[]
ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
پارلیمنٹ پر دہشت گرد حملے کے 22 سال بعد یعنی 13؍ ڈسمبر کو ایک اور سیکوریٹی کی شدید ناکامی منظر عام پر آئی ہے۔ ایوان زیریں میں اس وقت زبردست افرا تفری مچ گئی جب ویزیٹرس گیالیری سے دو ونوجوانوں نے اچانک چھلانگ لگادی۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بی جے پی کے رکن مرمو لوک سبھا میں تقریر کررہے تھے۔ یہ نوجوان ایوان کی بینچوں پر کودنے لگے اور ان کے جوتوں میں چھپے ہوئے اسپیرے سے دھویں کی بوچھار کو فضا میں پھیلانے لگے جس سے ایوان میں زرد دھواں پھیلنے لگا ۔ ارکان پارلیمان نے زبردست پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دونوں کو جکڑ لیا۔سب سے پہلے وہ کانگریس ایم پی برجیت سنگھ اوجھلا کی گرفت میں آگئے۔ ارکان پارلیمان نے ان کو مارا پیٹا اور اس کے بعد انہیں سیکوریٹی عہدیداروں کے حوالے کردیا گیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی سارے گوشوں سے مذمت ہونی چاہئے اور مرکزی حکومت کو اب یہ دیکھنا ہوگا کہ سیکوریٹی کوتاہی کو چاہے وہ سرحدوں پر ہو یا پھر گھر کے اندر کیسے دور کیا جائے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے یہ دعوی کیا تھا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت صیانت کے معاملے میں بے حد مضبوط ہے اور اس میں کوتاہی کی کو ئی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے اس دعوی کے باوجود اس طرح کے شرمناک واقعہ کا وقوع پذیر ہوجانا یقینا اک لمحہ فکر ہے۔ ملک کے منتخبہ نمائندے اگر محفوظ نہ ہوں تو عام لوگوں کا کیا ہوگا۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے سیکوریٹی کی کوتاہی پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے تو وہ غلط نہیں ہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ لوک سبھا جیسی جگہ پر جہاں بے انتہا عظیم سیکوریٹی ہونے کا دعویٰـ کیا جاتا ہے تو کیسے دو نوجوان ایوان میں گیس لے کر کود پڑتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ شرمناک واقعہ اس دن ہوا جب پارلیمنٹ پر حملہ سے شہید ہونے والے بہادر سیکوریٹی فورس کے ارکان کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا تھا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس حملہ کو انتہائی سنجیدگی سے لے۔ کھرگے نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کی یکجہتی اور سا لمیت کے ساتھ کھلواڑ نہ کرے۔ دلی پولیس نے اس واقعہ کے اصل سرغنہ للت جھا کو گرفتار کرلیا ہے۔ کلکتہ سے تعلق رکھنے والے ٹیچر جھا کو دودن کی دوڑ دھوپ کے بعد حراست میں لے لیا گیا۔ اس واقعہ میں ملوث پانچ افراد کو پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ ان نوجوانوں کے پاس کچھ پمفلٹس برآمد ہوئے جس میں وزیراعظم نریندر مودی لاپتہ ہیں لکھا ہوا تھا اور اس میں پتہ بتانے والوں کے لئے سویس بنک کے ذریعہ نقد انعام دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ چار گھس پیٹیوں نے یعنی ساگر شرما، ڈی منورنجن، نیلم دیوی اور امول شنڈے کو واقعہ کے منٹوں بعد پولیس نے گرفتار کرلیا تھا اور انہیں فوراً دلی کی ایک عدالت میں پیش کردیا گیا۔ پانچویں شخص وکی شرما کو اس کے گھر سے اس کی بیوی کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا۔ گروگرام میں رہنے والے وکی کے مکان میں یہ سارے لوگ جمع ہوئے تھے۔ پولیس نے ان سب کو 15 دن کی تحویل لے لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے دھویں کے canisters ممبئی سے خریدے تھے اور وہ جوتے جو canisters اسمگل کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں لکھنو سے خریدے گئے تھے۔ پولیس نے دعوی کیا ہے کہ اس دھویں کے حملہ کے واقعہ میں کچھ اور لوگ بھی ملوث ہوسکتے ہیں کیونکہ عام آدمی اتنے منصوبہ بند ڈھنگ سے یہ جرم نہیں کر سکتا۔ پولیس نے بتایا کہ ان لوگوں نے یہ واضح طورپر نہیں بتایا کہ ان کا مقصد کیا تھا لیکن گرفتار شدگان میں سے چار لوگوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ بیروزگاری اور منی پور کے نسلی فسادات کے خلاف آواز اٹھانا چاہتے تھے اور ارکان پارلیمان کی ان کے مقصد کی طرف توجہ مبذول کروانا ان کا مقصد تھا۔ اس واقعہ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ حملہ آوروں کو PASS بی جے پی کے میسور سے رکن پارلیمان نے دلایا تھا۔ پارلیمنٹ کے باہر سے گرفتار کئے گئے دونوں افراد نے دعوی کیا کہ وہ اپنے طورپر پارلیمنٹ پہنچے اور ان کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیلم نے وہاں نعرہ لگایا اور کہا کہ آمریت نہیں چلے گی ، آئین کو بچائیے، منی پور کو انصاف دو، خواتین پر تشدد جاری نہیں رہے گا، مادر ہند زندہ باد، جئے بھیم، جئے بھارت۔ اسپیکر اوم برلا نے اس واقعہ پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ سبھی کے لئے تشویش کا باعث ہے اس کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا کہ یہ عام دھواں تھا۔ پلوامہ کے المناک اور شرمناک واقعہ کے بعد لوک سبھا کے اندر حملہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مرکزی سرکار ملک کی صیانت کے معاملہ میں نکمی ثابت ہورہی ہے۔ اگر حکومت ایسے نازک معاملوں میں سنجیدہ نہ ہو تو ملک کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔یہ کسی پارٹی یا کسی فرد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی سا لمیت کا سوال ہے۔ دھویں سے حملہ کے بجائے خداخواستہ بم سے حملہ ہوجاتا تو ملک کی سیکوریٹی پر ایک بہت بڑا داغ لگ جاتا۔ آج پوری قوم کو سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور ایسے راستے نکالنا چاہئے جس سے ملک کو کوئی نقصان اٹھانا نہ پڑے۔ حملہ آور نوجوان اگر بیروزگاری اور منی پور کے مسئلہ پر بات کرتے ہیں تو کوئی برائی نہیں ہے لیکن قوم کو اپنی سوچ سے واقف کرانے کا جو ذریعہ انہوں نے اپنایا وہ انتہائی غلط اور قابل مذمت ہے۔ ہندوستان کے کسی بھی فرد کو غلط راستے سے اپنا مطالبہ پیش کرنا زیب نہیں دیتا۔ جمہوریت میں بہت سارے پرامن طور طریقے موجود ہیں اور وہ ان پر چل کر اپنی بات کو آشکارا کرسکتے ہیں۔ غلط راستوں پر چلنا نہ صرف ان کیلئے ان کے کاز کیلئے اور نہ ہی ملک کے لئے مناسب ہے۔ Hunger Index میں ہمارا ملک بنگلہ دیں اور پاکستان سے پیچھے ہے۔ بیروزگاری کے میدان میں بھی ہم کچھ اچھا نہیں کررہے ہیں ۔ آزادیٔ صحافت کے معاملہ میں بھی ہمارا ریکارڈ خراب ہے۔ اگر ہم ان میدانوں میں ڈٹ کر کام کرتے ہیں اور بہتر نتائج سامنے لاتے ہیں تو یقینا یہ امر ہمارے ملک کے لئے باعث سکون ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو ہم بہت سارے مسائل میں گھر جائیں گے۔ ہمیں غیرت مندی اور جرأت مندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ
وہ غیرت مند ‘ جرأت مند‘ صفحہ اول میں ہوتے ہیں
کہ ایسا مرتبہ بھی کیا کسی بزدل کو ملتا ہے