بابا واپس آجائیں اور مجھے اسکول لے کر جائیں، بچوں کی دبی ہوئی سسکیاں۔ جیلوں میں قید فلسطینیوں کو بذریعہ ریڈیو پیغامات

[]

غزہ: اسرائیل-حماس جنگ کے دوران فلسطینیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید رشتہ داروں سے ملنے کے حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ تو اس کی بجائے وہ اپنے عزیزوں کو ریڈیو پروگرام میں پیغامات بھیجنے لگے ہیں۔

قیدیوں کے لیے پیغامات نامی ایک فلسطینی ریڈیو شو کے ذریعے ارسال کردہ پیغام میں کہا گیا ہیلو، یہ پیغام میرے بھائی اسلام کے لیے ہے۔ کیسے ہو میرے بھائی؟۔ تمہارا گھر تیار ہے۔ جب تم جیل سے نکلو گے تو شادی کی غرض سے کسی کو تلاش کرنے کے لیے بالکل تیار ہو گے۔

مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں قائم مشہور فلسطینی اسٹیشن ریڈیو اجیال پر شو میں خاندانوں کے ذاتی پیغامات پیش کیے جاتے ہیں جو اکثر اس جملے پر ختم ہوتے ہیں: “ہمیں امید ہے کہ یہ الفاظ آپ تک پہنچ جائیں گے”۔

مہم چلانے والے کہتے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی تعداد بڑھ کر 9,000 کے قریب پہنچ گئی ہے جو جنگ کی وجہ بننے والے حماس کے سات اکتوبر کے حملے سے قبل تقریباً 5,200 تھی۔حملے کے بعد گرفتاریوں کی نئی لہر اور زیرِ حراست افراد پر سخت پابندیوں کے بعد ریڈیو اسٹیشن پر رشتہ داروں کے پیغامات کا گویا ایک سیلاب امڈ آیا۔ جس کی وجہ ریڈیو اسٹیشن نے شو میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت کا اضافہ کر دیا ہے۔

ریڈیو اجیال کے چیف ایڈیٹر ولید ناصر نے کہا ہمیں ہر جگہ سے پیغامات موصول ہوتے ہیں کیونکہ کئی خاندانوں کو اب جیل میں اپنے عزیزوں کی کوئی خبر نہیں ہے۔ایک پیغام میں کہا گیا پیارے بابا میں انتظار نہیں کر سکتا کہ آپ واپس آئیں اور مجھے اسکول لے کر جائیں۔ ایسے پیغامات اکثر بچوں کی زبانی ہوتے ہیں اور بعض اوقات ان میں دبی ہوئی سسکیاں بھی سنائی دیتی ہیں۔

ایک اور پیغام تھا گھر میں سب ٹھیک ہے یونیورسٹی میں سب ٹھیک ہے۔ فکر نہ کریں۔شو کی میزبان میثم برغوتی جو خود کچھ پیغامات پڑھتی ہیں نے کہا بہت سے خاندان سہارے کے لیے کسی امید کی تلاش میں ہیں۔ شو واقعی کسی عزیز سے رابطہ کرنے یا معلومات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔

ملاقات کے حقوق منقطع کر کے اور فون کالز پر پابندی لگا کر اسرائیلی جیل حکام نے سات اکتوبر کے بعد ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا تاکہ قیدیوں کو مزید بدامنی میں ملوث ہونے سے روکا جا سکے۔ریڈیو پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے لیکن افراد خاندان کے ساتھ ساتھ ریڈیو اجیال کے عملے کو بھی امید ہے کہ قیدی اب بھی کسی نہ کسی طرح ریڈیو چلا کر انہیں سنیں گے۔

اگرچہ کچھ فلسطینی نامعلوم الزامات کے تحت زیرِ حراست ہیں لیکن گرفتاری کی سب سے عام بنیادیں تشدد کے لیے آن لائن اشتعال سے لے کر مبینہ عسکریت پسندانہ سرگرمیوں تک ہیں۔حقوق کے کئی گروپوں نے اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار اور سابق قیدیوں کی معلومات کی بنیاد پر کہا ہے کہ جنگ کے آغاز کے بعد سے جیلوں کے حالات ابتر ہوگئے ہیں۔

احسان کمال کے بھائی سعید کو اسرائیلیوں پر حملے کے الزام میں 38 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہوں نے کہا، “میرا بھائی 22 سال سے جیل میں ہے اور گذشتہ تین ماہ ہم سب کے لیے مشکل ترین تھے۔

کمال نے کہا میرے والدین مہینے میں ایک بار ان سے ملنے جاتے تھے۔ اب ہمارے پاس بالکل کوئی خبر نہیں ہے اور ہم نے سنا ہے کہ جیلوں میں صورتِ حال خوفناک ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کہتی ہیں کہ سات اکتوبر سے اب تک کم از کم نو فلسطینی اسرائیلی سلاخوں کے پیچھے ہلاک ہو چکے ہیں۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *