پاکستانی ہندوؤں کو انتخابی عمل سے باہر کردیئے جانے کا احساس

[]

کراچی: پاکستان میں 8 فروری کے عام انتخابات سے قبل اقلیتی ہندو فرقہ کا احساس ہے کہ جنوبی صوبہ سندھ میں قابل لحاظ موجودگی کے باوجود اسے انتخابی عمل سے زیادہ تر باہر رکھا گیا۔

مردم شماری کے مطابق مسلم اکثریتی ملک میں ہندوؤں کی آبادی صرف 2.14 فیصد ہے۔ سندھ میں ان کی بڑی آبادی ہے۔ اس صوبہ میں ان کا تناسب تقریباً 9 فیصد ہے۔ پاکستانی آئین کی رو سے قومی اسمبلی(پارلیمنٹ) میں 10 نشستیں اور صوبوں میں 24 نشستیں اقلیتی برادریوں کے لئے محفوظ ہیں۔

ہندو قائدین اور عوام کو دُکھ ہے کہ انہیں مناسب نمائندگی نہیں ملتی۔ کئی ہندوؤں کا اندراج رائے دہندوں کے طورپر نہیں ہوتا۔ پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ رمیش کمار وانکوانی کا کہنا ہے کہ غریب ہندو یا سندھ کے دوردراز مواضعات میں رہنے والے ہندوؤں کا احساس ہے کہ انہیں انتخابی عمل سے باہر کردیا گیا ہے۔

الیکشن سے قبل مردم شماری میں ہندوؤں کی پوری طرح گنتی نہیں کی جاتی۔ میرپور خاص کے ایک ہندو رہنما شیوکاچی کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے کئی ہندو پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ ان کے شناختی کاغذات میں نقائص پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے رائے دہندوں کے طورپر ان کا اندراج نہیں ہوپاتا۔

2018 کے پچھلے عام انتخابات میں 105.9 ملین ووٹرس نے اپنا اندراج کرایا تھا اور ان میں 3.626 ملین کا تعلق اقلیتی برادریوں سے تھا۔ پاکستان میں ہندو سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہیں۔ ہندو ووٹرس کی تعداد لگ بھگ 4.77 ملین ہے۔

عیسائی 1.639ملین ووٹرس کے ساتھ دوسرا بڑا گروپ ہیں جبکہ احمدی 1لاکھ 65 ہزار 369 ووٹرس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ سکھ ووٹرس کی تعداد صرف 8833 ہے۔ سندھ کے شہر حیدرآباد کے صحافی و سماجی کارکن شاہنواز شیخ کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں امیر ہندو تاجروں‘ زمینداروں یا پروفیشنل ڈگری رکھنے والے ہندوؤں کو الیکشن میں ٹکٹ دیتی ہیں۔ 2018 میں تھرپارکر کی کرشنا کمار کوہلی پہلی ہندو خاتون سینیٹر بنی تھی۔

کرشنا کمار کوہلی نے کہا کہ پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوان ِ بالا سینیٹ میں اقلیتوں کے لئے صرف 4 نشستیں (ہر صوبہ سے ایک) ہیں۔ اس نے کہا کہ آبادی بڑھ چکی ہے لہٰذا یہ نشستیں بڑھاکر کم ازکم 8 کردینی چاہئیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *