[]
پٹنہ : بابری مسجد کے انہدام،اس پر رام مند کی تعمیر اور افتتاح کے بعد فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں، گیان واپی مسجد،متھرا کی شاہی عیدگاہ اور اخونجی مسجد مہرولی دہلی پر عدالت کا رخ اور حکومت کا طریقہ کار اس احساس کو تقویت پہونچاتاہے کہ عدالتوں کے فیصلے بھی تاریخی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک خاص مذہب کے حوالے سے آرہے ہیں۔
امیر شریعت بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے اس صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہندوستان کی بنیاد آئین کے اعتبار و اعتماد پر رکھی گئی تھی آئین نے ذات اور مذاہب کی کثرت کو دیکھتے ہوئے ملک کی سا لمیت کی خاطر ایک جمہوری نظام قائم کیا اور اس کے کردار کو غیر مذہبی رکھا۔
اس وقت کے رہنما ¶ں نے ہند وستان کے 565 ریاست کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ اس ملک میں رہتے ہیں اور اس آئین کو مانتے ہیں تو وہ ذاتی امتیاز اور اعتقادی و مذہبی تشخص کے ساتھ بہترین طریقے سے زندگی گزار سکتے ہیں افسوس ہے کہ ملک بنتے ہی اسے غیر مہذب اور فاشسٹ ہندوتو فکر کے لوگوں کی بد نظری کا شکار ہونا پڑا یہاں تک کہ گاندھی جی کے قتل کی سازش میں ملوث لوگوں کو ٹیکنیکل وجوہات سے چھوڑ دیا گیا۔
آئین کو سامنے رکھ کر جو یقین دلایا گیا تھا اور جو اعتبار قائم کیا گیا تھا وہ ایک ایک کر کے ٹوٹتا رہا اور ملک کی قیادتیں اسے اپنے مفاد میں سمجھتی بھی رہیں، ٹوٹنے دیتی بھی رہیں اور توڑتی بھی رہیں۔ معاشرے، تہذیب اور ملک کو جو چیز جوڑتی ہے وہ آئین اور قانون پر اعتماد ہے اگر یہ اعتماد ختم ہو گیا تو نہ ہی معاشرہ بچ سکتا ہے، نہ تہذیب کو مٹنے سے بچایا جا سکتا ہے، اور نہ ہی ملک سا لمیت کے ساتھ باقی رہ سکتا ہے وہ لوگ جو مہذب ہیں، دانشمند ہیں، تعلیم یافتہ ہیں،اور چاہتے ہیں کہ ملک کا اتحاد اور اس کی سا لمیت برقرار رہے تو پھر ان کی ذمہ داری ہے کہ آئین پر اعتماد کو دوبارہ بحال کریں اور عدالت ہر ایسے فیصلے سے پرہیز کرے جس سے جمہوریت کا وقار مجروح ہوتاہے۔
انہوں نے فرمایا کہ مساجد ہماری شناخت ہیں اور مساجد کا انہدام ہمارے دلوں پر نشتر ہے، خواہ وہ چھوٹی سے چھوٹی مسجد ہی کیوں نہ ہو۔ 600 سے 800 سال پرانی اخونجی مسجد جو مہرولی دہلی میں واقع تھی اس کو چپکے سے دہلی کے شعبہ ترقیات نے منہدم کر دیابابری مسجد ہو یا گیان واپی مسجد یا دہلی کی اخونجی مسجد ان تمام واقعات میں عدل و انصاف کہیں بھی نہیں ہے یہی اعتماد کا ٹوٹنا ہے، اور جب کبھی بھی طاقت کے زور پر اعتماد توڑ کر خانہ خدا پر قبضہ کیا جاتا ہے تو خانہ خدا بندہ خدا کو دوبارہ ایک نہ ایک دن مل کر رہتا ہے اس کی بہترین مثال ترکی کی عالی شان مسجد آیا صوفیہ ہے۔
امیر شریعت نے مزید فرمایا کہ مسلمانوں کو خوب پتہ ہے کہ وہ ایک امتحانی سفر میں ہیں، انہیں خوب پتہ ہے کہ ان کا تمام کام اللہ کی رضا کے لیے ہے، انہیں خوب پتہ ہے کہ ان سے جو پوچھا جانا ہے وہ صرف یہ ہے کہ تمہاری استطاعت میں جو کچھ تھا وہ تم نے کیا یا نہیں کیا؟ اللہ سبحانہ و تعالی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے اندر وہ تبدیلی نہ پیدا کرے جو مطلوب ہے۔
حکمراں طبقہ مساجد کو منہدم کرکے مسلمانوں کو پست دکھانے کی کوشش کررہا ہے، یہ بات صحیح ہے کہ ہم پست دکھ رہے ہیں لیکن ہم اس وقت تک شکست خوردہ نہیں ہوسکتے جب تک کہ ہم پستی قبول نہ کرلیں؛ لہذا ہم مسلمان پستی محسوس کرنے کے بجائے صحابہ کرام کے مانند اس دکھ کو، اس تکلیف کو صحیح سمت دیں اور اس دنیا میں آنے کے مقصد پر غوروفکر کریں۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ مسلمانوں کی قیادت مساجد کے ان تمام مسائل کو حکومتی سطح پر حل کر رہی ہے اور ہم لوگوں کی یہ ضرورت ہے کہ ہم لوگ اپنے نافع تعلیم، اسلامی تربیت،نظامِ صحت اور معاشی اہداف کی جانب مل کر لگاتار بڑھتے رہیں تاکہ ہندوستانی جمہوریت میں اپنے دین، اپنے طریقہ زندگی، اپنی ثقافت اوراپنے تشخص کو فروغ دے سکیں۔ انہوں نے اخیر میں یہ کہا کہ میں جان بوجھ کر بچانا نہیں کہہ رہا فروغ دینا کہہ رہا ہوں۔
انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم آج کے حالات کے تناظر میں ماضی کو ہی دیکھ لیں تو ہمیں خود اپنے ملک کی تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہر ”جلیاں والا باغ“ کے بعد آزادی ہے اسی طرح ہر نسلی عصبیت کو ”ہٹلر“ کی خود کشی پر ختم ہونا ہے اور ہر ظلم کو”موسولینی“ کی بے وقعت موت ملنی ہے، اور ہر بے یار و مددگار کو اللہ کی مدد اور عوام کا ساتھ ملنا ہے اللہ کے یہاں نہ ہی دیر ہے اور نہ ہی اندھیر ہے، اللہ سبحانہ تعالی کا ہر امر صحیح وقت پر ہوتا ہے۔