[]
سارے ملک میں پریشانی کی ایک برقیائی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہر کوئی خصوصاً اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایک تجسس میں مبتلا ہیں کہ کہاں سے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ لائیں۔ جس ملک میں پیدا ہوئے جہاں پلے بڑھے‘ جہاں تعلیم حاصل کی اور جہاں روزگار پایا‘ وہی ملک ایک اجنبی ملک بن گیا ہے۔ نہ اسکول سرٹیفکیٹ کام آئے گا اور نہ ووٹرس لسٹ ۔ نہ ہی آدھار کارڈ ۔ جو ملک آباء و اجداد کا مدفن ہے ‘ اس میں ہم اجنبی ہیں یا غیر ملکی؟ عجیب نرالی منطق ہے۔
یہ تاجروں کی حکومت بے مقصد نہ تو کوئی کام کرتی ہے اور نہ ہی اس کے ارادے نیک ہیں۔ اس قانون کے پس پردہ کچھ ایسے مقاصد ہوسکتے ہیں جن سے حکومت فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ہر کوئی واقف ہے کہ صرف وہی شخص جائیداد کا مالک ہوسکتا ہے جو کہ ملک کا شہری ہے اور وہ شخص جو کہ شہری نہیں یا جس کی شہریت قانونی طریقہ کو بروئے کار لاکر چھین لی جائے ‘ اسے جائیداد رکھنے کا کوئی حق نہیں لہٰذا اس کی جائیداد/ جائیدادوں کو بحقِ سرکار ضبط کیا جاسکتا ہے۔ یہی مقصد ہے اور اس سے ہٹ رک کوئی اور مقصد ہوہی نہیں سکتا۔
اس ضمن میں قارئین کرام کے استفسارات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا اور ہر کوئی اپنی شہریت اور حقِ جائیداد سے متعلق فکر مند ہے۔
اس مسئلہ کا سیدھا حل یہ ہے کہ اگر آپ1987ء سے پہلے پیدا ہوئے ہوں اور آپ کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ نہیں ہے تو وہ پاسپورٹ آپ کے کام آئے گا جو 1987ء سے پہلے جاری ہوا ہو۔ اس پاسپورٹ میں جو عمر درج ہوگی وہی آپ کی تاریخ پیدائش سمجھی جائے گی ۔ عموماً1987کے بعد جو لوگ پیدا ہوئے ہوں ان کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ ہوگا اور وہی تاریخ اسکول رجسٹر میں درج ہوگی۔
علاوہ ازیں سیول کورٹ میں تاریخ پیدائش کو(Correct) کرنے کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی مخالفت نہ ہو(اورعموماً) مخالفت کسی بھی گوشے سے نہیں ہوتی‘ تو ایسی صورت میں سیول عدالت کی جانب سے تاریخ پیدائش کا (Declaration) حاصل کیا جاسکتا ہے اور یقینی طور پر عدالت سے آپ کے حق میں فیصلہ آسکتا ہے اور وہی فیصلہ آپ کو شہریت دلاسکتا ہے۔
لیکن تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کیا ہزاروں لاکھوں لوگ انفرادی طور پر ہزاروں مقدمات دائر کریں گے‘ ان مقدمات کے اخراجات کیا ہوں گے‘ کورٹ فیس‘ اخبار میں نوٹیفکیشن کی اشاعت‘ ایڈوکیٹ کی فیس ‘ عدالت کے روزمرہ کے کام پر کتنا اثر پڑے گا۔ عدالت میں لوگوں کا اژدھام ہوجائے گا۔
عملی طور پر یہ بات ممکن نظر نہیں آتی۔ بے شک یہ کام ہوسکتا ہے اور تاریخ پیدائش کا اعلامیہ جاری ہوگا جس کی بناء پر یقینی طور پرشہریت مل جائے گی۔ ہر کیس میں کورٹ فیس مقدمہ دائر کرنے کے اخراجات۔ ایڈوکیٹ فیس کے علاوہ اخبار میں اعلان کی اشاعت کیلئے کم از کم آٹھ دس ہزار روپیہ کے اخراجات ہوں گے۔ کیا ہرشہری ان اخراجات کا متحمل ہوسکے گا؟
اس ضمن میں جو استفسارات آرہے ہیں ان میں تعلیم یافتہ اور صاحبِ جائیداد حضرات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے سوالات کو ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔
-1 کیا ہمارا حق رائے دہی چھین لیا جائے گا۔
-2 وہ سہولتیں جو حکومت نے عوام کو دی ہیں‘ کیا چھین لی جائیں گی۔
-3 کیا ہماری جائیدادوں کو ضبط کرلیا جائے گا کیوں کہ کوئی بھی غیر شہری ہندوستان میں جائیداد/زمینات نہیں خریدسکتا۔
-4 کیا ریاستِ آسام کی طرح ہمارے طبقہ کو ان کی شہریت چھین کر (Detention Camps) میں رکھا جائے گا۔
-5 ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
جواب ہے ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ نہ تو آپ کی شہریت چھینی جائے گی اور نہ ہی آپ کو ایسے (Camps) میں رکھا جائے گا۔ پچیس کروڑ ہندوستانیوں کو اگر ایسے کیمپس میں رکھا جائے تو ان کیمپس کی تعمیر میں اتنا پیسہ خرچ ہوگا جو ہندوستان کے کئی سال کے بجٹ سے بھی زیادہ ہوگا اور اتنی ہی تعداد میں تین وقت کے کھانے میں جو اخراجات ہوں گے ان کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔ ہندوستان لاکھوں کروڑوں روپیوں کا (IMF) کا مقروض ہے اور صرف سود میں ملک کی ساری آمدنی کا 35 فیصد ادا کرنا پڑرہا ہے۔
اخراجات کی بھرپائی کے لئے قرض کے بعد قرض حاصل کیا جارہا ہے اور سود میں ادا کی جانے والی رقم بڑھ رہی ہے۔ معاشیات کے ماہرین کی بات اگر تسلیم کریں تو کچھ سالوں بعد ملک کی ساری آمدنی کے برابر سود کی رقم ہوگی۔ ایسی معاشی خستہ حالی کی صورت میں یہ باتیں خواب کی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو عملی طور پر ناممکنات میں سے ہیں‘ لہٰذا کسی بھی فکر و تردد کی ضرورت نہیں۔