[]
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اہم ترین جرمن ادیبوں میں سے ایک اور کئی مشہور ناولوں کے مصنف مارٹن والزر چھیانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ان کی متفرق تحریروں اور مضامین پر مشتمل ایک کتاب مارچ 2021ء میں ان کی 94 ویں سالگرہ سے کچھ ہی روز پہلے شائع ہوئی تھی، جس کا عنوان Sprachlaub یا ‘زبان کے پتے‘ تھا۔ اپنی اس تصنیف میں والزر نے سامنے ہی نظر آنے والی اپنی موت کے بارے میں بڑے شاعرانہ انداز میں لکھا تھا، ”میں اپنا دفاع نہیں کر رہا۔ میں اب بھی بہت سوچتا ہوں اور اپنی آخری شام تک زندہ رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
مارٹن والزر بیسویں صدی کے جرمن ادبی منظر نامے پر انتہائی قد آور شخصیات سمجھے جانے والے ہائنرش بوئل، گنٹر گراس اور زیگفریڈ لینس جیسے ادیبوں کے ہم عصر تھے اور ان کا انتقال جمعہ 28 جولائی کے روز 96 برس کی عمر میں ہوا۔
والزر کے لیے زندگی کا مطلب تھا، لکھتے ہی رہنا۔ اپنی اس سوچ پر وہ اپنی موت تک کاربند رہے۔ وہ بہت محنتی ادیب اور بہت مشہور مصنف ہی نہیں بلکہ مسلسل تخلیقی مراحلے سے گزرتی رہنے والی شخصیت بھی تھے۔ انہوں نے کئی ناول، بہت سے افسانے اور متعدد ڈرامے بھی لکھے اور وہ اپنے پیچھے جتنی ادبی تخلیقات چھوڑ کر گئے ہیں، ادبی نقاد انہیں ایک ‘شاندار ورثہ‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ جرمن معاشرے میں سماجی موضوعات پر ہونے والے مباحث میں بھی بڑی لگن سے حصہ لیتے تھے۔
ابتدا ایک صحافی کے طور پر
مارٹن والزر چوبیس مارچ 1927 کو جنوبی جرمن صوبے باویریا کے ایک چھوٹے سے بلدیاتی علاقے واسربُرگ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا مگر انتہائی خوبصورت قصبہ ہے، جو جھیل کونسٹانس کے کنارے واقع ہے۔ ان کے والدین کوئلے کی تجارت کرنے والے ایسے کیتھولک مسیحی تھے، جن کی اپنی ایک سرائے بھی تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں مارٹن والزر نے کچھ عرصے کے لیے جرمن فوجی کے طور پر بھی خدمات انجام دی تھیں۔ جنگ کے بعد انہوں نے 1946ء میں ریگنزبُرگ میں ادب، فلسفے اور تاریخ کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ والزر نے اپنے طالب علمی کے اسی زمانے میں نئے قائم شدہ جرمن پبلک ریڈیو ایس ڈی آر کے لیے کام کرنا شروع کر دیا تھا اور ساتھ ہی وہ اس ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھتے تھے۔ ٹیوبنگن یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنا مقالہ فرانس کافکا کے بارے میں لکھا تھا۔
چھوٹے قصبے سے عالمی نوعیت کے موضوعات تک
مارٹن والزر کے ناولوں میں کئی کہانیوں اور کرداروں کا ماحول جنوبی جرمنی کے دیہی یا نیم دیہی علاقوں کا ماحول ہے اور یوں انہوں نے اپنی کردار نگاری میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کی منقسم جرمن ریاست میں مغربی حصے کے جرمن معاشرے کے رویوں اور رجحانات کو قلم بند کیا۔ ان کی تصنیفات اس منافقت کا انکشاف بھی کرتی ہیں، جو اس دور کی قدامت پسند مڈل کلاس میں پائی جاتی تھی۔
مارٹن والزر کی تحریروں میں کئی موضوعات ایسے ملتے ہیں، جن کے کردار تو جرمنی کے کسی چھوٹے سے قصبے میں موجود ہوتے ہیں مگر یہ موضوعات عالمگیر نوعیت کے ہوتے ہیں۔ والزر کے نزدیک ان کے لیے لکھنا ایسے ہی تھا، جیسے انہوں نے آگے بڑھ کر ‘دنیا کو ہاتھ میں پکڑ لیا‘ ہو۔ انہوں نے ایک بار اپنے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہا تھا، ”میں لکھتا ہوں، اسی لیے میرا وجود ہے۔‘‘
جرمنی کے اس انتہائی معروف ادیب کے لیے ناکامی ایک ایسا بڑا موضوع تھا، جو ان کے بہت سے ناولوں میں ایک مرکزی موضوع کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ایک بار انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ دنیا کا زیادہ تر عظیم ادب شکست خوردہ اور ہار جانے والے انسانوں کے بارے میں ہے، ”لوگ جیتنے کے بجائے جب ہار رہے ہوتے ہیں، تو وہ اور ان کی کہانیاں زیادہ دلچسپ ہو جاتے ہیں۔‘‘
والزر کے پہلے ناول کی اشاعت
مارٹن والزر اتنا زیادہ لکھنے والے ادیب تھے کہ کبھی کبھی تو ہر سال ان کی ایک نئی کتاب منظر عام پر آ جاتی تھی۔ ان کا اولین ناول 1957ء میں شائع ہوا تھا، جس کا جرمن ٹائٹل Ehen in Philippsburg تھا، اور جس کا تین سال بعد انگریزی میں ترجمہ The Gadarene Club کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ یہ ناول دوسری عالمی جنگ کے بعد کے مغربی جرمن معاشرے کا ایک ایسے دور میں لکھا کیا گیا طنزیہ پورٹریٹ کہلاتا ہے، جب سابقہ مغربی جرمن ریاست ‘اقتصادی معجزے‘ کے دور سے گزر رہی تھی۔
1957ء میں پہلے ناول کے بعد مارٹن والزر نے کئی اور ناول بھی لکھے، جن میں ان کا مشہور ترین ناول اور بیسٹ سیلر تخلیق Ein fliehendes Pferd (ایک فرار ہوتا ہوا گھوڑا) بھی شامل ہے، جو 1978ء میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں یہی ناول انگریزی میں A Runaway Horse کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ 2002ء میں ان کا ایک ناول Tod eines Kritikers شائع ہوا تھا، جس کا انگریزی ترجمہ Death of a critic یا ‘ایک نقاد کی موت‘ کے نام سے چھپا۔ یہ ناول اس لیے قدرے متنازعہ بھی ہو گیا تھا کہ اس وجہ سے مارٹن والزر پر کافی تنقید بھی کی گئی تھی کہ وہ اس میں نقاد کی کردار نگاری کے دوران سامیت دشمنی کے مرتکب ہوئے تھے۔
مارٹن والزر کو 1998ء میں جرمنی میں کتابی صنعت کا امن انعام بھی دیا گیا تھا۔ اس سے قبل انہیں 1981ء میں جرمن زبان و ادب کا مشہور گیورگ بیُوشنر پرائز بھی دیا گیا تھا اور 2015ء میں انہیں ان کی عمر بھر کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انٹرنیشنل فریڈرش نطشے پرائز سے بھی نوازا گیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