خادماؤں کی خدمت میں

[]

ڈاکٹرسید عباس متقی
9391323968

ہندوستان جنت نشان میں گھریلو خادماؤں کا جو حال ہے وہ اظہر من الشمس ہے لیکن ان خواتین کا باہر کے ملکوں میں جو حال ہے وہ اظہرمن الشمس ہی نہیں اظہر من القمربلکہ اظہر من المریخ بھی ہے ۔وہاں کام کرنے والیاں اگر شریف خاندانوں میں کار گزار ہیں تو پھر چاندی ہی چاندی ہے ورنہ سونا ہی سونا ہے۔کچھ ایسی ناگفتہ بہ و ہوش ربا حکایات سننے میں آتی ہیں کہ رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ا ن خواتین کے شوہروں اور قرابت داروں پر افسوس ہو تاہے کہ خود تو ہندوستان میں نرم گدوں پر پڑے پڑے عمرکے مکروہ دن گزارتے ہیں اور وہ بے چاریاں خوف و ہراس میں زندگی کی تاریک راتیں ۔ان راتوں میں کتنے بھیانک خواب جلوہ گر ہو تے ہیں ان جاگتی آنکہوں ہی کو پتا ہے جو سونے کی آرزو میں سونا بھول گئی ہیں۔

جس قوم کے مرد اپنی بیویوں کو تنہابہ تقدیر دوسرے ملکوں کو بھیج کر کام کرواتے ہیں انہیں چوڑیاں پہن لینا چاہیے بلکہ مٹک مٹک کر مجرا بھی کرنا چاہیے۔ہم تو کہتے ہیں کہ مردوں کا کولھے مٹکا کر مجراکرنا اوراس سے روٹی کمانا اس سے بہتر ہے کہ انکی بیویاں اغیار کی نوکری کریں اور ان کی عصمتیں دائو پر لگتی رہیں۔خواتین کے معاملے میں ہندوستان لاکھ مخدوش سہی لیکن ہندوستان بہر حال سارے جہاں سے اچھا ہے۔یہاں عدالتیں ہیں بلکہ سپر یم کورٹ بھی ہے جہاں مظلوموں ہی کو نہیں بلکہ مجرموں کوتلک گلو خلاصی کی قوی امید ہو تی ہے۔ان عدالتو ںکے دروازے کھٹکھٹائے جاسکتے ہیں ،ہاں!یہ اور بات ہے کہ اس دروازے کو کھٹکھٹا نے کے لئے دولت کے ہاتھ چاہیے۔اب وہ بڑھیا جس کا گھر کسی غنڈے موالی نے چھین لیا ہو کہاں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے جائے ۔ع اور غ نے ہمارا مطلب ہے کہ عمر اور غربت نے اس غریب کو اس درجہ جھکا دیا ہے کہ اس کا ہاتھ ظالموں کے گریبانوں تک کجا دامن کو تک چھو نہیں سکتا ۔البتہ وہ قیامت کے دن اکثروں کا دامن نہیں گریبان ضرور پکڑ لے گی کیوں کے وہاں پکڑنے کے لئے دامن تو نہیں ہو ں گے گردنیں البتہ ضرور ہو ں گی۔

جن مردوں کو معاشی اعتبار سے برتری حاصل ہو جاتی ہے وہ اپنے ماتحتین کو خدمت گزارکی بجائے بندہ ٔ بے یار و مددگار سمجھنے لگتے ہیں اور جو خواتین خدمت گار ہو تی ہیں انہیں اپنی زر خرید لونڈیاں ۔اس میں ان کا چنداں کوئی قصور بھی نہیں دولت کی بہتات انسان کو شیطان بنانے میں ازل ہی سے ایک اہم رول ادا کرتی آئی ہے۔دولت سے آدمی سب کچھ خرید لینے کی آرزو کرنے لگتا ہے ،وہ بھی جو اس کی قوت خرید سے باہر ہو۔یہاں تک کہ وہ دولت کے بل بوتے پر ہی معصوم اور نیک صفت خواتین کی آبرو بھی خرید نے کی تمنا کر نے لگتا ہے۔آپ نے دیکھا ہو گا کہ اخبار میں اس قسم کی خبریں شائع ہو تی رہتی ہیں ایک آجر نے ماجور کی عزت لوٹ لی ۔آجر مختار اور ماجور مجبور ہو تا ہے اور اس رشتہ جبر کو رشتہ ازدواج غیر شرعی و غیر قانونی سے بدلنے میں کوئی خاصی مشکل بھی نہیں ہو تی ۔قدرے لالچ سے اور بعض وقت قدرے خوف سے یہ منزلیں آسان ہوجایا کر تی ہیں ۔

جو لوگ کمانے کے لئے اپنی بیویوں کو باہر بھیج دیا کر تے ہیں ان کے دل و دماغ میں کہیں نہ کہیں اندیشہ ہائے دور و دراز کی چنگاریاں شعلہ ٔ شرر بار بن کر ضرور انہیں آتش زیر پا کر دیا کرتی رہتی ہیں لیکن چند در چند مجبوریوں کے سبب وہ صبر کے کڑوے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ۔عموماًمرد آجر جب کسی عورت کو کام دیتا ہے تو اس کے ذہن میں اس کا اپنا کام بھی کہیں نہ کہیں چھپا ہو ا رہتاہے ۔

وہ کبھی کام کے ساتھ ساتھ کام کی بات بھی کر لیا کر تا ہے اور وہ بات اس درجہ ملفوف ہو تی ہے کہ نزد دیگراں ایک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا والا معاملہ ہوتا ہے ،لیکن اس معمے کو عورت خوب سمجھتی ہے تاہم ،حیا کی چادر اس بات کے مکروہ معانی و ناروا مطالب کو چھپائے رکھتی ہے،لیکن بقول شخصے ہر چیز کی ایک قیمت ہو تی ہے اور آخر کارجب معقول قیمت ملتی ہے تو عقل گھٹنے ٹیک دیتی ہے،حیا کا رنگ اڑ جاتا ہے ،آبرو سودے پر آمادہ ہو جاتی ہے ۔در شہوار کیا شئے ہے ،اسی معقول قیمت نے تو فلسطین کے ٹکڑے کرڈالے ۔ہم نے دیکھا ہے کہ صاحبان عقل وخرد نے بھی لالچ میں آکر زمام ہوش چھوڑ دیا اور جب ہو ش آیا تو سب کچھ لٹ چکا تھا۔اسپ شہوت کچھ ایسے فراٹے بھرنے لگتا ہے کہ آگے کی ہر منزل منزل مقصود سے نہایت قریب ہو نے لگتی ہے اور آخرش مکار مرد معصوم عورت کو قابو میں کر لیتا ہے ۔یوں بھی صاحب زر مردوں کے نزدیک سرکش گھوڑوں پر سواری کرنے کا لطف ہی اور ہو تا ہے۔

اس عہد میں جس درجہ عورت کا استحصال ہو رہا ہے شاید ہی کسی اور زمانے میں ہو اہو ۔ہم نے یہاں تک سنا کہ کم ظرف مالک مظلوم خادمائوں کو تحفۃً اپنے دوستوں کو بھی بخشا کر تے ہیں ۔ایک لڑکی نے اپنی والدہ کو لکھا کہ یہ میرے ساتویں آجر ہیں اور شوہر بھی ہیں۔بعض خواتین کے بارے میں ہم یہ پڑھ کر دریائے حیرت میں غوطہ زن ہو گئے کہ یہاں تو ان کا ایک ہی شوہرتھا لیکن باہر ان کے کئی ایک شوہر ہیں اور وہ چند در چند مجبوریوں کے سبب وہ باہر رہنے ہی کو زیادہ پسند کر تی ہیں ۔ظاہر ہے کہ ایک سے بھلے دو کا محاورہ اور کس دن کام آئے گا ۔ہمارا خیال ہے کہ ازدوا ج کے چار راستے اگر ساری دنیا میں عمومی طور پر کھل جائیں تو پانچویں راستے کو کھلنے میں اتنی دل چسپی نہیں رہتی ۔جب راستے تنگ ہو تے ہیں تبھی سوار کٹ مار کے نکلنے کی سوچتا ہے ۔صاف ستھری ،نیز کھلی سڑک ہو تو عموماً آدمی پگڈنڈیوں کا انتخاب نہیں کر تا ۔اگر وہ سوچ بھی لے تو خود اس کی سوچ اس کے نزدیک لایعنی متصور ہو تی ہے ۔خدا نے جو آسانیاں مرحمت فرمائی ہیںوہ تمام انسانوں کے لئے بطور خاص مسلمانوں کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں لیکن آدمی راہِ حلت کو خیر باد کہہ کر راہ حرمت کو اختیار کرتا ہے جو اس کے لئے دنیا میں رسوائی کا باعث اور آخرت میں عذاب کا سبب ہو ا کرتا ہے۔

