[]
حیدرآباد: سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی مؤقف سے متعلق مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے جمعرات کو زبانی ریمارک کیا کہ دستور ہند کے آرٹیکل 30(1) کح تحت ایک اقلیتی تعلیمی ادارے کا تحفظ محض اس لئے ختم نہیں ہوجاتا کہ اقلیتی ادارہ دیگر کو انتظامیہ میں مشغول کرتا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندراچوڑ نے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی مؤقف کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی سات رکنی بنچ کی صدارت کررہے ہیں‘ کہا کہ آرٹیکل 30 کا مقصد اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنا نہیں ہے۔ اگر آپ دیگر لوگوں کو اپنے ادارے سے جوڑتے ہیں تو یہ آپ کے ایک اقلیتی ادارہ کے کردار کو نہیں گھٹاتا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے آرٹیکل 30(1) میں استعمال کردہ لفظ ’اختیار‘ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کو ایک اختیار یہ دیا گیا ہے کہ آیا وہ ادارہ کو خود چلائیں یا دوسروں کے ذریعہ چلائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 30 یہ لازم نہیں کرتا ہے کہ نظم و نسق اقلیتوں کے خود کا ہو۔
آرٹیکل 30 حق کو تسلیم کرتا ہے‘ خاص کر حق اختیار‘ اقلیتوں کو نظم و نسق چلانے کا دیا گیااختیار تمیزی یہ ہے کہ وہ جو مناسب تصور کریں اپنے ادارہ کواس انداز میں چلائیں۔ آرٹیکل 30 کا لازم عنصر اقلیت کو مرحمتِ اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے کل کی سماعت کے دوران بھی ایسے ہی ملتے جلتے ریمارکس کئے تھے۔
چیف جسٹس کے تبصرے کے جواب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ وہ خود دہلی میں سینٹ اسٹیفنس کالج کی گورننگ باڈی کا حصہ تھے۔ سینٹ اسٹیفنس کی گورننگ باڈی کے بیشتر ارکان غیر اقلیتی ہیں۔
انہوں نے نشان دہی کی کہ نظم ونسق کے تمام پہلوؤں سے نمٹنے میں اقلیتیں درکار مہارتیں نہیں رکھتیں اور انہیں دوسروں کو شامل کرنا پڑتا ہے۔ ایک ادارہ کے کی تاسیسی اور تاریخی شرائط اس کے اقلیتی مؤقف کا اندازہ لگانے میں متعلقہ معیارات ہوتے ہیں۔