[]
مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ پاکستانی سیئنر سیاستدان سینیٹر مشاہد حسین سید کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نون سے ہے۔ 2018 میں پارٹی نے ان کو سینیٹ کا رکن منتخب کیا۔ آپ صحافی بھی رہ چکے ہیں۔ سیاست اور صحافت میں ان کو معتدل اور متوازن شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔
تہران میں انٹرنیشنل فلسطین کانفرنس میں شرکت کے موقع پر مہر نیوز نے ان سے گفتگو کی جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
مہر نیوز؛ طوفان الاقصی اچانک کیوں پیش آیا؟
سینیٹر مشاہد حسین؛ یہ اسرائیلی ظلم کے خلاف ایک فطری ردعمل تھا جیساکہ یونائٹڈ نیشن کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ طوفان الاقصی کسی خلا یا ہوا میں نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے 56 سالوں کا اسرائیلی قبضہ اور مظالم ہیں۔ پچھلے 15 سالوں کے دوران غزہ میں پانچ جنگیں اسرائیل نے مسلط کیں۔ غزہ کیا ہے اس وقت؟ دنیا کا سب سے بڑا قیدخانہ اور زندان جس میں 23 لاکھ لوگ ایک چھوٹے سے علاقے میں جس کی لمبائی 36 کلومیٹر اور چوڑائی 7 کلومیٹر ہے اس میں رہتے ہیں اور اس میں انسانوں کے لئے جگہ نہیں ہے بلکہ حیوانوں کے لئے ہے جس کو اسرائیل کنٹرول کرتا ہے۔ سمندر سے ہو چاہے زمینی راستہ ہو، کیا جائے گا؟ اکیسویں صدی میں بھی کھانے پینے کی اشیاء تک اسرائیل کے کنٹرول میں ہے۔ اسرائیل اپنے بیانیے میں کہتا ہے کہ ہم پر ظلم ہوا ہے۔ ہاں ہم یورپ کے یہودیوں کے خلاف دوسری جنگ عظیم میں یورپ کے مسیحیوں نے جو مظالم کئے ہیں ہم ان کی مذمت کرتے ہیں۔ یورپی مسیحیوں کی جانب سے مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف جو جرائم کئے گئے ہیں۔ ہٹلر کے دور میں ہونے والے ہولوکاسٹ کی ہم مذمت کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ اسرائیل بھی غزہ میں مسلمانوں اور غرب اردن میں مسیحیوں کے خلاف یہی جرائم کررہا ہے۔ یہی جرائم وہ خود کررہے ہیں جس کی وہ خود بات کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ میں ان کے ساتھ ہوا تھا جس سے مسلمانوں، فلسطینیوں اور عربوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگر وہ غلط تھی تو یہ بھی غلط ہے۔
مہر نیوز؛ اسرائیلی فوج غزہ میں عوام کو نشانہ بنارہی ہے لیکن فوجی حوالے کوئی خاص کامیابی نہیں مل رہی ہے اسی کی کیا وجہ ہے؟
سینیٹر مشاہد حسین؛ میں آج نیویارک ٹائمز میں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر سویلین علاقے جہاں بچے خواتین اور مرد پناہ لے رہے تھے، اسرائیل نے جان بوجھ وہاں سب سے بڑے اور خطرناک بم پھینکے ہیں۔ یہ جنگی جرم ہے اس کے باوجود فلسطینی عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی عوام نے اپنی آزادی اور حقوق کے لئے لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بطور آزاد قوم آخری دم تک لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ میں فلسطینی مجاہدین کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جس طرح وہ اسرائیل کی بربریت کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں۔ اسرائیل نے اپنے بارے میں دو باتیں کی تھیں کہ اسرائیل کی فوج پورے مشرق وسطی میں سب سے مضبوط فوج ہے جس کی کوئی عرب فوج مقابلہ نہیں کرسکتی۔ وہ بھرم ٹوٹ گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسرائیل کہتا تھا کہ مسئلہ فلسطین ختم ہوگیا ہے۔
