[]
ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ”بھارت اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کا دستخط کنندہ ہے، جس کے تحت وہ مناسب رہائش کے حق کا احترام کرنے اور اسے پورا کرنے کا پابند ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کے متعلق رپورٹیں جاری کی ہیں۔ اور بھارتی حکام سے مسلمانوں کی املاک کی “غیر قانونی” مسماری کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے املاک کی مسماری کو ماورائے عدالت سزا کی ایک شکل قراردیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ تمام متاثرین کو مناسب معاوضہ دیا جائے کیونکہ مودی حکومت کے اس اقدام نے سینکڑوں لوگوں کو، جن میں بیشتر مسلمان ہیں، بے گھر اور ان کا ذریعہ معاش تباہ کردیا ہے۔
ایمنسٹی نے جے سی بی تعمیراتی سازو سامان تیار کرنے والی کمپنی سے بھی مطالبہ کیاہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے اپنی مشینوں کے استعمال کی عوامی مذمت کریں۔ اسی کمپنی کے بلڈوزر”بطور سزا” املاک کو مسمار کرنے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے ہیں۔
بلڈوزر کی سیاست
ایمنسٹی نے دو رپورٹوں Bulldozer Injustice in India اور JCB’s Role and Responsibility in Buldozer Injustice in India میں صرف تین ماہ یعنی اپریل سے جون 2022کے درمیان کم ا ز کم 128 املاک کو مسمار کیے جانے کی دستاویز بندی کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی وجہ سے کم از کم 617 لوگ یا تو بے گھر ہوگئے یا ان کا ذریعہ معاش تباہ ہو گیا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ پانچ ریاستوں، آسام، گجرات، مدھیا پردیش، اترپردیش اور دہلی میں حکام نے مذہبی تشدد یا حکومت کی تفریقی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے واقعات کے بعد “سزا” کے طورپر ان کی املاک مسمار کیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی، جس پر مسلم مخالف بیان بازی کا الزام لگایا جاتا ہے، کی ان پانچ میں سے چار میں حکومت ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل ایگنیس کالمارڈ کا کہنا تھا،”بھارتی حکام کی جانب سے مسلمانوں کی املاک کی غیر قانونی مسماری، جسے سیاسی لیڈران اور میڈیا ‘بلڈوزر انصاف’ کہتی ہے، ظالمانہ اور خوفنا ک ہے… وہ خاندانوں کو تباہ کررہے ہیں۔ اسے فوری طورپر روکا جانا چاہئے۔” بدھ کے روز جاری بیان میں کالمارڈ نے مزید کہا، “حکام نے نفرت، ایذارسانی، تشدد اور جے سی بی بلڈوزر کو ہتھیار کے طورپر استعمال کرکے بار بار قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچایا، گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو تباہ کیا۔ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر فوراً توجہ دی جانی چاہئے۔”
املاک کو بلڈوز کرنے کا سلسلہ جاری
گزشتہ ماہ ایودھیا شہر میں وزیر اعظم مودی کے ذریعہ رام مندر کے افتتاح کے بعد فرقہ وارانہ تشدد بھڑکنے کے بعد بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں مسلمانوں کے مکانات اور دکانوں کو بلڈوزر سے مسمار کردیا گیا۔ اس سے قبل قومی دارالحکومت دہلی کے مضافات میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کی 300 سے زائد املاک کو مسمار کردیا گیا تھا۔ سن 2021 میں اترپردیش کے بارہ بنکی ضلع میں 100سال قدیم مسجد کو منہدم کردیا گیا جب کہ سن 2023 میں پریاگ راج شہر میں سڑک کی توسیع کے نام پر سولہویں صدی کی ایک مسجد مسمار کردی گئی ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلڈوزر بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی علامت بن چکا ہے۔ بالخصوص یوگی آدیتیہ ناتھ کے اترپردیش کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے، جنہوں نے فوری انصاف کی فراہمی کے نام پر ملزمین کی املاک کو مسمار کردینے کی پالیسی شروع کی۔ ان کے بعد بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں بھی اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ قانونی ماہرین اسے بھارتی قانون کے خلاف قرار دیتے ہیں اور عدالت عظمیٰ نے بھی اس پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے لیکن’بلڈوزر انصاف’ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
حالانکہ بی جے پی کے رہنماوں کا دعویٰ ہے کہ مسماری کے یہ واقعات دراصل غیر قانونی تجاوزات کے خلاف ہیں اور صرف مجرموں یا بدمعاشوں کی ملکیت کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے یہ افراد مسماری کے واقعات پر جشن بھی مناتے ہیں۔
سول سوسائٹی کے اراکین، سماجی کارکنان اور اپوزیشن کے سیاست دانوں کا خیال ہے کہ عمارتوں کو اس طرح مسمار کرنا مسلمانوں جیسی اقلیتی برادری کے خلاف “ٹارگیٹیڈ وائلنس” کی ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے۔ بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے تعلق رکھنے والی سابق رکن پارلیمان برندا کرات نے دہلی میں مسماری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلڈوزر کو تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں جان بوجھ کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
ایمنسٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مسماری مناسب قانونی عمل کی پیروی کے بغیر کی گئی۔ عمارتوں کے مکینوں کو مسمار کرنے سے پہلے انتباہ نہیں کیا گیا یا انہیں اپنی جائیدادیں چھوڑنے اور اپنا سامان بچانے کے لیے کافی وقت نہیں دیا گیا۔ ایمنسٹی نے مسماری سے متاثر ہونے والے 75 افراد سے بات چیت کی جن میں سے صرف چھ کو حکام کی جانب سے کسی قسم کی پیشگی اطلاع موصول ہوئی تھی۔
دہلی کے مضافاتی علاقے نوح میں ہونے والی انہدامی کارروائیوں کے تناظر میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ “یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا امن و قانون کے مسئلے کی آڑ میں کسی ایک مخصوص کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی عمارتوں کو گرایا جا رہا ہے اور ریاست کی جانب سے نسلی صفائی کی مشق کی جارہی ہے۔” عدالت کا کہنا تھا کہ مسمار کرنے سے قبل قانونی کارروائی نہیں کی گئی اور املاک سے محروم ہوجانے والوں کو پیشگی نوٹس بھی جاری نہیں کیے گئے۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ”بھارت اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی ای ایس سی آر) کا دستخط کنندہ ہے، جس کے تحت وہ مناسب رہائش کے حق کا احترام کرنے اور اسے پورا کرنے کا پابند ہے، جس میں مناسب رہائش کا حق، کام کرنے کا حق اور سماجی تحفظ کا حق بھی شامل ہے۔”
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;