[]
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
نیکیوں کا موسم بہار آنے کو ہے ۔موسم بہار میں جب کسی درخت میں پھل لگتے ہیں تو پھل آنے سے پہلے درخت میں شادابی اور سرسبزی شروع ہوجاتی ہے ہمارے گھر کے سامنے شہتوت کاایک بڑا درخت ہے،ابھی کچھ پہلے پورا درخت بے برگ و بارتھا، شاخیں تھیں لیکن برہنہ، ایک پتہ بھی جسم پر نہ تھا ،پورا درخت سنسان ویران چٹیل میدان کا منظر پیش کررہا تھا، ابھی چند روز پہلے ایسی تبدیلی آئی کہ ہزاروں کونپلیں نکل آئیں ،مایوسی اور نامیدی کو دور کرنے کیلئے اقبال نے کہا تھا ’’دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی ۔
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی‘‘ ابھی چند روز کا وقت گذرا تھا کہ سچ مچ شاخیں چمک اٹھیں، ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں شہتوت کے کچے ہرے ہرے چھوٹے چھوٹے پھل لگ گئے ،اس کے بعد یہ پھل پک جائیں گے شیریں اور لذید بن جائیں گے ،رمضان کے آتے آتے یہ پھل لال لال عنابی قرمزی رنگ کے خوشنما، ذائقہ دار،میٹھے اور شیریں ہو جائیں گے، ان سے لذت کام ودہن بھی حاصل ہوگی ،وہ صحت کیلئے بھی نعمت ہوں گے اور حکیموں کیلئے دوا بھی،جس طرح سے شہتوت کا درخت میٹھے ذائقہ دارپھل دینے سے پہلے تیاری میں وقت گذارتا ہے،
اسی طرح سے ایک مرد مومن رمضان کی بہار سے پورے طور پر مستفید اور متمتع ہونے کیلئے شعبان کا مہینہ رمضان کی تیاری میں گذارتا ہے، شعبان کے مہینہ میںرمضان کی کلیاں کھلتی ہیں ،نیکیوں کے برگ وبار لگتے ہیں عبادت کے غنچے جلوہ پیرا ہوتے ہیں، یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ داخل ہوتا ہے اور مرد مومن نیکیبوں اور عبادتوں کے پھول اور پھل سے اپنا دامن مراد بھر لیتا ہے ۔ رمضان کا مہینہ اتنا قیمتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ رمضان سے بہت پہلے دعاء مانگا کرتے تھے: اللہم بلغنا رمضان یعنی اے اللہ ہمیں رمضان کے مہینہ تک پہونچا دے یعنی ہمیں رمضان کی نعمتوںاور دولتوں اور بہاروں سے محروم نہ رکھ۔
رمضان اور روزہ کی اہمیت کو اچھی طرح پہلے سے سمجھنے اور دل میں اتارنے کی ضرورت ہے جتنا زیادہ ہم رمضان اور روزہ کی اہمیت کو سمجھیں گے اتنا ہی رمضان کا بہتر استقبال کرسکیں گے۔ روزہ تہذیب اخلاق میں اور تربیت نفس میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے، روزہ اسلام کا رکن ہے اور ایک اہم عبادت ہے، اور یہ تنہاوہ عبادت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوںگا۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کا مقصد وجود یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت اور فرماںبرداری کرے، اور یہ فرماںبرداری زندگی کے کسی ایک گوشہ یا شعبہ میں نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہونی چاہیے،
زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی فرماںبرداری کرنا مقصد حیات ہے جس کا حصول کوئی آسان کام نہیں، اس راستہ کی سب سے بڑی رکاوٹ نفس امارہ ہے، یہ لفظ ’’امارہ‘‘ اسم مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے علامہ، یعنی انسان کا یہ وہ نفس ہے جو ہر آن بہت زیادہ سرکشی اور نافرمانی پر اکساتا ہے، نفس امارہ کی ترکیب بتاتی ہے کہ نفس کا سرکش گھوڑا اتنا پرزور اور اس قدر بے مہار ہے کہ اس پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں، یہ ہر دن اور ہر لحظہ اور ہر آن برائی کی دعوت دیتا ہے اور انسان کو سیدھے راستہ سے ہٹانا اور صراط مستقیم سے بہکانا چاہتا ہے۔ شاعر ذوق نے اس نفس امارہ کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا ہے:
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
نہنگ واژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا
