امریکی فوجیوں کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟/ تین اہم وجوہات کا جائزہ

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: شام اور اردن کی سرحد کے قریب امریکی فوجی اڈے پر ڈرون حملے میں 3 امریکی فوجی ہلاک اور 34 زخمی ہوگئے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس حملے کو انتہائی تکلیف دہ اور افسوسناک قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ ایرانی حمایت یافتہ فورسز نے کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس حملے کے ذمہ داروں کو “صحیح وقت اور مناسب طریقے سے” جواب دیا جائے گا۔ ایران نے سرکاری طور پر اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس حملے میں امریکہ کے لئے کیا پیغامات ہیں؟

1۔ امریکی ٹھکانوں پر حملہ غزہ جنگ کا نتیجہ 

غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کا چوتھا مہینہ بھی گزر رہا ہے اور اب تک امریکہ نے صیہونی حکومت کی کھل کر ہر طرح سے حمایت کی ہے، غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے سلامتی کونسل کی تمام قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ جو دو قراردادیں منظور ہوئیں ان میں صرف انسانی امداد پر زور دیا گیا۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت نے ان چار مہینوں کے دوران متعدد مواقع پر صیہونی حکومت کو فوجی امداد فراہم کی۔

جب کہ کئی بار امریکہ سمیت دنیا بھر میں لوگوں نے مظاہرے کئے اور امریکہ کو غزہ میں صیہونی حکومت کے ساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی میں شریک اور حامی قرار دیا۔ ابھی چند روز پہلے جو بائیڈن کے انتخابی اجلاس میں لوگوں نے بار بار ان کی تقریر میں خلل ڈالا اور غزہ میں جنگ بند کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اب تک مزاحمتی گروہوں نے غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی میں امریکہ کی حمایت کی وجہ سے بارہا مغربی ایشیا میں اس ملک کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے اور یہ کام انہوں نے بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا۔ اس لیے کل کا حملہ اور 34 امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور زخمی ہونا اس ملک کی غزہ جنگ کے حوالے سے پالیسی کا نتیجہ ہے اور اگر یہ جنگ جاری رہی تو امریکہ کے خلاف ایسے حملوں میں تیزی بعید از قیاس نہیں ہوگی۔

2. امریکی ٹھکانوں پر حملہ مغربی ایشیائی خطے میں بے امنی کا نتیجہ

مغربی ایشیائی خطہ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے ایک ہنگامہ خیز اور غیر محفوظ خطہ ہے۔ یہ افراتفری اور بے امنی 2011 سے دہشت گرد اور تکفیری گروہوں کو امریکہ سمیت بعض ممالک کی حمایت سے اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔

حالیہ برسوں میں جب خطے کی طاقتیں بات چیت اور اپنے تعلقات میں تناؤ کم کرنے کی طرف بڑھیں تو غزہ کی جنگ ہوئی اور بڑی طاقتوں خصوصاً امریکہ نے اس جنگ کو روکنے کے بجائے اپنی فوجی حمایت کے ذریعے نہ صرف ہوا دی بلکہ اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 51 کی بنیاد پر صیہونی حکومت کی جارحیت کو جائز دفاع قرار دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے بارہا خبردار کیا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم کی حمایت خطے میں تنازعات، بے امنی اور جنگ کے پھیلاؤ کا باعث بنے گی اور اس کا اثر امریکہ پر بھی پڑے گا۔

مثال کے طور پر یمنیوں نے گزشتہ دو ہفتوں میں اپنے ملک کے خلاف امریکی اور برطانوی حملوں کا مشاہدہ کیا۔ لیکن انہوں نے مقبوضہ فلسطین کی طرف جانے والے بحری جہازوں کے خلاف حملوں کو دہرانے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ امریکہ سے ڈرے بلکہ امریکیوں کو للکارا۔

شام اور اردن کی سرحد کے قریب امریکی ٹھکانوں پر حملہ بھی مغربی ایشیا میں امریکی کی مداخلت سے پھیلائی گئی بے امنی کا نتیجہ ہے اور امریکہ سمیت کوئی بھی ملک جو اس بے امنی میں ملوث ہے وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ یہ خطہ تو غیر محفوظ ہے رہے لیکن انہیں کوئی گزند نہ پہنچے۔ ایسا ممکن نہیں۔ کیونکہ سیکیورٹی اور بے امنی کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی ایک فریق کو حاصل ہوجائے۔ کوئی بھی طاقت خطے کے امن سے کھیلے گی تو وہ خود لامحالہ طور پر اس بے امنی کا شکار بھی ہوگی۔ لہذا امریکہ اعر یورپ اس سے مستثنی نہیں ہیں۔

امریکی حکام نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ غزہ میں تنازعات کو بڑھا کر اسے ایک بڑی علاقائی جنگ میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے لیکن اس دعوے کا زیادہ تر مطلب یہ تھا کہ مزاحمت کے محور کو غزہ میں جاری صیہونی حکومت اور امریکہ کے جرائم کا جواب نہیں دینا چاہیے۔ جب کہ یہ ایک کھلی حماقت ہے کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ امریکہ جو چاہے کر گزرے۔ نہیں، بلکہ اب اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔

3. خطے میں بے امنی کا سبب سے زیادہ نقصان امریکا کو ہوگا

ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کل کے حملے پر ردعمل ظاہر کرے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ “ہم اس حملے کے تمام مرتکب افراد کو مناسب وقت پر اپنے انتخاب کے مطابق جواب دیں گے۔

امریکی حکام کی بڑی تعداد نے بھی امریکہ سے فیصلہ کن ردعمل کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ کا خیال یہ ہے کہ اگر اس نے اس حملے کا فیصلہ کن ردعمل ظاہر نہ کیا تو اس کی ساکھ کمزور ہو جائے گی اور وہ یہ عمل اس طرح کے حملے مزید دہرانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے امریکی ردعمل کا قوی امکان ہے، خاص طور پر عراق اور شام میں مزاحمتی گروہوں کے خلاف نسبتاً بھاری حملوں کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم، امریکہ کا فیصلہ کن ردعمل بھی مغربی ایشیا کے خطے میں اس ملک کے فوجی ٹھکانوں کے خلاف حملوں کو نہیں روک سکے گا۔

یہ بات واضح ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی خطے کی مزاحمتی تحریکوں نے خطے میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق ان حملوں کے نتیجے میں کل کے حملے تک کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تاہم 70 کے قریب امریکی فوجی زخمی ہوئے۔ 

کل کے حملے میں بھی 3 افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ امریکہ کے خلاف سب سے بھاری حملہ تھا۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کی جنگ سمیت خطے میں کتنی ہی بے امنی کا سلسلہ جاری رہے یا صیہونی حکومت لبنان کے خلاف جنگ پر اتر آئے، مغربی ایشیائی خطے کا کنٹرول امریکہ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ جس کے نتیجے میں امریکی ہلاکتیں اس سے بھی زیادہ ہوں گی۔ لہٰذا امریکہ کے اندر ہونے والے تبصروں کے برعکس، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ کا فیصلہ کن جواب اس ملک کے ٹھکانوں پر حملے کا اعادہ نہ کرنے کا سبب بنے گا، اگر غزہ کے خلاف جنگ بند ہو جائے اور امریکہ نے صیہونی حکومت کی حمایت ختم کردی تو امریکہ کے خلاف حملے بند ہو جائیں گے۔ 

یاد رہے کہ 2024 امریکی صدارتی انتخابات کا سال ہے اور غزہ جنگ سے بائیڈن کو اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے اور اس کی توسیع بھی بائیڈن کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔

امریکہ ایران کے خلاف براہ راست کارروائی کا خواہاں نہیں 

سابق امریکی حکومت کے دور میں اور غزہ کی جنگ کے دوران مغربی ایشیائی علاقے میں صیہونی حکومت کی پالیسیوں میں سے ایک یہ تھی کہ امریکہ کو جنگ میں داخل کیا جائے اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ کے خلاف براہ راست جنگ میں شامل کیا جائے۔ 

صیہونی حکومت کا ایران کے بارے میں تصور یہ ہے کہ اس کے پاس ایران کے خلاف برتر طاقت نہیں ہے اور وہ ایران کے ساتھ براہ راست فوجی جنگ نہیں لڑ سکتا، لیکن امریکہ ایران کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ 

تاہم امریکی حکومتیں (ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ) اس طرح کے جال میں نہیں پھنسیں اور ایران کے خلاف کسی بھی براہ راست فوجی کارروائی سے باز رہیں۔ 

اب بھی امریکی حکومت کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایرانی سرزمین پر ایران کے خلاف کارروائی کے خواہاں نہیں ہیں۔ 

بائیڈن نے کہا کہ یہ حملہ ایران کے حمایت یافتہ انتہا پسند گروپوں نے کیا ہے۔ پینٹاگون نے یہ بھی اعلان کیا کہ ایران امریکہ کے خلاف حملے میں ملوث نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طور پر اسلامی جمہوریہ ایران اپنے علاقائی اتحادیوں کے بارے میں ایک “آزاد” نظریہ رکھتا ہے اور انہیں خود مختار قوت سمجھتا ہے جو تہران کے ساتھ اپنی بہت سی پالیسیوں اور اقدامات کو مربوط یا ہمآہنگ نہیں کرتے۔ 

حماس نے بھی طوفان الاقصی آپریشن، ایران کے ساتھ ہمآہنگی سے نہیں انجام نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکیوں نے اس سلسلے میں صیہونی پروپیگنڈے کا اثر نہیں لیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اس آپریشن کا علم نہیں تھا۔ 

ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت جو یہ سمجھتی ہے کہ مزاحمتی گروہوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے، اسلامی جمہوریہ ایران اور مغربی ایشیائی خطے میں مزاحمتی گروہوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں ایسا ہی نظریہ رکھتی ہے اور اس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مزاحمتی گروہوں کے تمام اقدامات میں ایران کے ساتھ ہمآہنگی ضروری نہیں بلکہ وہ آزادانہ اور اپنی صوابدید کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ لہٰذا امریکہ کے اندر بعض بنیاد پرست لوگوں کے خیال کے برعکس، واشنگٹن اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ براہ راست تصادم کی طرف نہیں بڑھے گا، جس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی کارروائی بحران میں اضافے کا باعث بنے گی اور مغربی ایشیا میں حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے جس کے خطے میں امریکی فوج کے لئے سنگین نتائج ہوں گے۔

نتیجہ

کلی طور پر یہ کہنا چاہیے کہ مغربی ایشیا میں امریکی ٹھکانوں کے خلاف کل کی کارروائی جو کہ حالیہ برسوں میں اس ملک کے خلاف سب سے بڑے حملوں میں سے ایک تھی، غزہ جنگ میں امریکہ کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت اور خطے  کو بے امنی کی طرف کے جانے کے اقدامات کا نتیجہ تھی۔ 

دوسرے لفظوں میں یہ حملہ ایک بھاری قیمت تھی جو صیہونی حکومت کی حمایت کے سبب امریکہ کو چکانا پڑی۔ 

یقینا امریکہ شام اور عراق میں مزاحمتی فورسز کے مراکز کو نشانہ بنائے گا لیکن اسے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ امریکی فوجیوں کی حفاظت اس وقت ممکن ہے جب امریکہ صیہونی حکومت پر غزہ کے خلاف جرائم کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالے گا۔ بصورت دیگر خطے میں امریکی فوجیوں پر حملے جاری رہیں گے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *