس کا باپ راضی ہو یا نہ ہو- اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا- وہ اپنا مال و دولت خرچ کر سکتی ہے اور اس کا کسی اور سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اسلام کی رائے ہے۔
خواتین کی معاشی آزادی کی حمایت میں دنیا تیرہ سو سال اسلام سے پیچھے ہے۔ اسلام نے یہ بات تیرہ سو سال پہلے کہی۔ لیکن یورپ میں تو صرف 40 سال، 50 سال اور کچھ ممالک میں اس مدت سے بھی کم عرصہ گزرا ہے کہ انہوں نے صرف عورتوں کو اپنی جائیداد میں تصرف کی اجازت دینا شروع کر دی ہے۔ اسلام اس معاملے میں بھی آگے ہے۔
خاندان میں کردار
شریک حیات کے انتخاب کے حق کے علاوہ، خاندان کی مدیریت اور بچوں کی پرورش میں عورت کا بنیادی اور مرکزی کردار ہوتا ہے۔ وہ زندگی میں خصوصی حقوق سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے شوہر کی ساتھی ہے اس کے ماتحت نہیں۔
شریک حیات کے انتخاب کے لیے عورت کے حق کو تسلیم کرنا
عورت ایک بیوی کے طور پر اسلام میں مختلف مراحل میں خصوصی توجہ حاصل کرتی ہے.
اسلام کی رو سے عورت کو شریک حیات کے انتخاب میں آزادی ہے اور شریک حیات کے انتخاب کے حوالے سے کوئی بھی عورت پر اپنی رائے مسلط نہیں کر سکتا۔ یعنی عورت کے بھائی بھی، عورت کے والد – دور دراز کے رشتہ دار کی تو بات ہی نہیں ہے۔ اگر وہ اس پر اپنی رائے مسلط کرنا چاہیں کہ تم اس شخص سے شادی کرو، تو وہ ایسا نہیں کرسکتے اور انہیں ایسا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ اسلام کی رائے ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ملک کے اندر اور باہر رائے عامہ کی توجہ کا ایک اہم موضوع، خواتین سے متعلقہ مسائل تھے۔ اسلامی انقلاب نے ایک ایسے ماحول میں کامیابی حاصل کی جہاں مختلف مکاتب فکر اور سیکولر حلقوں نے خواتین کے بارے میں ایک خاص نظرئے کو فروغ دیا اور دوسری تہذیبوں اور دینی نظریات کے سفارش کردہ طرز زندگی کو اپنے پرفریب نعروں سے رد کرنے کی کوشش کی۔
مشرقی تعریف میں عورت معاشرے کے حاشیے پر موجود ایک عضو معطل ہے جو تاریخ سازی میں کوئی فعال کردار نہیں رکھتا۔ جب کہ غالب
مغربی تعریف میں اسے ایک ایسے موجود کے طور پر متعارف کرایا گیا کہ جس کی جنسیت اس کی انسانیت پر غالب ہے اور وہ مردوں اور نئے سرمایہ دارانہ نظام کی خدمت کا ایک جنسی آلہ ہے۔
لیکن اسلامی انقلاب نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے عورت کی ایک تیسری اور جداگانہ تعریف پیش کی جس کی بنیاد پر عورت کا ایک منفرد نمونہ سامنے آتا ہے۔ جو اپنی ذات میں نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی بلکہ مسلمان عورت ہے۔
ایران کی مسلم خواتین نے دنیا کی خواتین کی آنکھوں کے سامنے ایک نئی تاریخ رقم کر کے ثابت کر دیا کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ اپنی نسوانی اور انسانی عظمت کی حفاظت کرتے ہوئے معاشرے کے ہر میدان میں اپنی فعال موجودگی کے ساتھ ساتھ خاندان کی تشکیل و تربیت، اور سیاسی و سماجی میدان میں فعال کردار ادا کرسکتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر یا اسلامی انقلاب کی رو سے عورت ایک “کھلونا یا غیر اہم موجود” نہیں کہ جو مردوں کے لئے ہوس کے اسباب فراہم کرے یا پھر پبلسٹی مٹیریل بنے۔ نہیں، باالکل بھی نہیں۔
بلکہ وہ اپنی نسوانی قوتوں کو ایمان اور عفت کے ساتھ جوڑ کر ایک منفرد اور صاحب عظمت وجود تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی رو سے خواتین، معاشرے میں ایک فعال عنصر کے طور پر، خاندان اور بچوں کی پرورش میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں، اور بچے کی پرورش کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ ماں کی آغوش میں پروان چڑھے اور اس کی محبت سے لطف اندوز ہو تا کہ ایک صحت مند معاشرے کا فرد بن سکے۔
مائیں اپنے بچوں کی پرورش کرکے معاشرے کے ہر فرد کی تعمیر کرتی ہیں اور ملک کی شناخت کے عناصر کے تحفظ اور اسے برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ “کسی قوم کی شناخت، قوم کی شخصیت بنیادی طور پر ماؤں کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ زبان، عادات، آداب، روایات، اچھے اخلاق، اچھی عادات، یہ سب بنیادی طور پر ماں کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔
اسلامی انقلاب کی چار دہائیوں کے بعد، سماجی مسائل میں خواتین کے کردار اور سائنس، ثقافت، سیاست اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں حیرت انگیز پیشرفت نے دنیا کو ایرانی (مسلمان) خواتین کی اجتماعی ترقی کی طرف توجہ دلائی ہے۔
آج خواتین کی حقیقی شناخت اور ثقافتی آزادی کا پرچم مسلمان خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ آج حجاب رکھ کر ایرانی خواتین دنیا کے سامنے اپنی شناخت اور ثقافتی آزادی کا برملا اعلان کر رہی ہیں۔
ایرانی (مسلمان) خواتین نے دنیا میں رائج مشرقی اور مغربی تعریف کے طلسم کو توڑتے ہوئے عورت کا اسلامی نمونہ پیش کیا جو خالصتا انسانی عظمت اور نسوانی تشخص پر قائم ہے۔
اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کی ترقی کا جائزہ
خواتین کے بارے میں پہلوی دور کے مغرب زدہ تصور نسوانیت (جہاں عورت کو مرد کی تسکین کا آلہ سمجھا جاتا ہے) کے برخلاف آج اسلامی جمہوریہ ایران اپنی الہی بنیادوں پر بھروسہ کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں باصلاحیت خواتین کی تربیت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ان خواتین کی تعلیم و ترقی خواتین کے مسئلے میں اسلامی انقلاب کے صحیح نقطہ نظر کو آگے بڑھانے اور باطل مغربی ثقافت پر قابو پانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس کی مثالیں ایرانی خواتین کی اعلی ترقی پسند تحریک کو واضح کر سکتی ہیں:
صاحب فکر اور اچھے فہم و فراست کی حامل خواتین کی پرورش:
ایران بھر میں اعلی صلاحیتوں کی حامل خواتین اسلامی نظام کی کامیابی اور خواتین کے بارے میں اسلام کے ترقی پسند نقطہ نظر کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہمارے ہاں پہلوی رجیم کے دور میں اتنی اعلیٰ پائے کی خواتین نہیں تھیں۔ آج ملک بھر میں خواتین محققین، پروفیسرز، سائنسدانوں، مصنفین، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، مصوروں کی قابل ذکر تعداد خواتین کی سائنسی اور فکری ترقی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
طب کے میدان خواتین کی ترقی
“آج ایران کی طبی پیشرفت نے تقریباً ایک بین الاقوامی حیثیت حاصل کر لی ہے۔
یہ پیش رفت ایسی ہے کہ آج ملک میں خواتین کو مرد ڈاکٹر سے علاج کرانے کی ضرورت نہیں پیش نہیں آتی جبکہ انقلاب سے پہلے یہ مسئلہ ایرانی معاشرے کے بڑے مسائل میں سے ایک تھا۔
اسلامی انسانی علوم کے شعبے میں خواتین کی زبردست موجودگی
آج حوزوی علوم، فقہ، فلسفہ، انسانی علوم میں اسی طرح نیچرل سائنسز اور ملک کے تمام سائنسی شعبوں میں خواتین کی موجودگی واضح اور شاندار ہے۔ یونیورسٹیاں ہماری طالبات سے بھری پڑی ہیں۔ سائنسی شعبہ جات میں خواتین کی فعال موجودگی ان کی ترقی کی نشاندہی کرتی ہے۔
کھیلوں کے میدان میں خواتین کی شاندار کارکردگی
اسلامی جمہوریہ ایران خواتین کے کھیلوں کی ترقی کے لیے ایک زبردست پلیٹ فارم فراہم کرنے میں کامیاب ہوا۔ تاکہ ایرانی خواتین اپنی عفت اور حجاب کو برقرار رکھتے ہوئے عالمی مقابلوں میں شرکت کر سکیں۔
ہماری کھلاڑی خواتین کا حجاب پہننے کا معاملہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ واقعا حیرت انگیز بات ہے کہ ایک باپردہ خاتون چیمپیئن کے طور پر میدان میں کھڑی ہے اور سب کو احترام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
سماجی ترقی میں خواتین کا کردار
ایران کی مسلمان خواتین کا معاشرے کی ترقی میں نمایاں کردار ہے۔ وہ اسلامی قدروں پر پوری طرح کاربند رہتے ہوئے ملک کے سیاسی، سماجی شعبوں میں زیادہ فعال نظر آتی ہیں اور یہ ایران کی مسلمان خواتین کے لیے اسلامی انقلاب کے ثمرات اور خدمات میں سے ایک ہے۔
مغرب کے شیطانی منصوبوں کا مقابلہ کرتی مسلم خواتین
اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی آئین کے بنیادی ستونوں میں سے ایک خواتین کی ثقافتی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی حیثیت کا فروغ رہا ہے۔
جس کے نتیجے میں ایرانی خواتین کو مکمل حقوق اور ترقی کے مواقع میسر آئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ نے ایرانی خواتین کو سائنس، کھیل، آرٹ وغیرہ سمیت تمام شعبوں میں بین الاقوامی سطح پر اپنے دینی اور قومی عقائد کی ترجمانی کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ اس اسلامی نقطہ نظر اور پالیسی نے خواتین کے بارے میں مغربی تصورات کو چیلینج کر دیا۔
درحقیقت، مغربی پالیسیوں نے خواتین کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا، لیکن آج مغرب والے پوری بے حیائی کے ساتھ حقوق نسواں کے علمبردار ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں”!
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے نام پر استحصال کر رہے ہیں۔
انقلاب کے بعد کے سالوں کے دوران دشمن نے خواتین کے حجاب اور اسلامی سرگرمیوں کے خلاف کام کیا۔ ان کی آخری کوششیں گزشتہ چند مہینوں اور حالیہ فسادات کے دوران ہوئیں، لیکن وہ خواتین کی عفت کو نقصان نہ پہنچا سکیں اور “خواتین ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں.
مغربیوں کو امید تھی کہ جو خواتین آدھا حجاب پہنتی ہیں وہ حجاب اتار پھینکیں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یعنی انہوں کے مغرب پر طمانچہ رسید کیا اور انہیں منہ کی کھانی پڑی۔
لہٰذا یہ کہنا ضروری ہے کہ اگرچہ مغرب کئی سالوں سے ایرانی (مسلمان) عورت کی اسلامی ثقافت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ایران کی تعلیم یافتہ خواتین اور مائیں ہمیشہ سماجی اور سیاسی میدانوں میں موجود رہ کر ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہیں اور مغربیوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔
آج ایرانی مسلمان خاتون، عزت و وقار کا استعارہ ہے۔ اگرچہ مغرب والے اس حقیقت کو برعکس دکھانے کے لیے میڈیا کے ذریعے جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں،لیکن حقیقت یہی ہے۔
آج ہماری سب سے زیادہ تعلیم یافتہ خواتین، دینی اور انقلابی خواتین ہیں۔ آج ہماری نوجوان خواتین سائنسی تجربہ گاہوں اور مراکز میں موجود اور سرگرم ہیں۔ اسی طرح سیاسی، سائنسی، سماجی میدان میں سب سے زیادہ سرگرم خواتین ہماری مذہبی اور انقلابی خواتین ہیں۔
ایرانی (مسلمان) خواتین نے دنیا میں رائج مشرقی اور مغربی تعریف کے طلسم کو توڑتے ہوئے عورت کا اسلامی نمونہ پیش کیا جو خالصتا انسانی عظمت اور نسوانی تشخص پر قائم ہے۔