معمول کے تعلقات بنائیں اور کچھ عرب ممالک نے اس سے تعلقات بھی بنائے تھے۔ فلسطین کا مسئلہ حل ہو یا نہ ہو ہم تعلقات قائم کریں گے۔ یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا۔ جب تک فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوتی، جب تک القدس الشریف اس کا دارالخلافہ نہیں بنتا، کوئی پائیدار امن مشرق وسطی میں قائم نہیں ہوسکتا۔ اور یہ پیغام اسرائیل کے لئے بھی ہے امریکہ کے لئے بھی ہے اور بین الاقوامی برادری اور سب عرب اور مسلمان ریاستوں کے لئے بھی ہے کہ آپ فلسطینی مسئلے کو ختم نہیں کرسکتے۔ بائی پاس اور کمزور بھی نہیں کرسکتے۔
مہر نیوز؛ یمن کی جانب سے اسرائیلی کشتیوں پر ہونے والے حملوں کا غزہ کی جنگ پر کیا اثر ہوا ہے؟
سینیٹر مشاہد حسین؛ یمن ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے اس کے خلاف امریکہ نے آٹھ دس ملکوں کا اتحاد بنایا ہے۔ دو طیارہ بردار جہاز بھیج دیے ہیں۔ یمن کوئی سپرپاور ہے جس سے آپ نے عالمی جنگ لڑنی ہے؟ یہ ان کی ناکامی ہے کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں کرسکے۔
مہر نیوز؛ شہید سلیمانی کی برسی کے ایام ہیں، شہید کے بارے میں کیا کہیں گے۔
سینیٹر مشاہد حسین؛ شہید قاسم سلیمانی ایران کے بڑے عظیم مجاہد تھے۔ انہوں نے مظلوموں کا ساتھ دیا۔ ان کوبغداد میں شہید کردیا گیا۔ یہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ایک آزاد ملک کی خودمختاری کو پامال کیا گیا۔ شہید قاسم سلیمانی نے عراق، شام اور لبنان کے مظلوموں کا ہمیشہ ساتھ دیا۔ اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے۔
مہر نیوز؛ شہید سلیمانی کے بارے میں اسماعیل ہانیہ نے کہا تھا کہ وہ شہید القدس ہیں، اس سال ان کی برسی اسی نعرے کے ساتھ منائی جارہی ہے، فلسطین کے بارے میں شہید سلیمانی کے کردار کے بارے میں کیا کہیں گے۔
سینیٹر مشاہد حسین؛ وہ واقعی شہید االقدس ہیں۔ کسی شہید کے لئے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے۔ القدس ہمارا قبلہ اول ہے اس کے تحفظ اور آزادی کے لئے کام کرنے سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ شاہ فیصل کہتے تھے کہ میری ایک ہی خواہش ہے کہ میں آخری مرتبہ القدس جاکر مسجد اقصی میں نماز پڑھوں۔ یہ تو ہر مسلمان کی ایک دیرینہ خواہش ہے کہ ایک آزاد القدس میں اور مسجد اقصی میں جاکر اللہ کے سامنے حاضری دے۔
مہر نیوز؛ بعض ممالک اب بھی اسرائیل کی جنایات میں مخفیانہ یا کھلے عام شامل ہیں، مختلف شعبوں میں امداد دی جارہی ہے، ان ممالک کا انجام کیا ہوگا؟ اسرائیل ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟
سینیٹر مشاہد حسین؛ جو لوگ ظلم کا ساتھ دے رہے ہیں خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، ان کو ان کے عوام معاف نہیں کریں گے، اللہ معاف نہیں کرے گا، یہ حضرت علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کی بنیاد پر نہ کوئی پالیسی چل سکتی ہے اور نہ کوئی حکومت۔