یہ نفس امارہ ہی ہے جو قدم قدم پر دعوت گناہ دیتا ہے، اور یہ نفس امارہ ہے جس کی وجہ سے دنیا ظلم و سفاکی اور فتنہ وفساد کی آماجگاہ بنتی ہے، یہ نفس امارہ ہے جس کی وجہ سے قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے، یہ نفس امارہ ہے جس کی وجہ سے اتحاد و اخوت کا رشتہ ٹوٹتا ہے اور خاندانوں میں اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں کشاکش اور کش مکش اور دشمنی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ نفس امارہ پر قابو پانے کیلئے اور اسے نفس مطمئنہ سے بدل دینے کیلئے تزکیۂ نفس واحد ذریعہ ہے۔ قرآن میں ہے: ’’وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا۔‘‘ (سورۃ الاعلی) اور سورہ النازعات میں ہے: ’’من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الہوی فان الجنۃ ہی المأوی‘‘، یعنی جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہشات سے روکتا رہا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔
اچھا انسان بننے کیلئے تنہا علم کافی نہیں، علم کے ساتھ جب نفس کا تزکیہ بھی ہو تو اس سے ایک اچھا انسان وجود میں آتا ہے، اور اچھے انسانوں کے مجموعے سے مثالی معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ اپنی عادتوں کو، مزاج کو اورسوچنے کے انداز کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جائے، اور اسلامی سانچے میں ڈھالنے کیلئے اللہ نے جو طریقہ مقرر کیا ہے وہ عبادتوں اور اذکار کا طریقہ ہے۔
عبادتیں کئی طرح کی ہیں، ان میں ایک بہت بڑی عبادت روزہ کی عبادت ہے، جس طرح پانچ مرتبہ انسان خدا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور جبین نیاز خم کرتا ہے اور اپنے مالک کی ہدایت کے آگے سر اطاعت جھکانے کا عہد کرتا ہے، اسی طرح انسان روزہ کی عبادت کے ذریعہ اطاعت و انقیاد کی زبردست ٹریننگ حاصل کرتا ہے، یہ شخصیت کی تعمیر اور اخلاقی تربیت کا بے مثال پروگرام اور نفس امارہ کو شکست دینے اور نفس مطمئنہ تک پہنچنے کا بے نظیر لائحہ عمل ہے، یہ نفس کو شرعی ضوابط کی پابندی کا خوگر بناتا ہے،
انسان بھوک سے نڈھال ہوتا ہے، اس کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہر طرح کا رزق موجود ہوتا ہے، نفس اسے بہکاتا بھی ہے کہ اپنی پیاس اور بھوک مٹالو، مگر روزہ نفس کے اس حکم کو ٹھکراتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اللہ نے تمہیں کھانے اور پینے کی اجازت نہیں دی ہے اور تمہیں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں کہ پانی پی کر اپنی تشنگی مٹالو۔ گویا روزہ سے ناجائز کاموں اور گناہوں سے بچنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے، گویا روزہ انسان کو پیغام دیتا ہے کہ جب تم روزہ کی حالت میں اللہ کی اطاعت کرتے ہو تو تمہیں غیر روزہ کی حالت میں بھی اپنے دامن کو معصیت سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے۔
روزہ سے صبر و برداشت کی ٹریننگ حاصل ہوتی ہے، اور انسان کو وہ ایمان نصیب ہوتا ہے جو دشمنوں کے مقابلے میں انسان کو ثابت قدم رکھتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں روزہ کا مقصد اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تمہارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔‘‘ روزہ میں غلط بات کہنے اور غیبت کرنے سے بچنے کی مشق کرنا چاہئے، اس بات کی شعوری کوشش کرنا چاہئے کہ کسی شخص کے بارے میں وہ خود نہ تو کوئی منفی تبصرہ کرے گا اور نہ کسی تبصرے میں شریک ہوگا۔ جو شخص اس مہینہ میں غیبت سے بچنے کی پوری کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ دوسرے مہینوں میں بھی اسے اس بڑے گناہ سے بچنے کی توفیق بخشے گا۔اس مہینہ میں غیبت سے اور منفی تبصروں سے زبان کی حفاظت کی مشق کرنی چاہئے ،’’غیبت فری کنورسیشن ‘‘ یعنی غیبت سے بالکل پاک گفتگو کا مقام بڑی مشق اور ممارست کے بعد حاصل ہوتا ہے اور جسے یہ مقام حاصل ہوگیا وہ بہت خوش قسمت ہے۔اور رمضان میں دعاء اور مناجات اور آخرت کے استحضار سے اور زبان پر قابو رکھنے سے یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے۔اور وہ انسان بہت با توفیق ہے جسے یہ مقام حاصل ہوگیا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل کی اس دعا پر آمین کہا تھا: ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان آئے لیکن اس کی قدر نہ کرے اور بخشش کا مستحق نہ بن جائے۔‘‘
٭٭٭