باہر کام کرنے والی خادمائو ں کی خدمت میں ہم یہاں کچھ مشورہ ہا ئے لاثانی ونزد کساں بے معانی پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔اگر آپ جوان اور قدرے عمر رسیدہ خادمہ ہیں توغیر ملک میں اپنے مالکوں کے تحائف قبول مت کیجیے، کیوں کہ ان تحائف میں کچھ نجی کوائف بھی چھپے ہو تے ہیں اور بعض وقت دو ایک تحفے نو ماہ کے عظیم الشان تحفے کا پیش خیمہ ثابت ہو تے ہیں۔حکومت نوٹ دے کر ووٹ لینے والے کو جیل بھیج دیا کر تی ہے لیکن تحفہ دے کر تحفہ لینے والے کو کہیں بھی جیل نہیں ہے ۔بوڑھے اور دماغی مریضوں سے بھی آپ ہوشیار رہیں،بوڑھے کسی بھی وقت جوان ہو سکتے ہیں اور دیوانے کسی وقت بھی سیانے ۔بستر پر پڑے ہوئے مریض کو آپ نظر انداز نہ کریں اس کی نظریں آپ کی شخصیت پر گڑ ی ہوئی ہیں۔وہ کسی بھی وقت بستر سے اٹھ سکتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں دنیاہی سے اٹھ جائے۔برتن دھوتے وقت آپ کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ کان کے راستے دل میں اتر جایا کرتی ہیں ،اپنی چوڑیوں کو باندھ کر رکھیے۔اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو بعجلت ممکنہ کسی کی پہلی اور اگر یہ فورا ممکن نہ ہو تو دوسری یا تیسری بلکہ چوتھی بیوی بن جائیے کیوں کہ شادی شدہ خواتین کو ہندوستان میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتاہے اورباہر بھی اور کنواری لڑکیوں کو امید کی نگاہ سے ۔شادی شدہ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والوںکو دنیاکا کم اور شوہر کازیادہ ڈر لگا رہتا ہے ۔شوہر کی موجودگی آپ کوہر طرح کا تحفظ فراہم کرے گی ۔اس سلسلہ میں شوہر کاکوئی رستم ہونا ضروری نہیں،شرعی شوہر دوسروں کوغیر شرعی شوہر بننے سے بہر صورت لیکن حتی المقدور روکتے ہیں ۔پہلی چھیڑ پر ہی آپ راستہ چھوڑدیجیے اس راستے کی کوئی منزل نہیں ۔کس نے کب اور کس طرح چھیڑ رہاہے یہ آپ ہم سے زیادہ بہتر جانتی ہیں۔خادمائوں کومعنی خیز تبسم زیبا نہیں ،یہ مالکوں کو امید وار بنادیتا ہے اور ان کی بیویوں کی جان نکال لیتا ہے ۔

اگر آپ کنواری اور نادان ہیںتو محبت کے کھیل مت کھیلئے آ پ ہار جائینگی۔مالکین شادی کا وعدہ کر تے ہیںلیکن شادی نہیں کرتے۔فلموں پر مت جائیے فلموں میں جو ہوتا ہے سب جھوٹ ہے اور زندگی میں جو ہوتا ہے وہی سچ ہے۔اگر آپ جوان اور قبول صورت ہیں تو زیادہ صاف ستھری اور بہت بن سنور کر مت رہئے یہ چیز آپ کو جاذب نظر بنا دے گی اور مالک کے دل میں ایک لطیف احساس اور مالکن کے دل میں خوف و ہر اس پیدا کرے گی ۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *