مساجد میں اعلانات کی کثرت: ایک لمحہ فکر

[]

ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق ڈین، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ

یوں تو تمام روئے زمین امت محمدیہ ﷺ کے لئے سجدہ گاہ اور ذریعہ طہارت بنادی گئی ہے لیکن مسجدیں وہ مراکز ہیں جو اسلامی طریقے پر اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر کے لئے مخصوص کی گئی ہیں۔ اس لئے انہیں اللہ کے گھر سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ زمین کا وہ ٹکڑاجو مسجد کے نام سے مخصوص و موسوم ہوجائے وہ اللہ کے نزدیک بہت ہی محبوب اور محترم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ایمان والوں پر بھی اس کا ادب و احترام لازم ہوجاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ سے بھی اس سلسلے میں بہت سی ہدایات ملتی ہیں جن پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کو کئی طرح کے دینی تقاضوں کی انجام دہی کے لئے استعمال فرمایا لیکن آپؐ نے اس کے قیام کے بنیادی مقاصد یعنی اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر کو ہمیشہ مقدم رکھا اور اس سلسلے میں آنے والی ہر قسم کی رکاوٹ کو ناپسند فرمایا۔

مسجد کے قیام کے بنیادی مقاصدکی نشاندہی اس روایت میں ملتی ہے جس میں ایک بدوی کے مسجد نبوی میں پیشاب کردینے کا ذکر ہے۔ آپؐ نے اس بدوی سے یہ فرمایا تھا: ’’إِنَّ ھٰذِہِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْئٍ مِنْ ہٰذَا الْبَوْلِ وَ لَا الْقَذَرِ، إِنَّمَا ھِيَ لِذِکْرِ اللہِ عَزَّوَ جَلَّ، وَالصَّلَاۃِ، وَ قِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ‘‘ یعنی یہ مساجد اس طرح پیشاب یا کسی اور گندگی کے لئے نہیں ہیں، یہ تو بس اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور تلاوت قرآن کے لئے ہیں۔ (صحیح مسلمؒ، رقم الحدیث ۶۶۱، بروایت انس بن مالکؓ)۔ اس لئے ان اعمال صالحہ کی ادائی کی راہ میں آنے والی ہر طرح کی خلل اندازی ناپسندیدہ قرار دی گئی اور جو لوگ بھی ان اعمال صالحہ کی غرض سے مسجد تشریف لاتے ہیں، ان کی راحت کا خاص خیال رکھا گیا۔

اسی لئے مسجدکی صفائی و پاکیزگی، اس کو ہر قسم کی نجاست، گندگی اور بدبو (یہاں تک کہ پسینہ، کچے لہسن اور پیاز کی بدبو) سے بچانے اور خوشبوؤں سے معطر رکھنے کی تاکید فرمائی گئی۔ اسی طرح وہاں عبادت کے لئے مطلوب یکسوئی اور خشوع و خضوع کو یقینی بنائے رکھنے کے واسطے نماز کے اوقات میں جبکہ لوگ نوافل اور اذکار مسنونہ وغیرہ میں مشغول ہوںاونچی آواز میں سلام کرنے، بات چیت کرنے، اعلانات کرنے حتی کہ اونچی آواز میں انفرادی طور پر ذکر و تلاوت کرنے کو بھی ناپسند فرمایا گیا۔

بریدہ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے مسجد میں اپنے اونٹ کی گمشدگی کا اعلان کیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’لَا وَجَدْتَ، إِنَّمَا بُنِیَتِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بُنِیَتْ لَہُ‘‘ تجھے (تیرا اونٹ) نہ ملے، مسجدیں صرف انہی کاموں کے لئے بنائی گئی ہیں جن کے لئے انہیں بنایا گیا (یعنی عبادت اور اللہ کے ذکر کے لئے)۔ (صحیح مسلمؒ، رقم الحدیث ۱۲۶۲)۔ اور یہی کہنے کی تاکید آپؐ نے عام مسلمانوں سے بھی کی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’مَنْ سَمِعَ رَجُلاً یَنْشُدُ ضَالَّۃً فِي الْمَسْجِدِ فَلْیَقُلْ: لَا رَدَّھَا اللّٰہُ عَلَیْکَ، فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِھٰذَا‘‘ یعنی جو شخص کسی آدمی کو مسجد میں کسی گمشدہ چیز کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے سنے تو وہ کہے: اللہ تمھاری چیز تمھیں نہ لوٹائے کیوں کہ مسجدیں اس کام کے لئے نہیں بنائی گئیں۔ (صحیح مسلمؒ، رقم الحدیث۱۲۶۰، بروایت ابوہریرہؓ)۔

مذکورہ روایات سے یہ بالکل واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد میں اعلان کرنے کو پسند نہیں فرمایا حالانکہ آپؐ کے اندر لوگوں کی خیرخواہی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا لیکن آپؐ نے کسی کی کھوئی ہوئی چیز کے واپس مل جانے کے نفع پر مسجد کی عظمت اور اس کے بنیادی مقاصد کو مقدم رکھا اور ان پر کسی قسم کی آنچ آنے دینے کو پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ نے واضح طور پر فرمادیا کہ مسجدیں اس کام کے لئے یعنی اعلانات کے لئے نہیں بنائی گئیں۔ اعلان کرنا تو دور کی بات ہے آپؐ نے اس بات کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ جب لوگ انفرادی عبادات نوافل وغیرہ میں مشغول ہوں، اس وقت کوئی قرأت میں اپنی آواز دوسروں پر بلندکرے۔

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا۔ آپؐنے لوگوں کو سنا کہ وہ اونچی آواز میں قرأت کررہے ہیںتو آپ نے پردہ ہٹایا اور فرمایا: ’’أَلَا إِنَّ کُلَّکُمْ مُنَاجٍ رَبَّہُ فَلَا یُؤْذِیَنَّ بَعْضُکُمْ بَعْضًا، وَ لَا یَرْفَعُ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِي الْقِرَائَ ۃِ، أَوْ قَالَ فِي الصَّلَاۃِ‘‘ (ترجمہ): ’’خبردار! بلاشبہ تم سب کے سب اپنے رب سے مناجات کر رہے ہو تو کوئی شخص کسی دوسرے کو ہرگز ایذا نہ دے اور قرأت میں اپنی آواز دوسرے پر بلند نہ کرے یا فرمایا نماز میں (اپنی آواز دوسرے پر بلندنہ کرے)۔‘‘ (سنن أبي داؤدؒ، رقم الحدیث ۱۳۳۲)۔

آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جب نماز کی قرأت میں مسجد میں آوازیںبلند کرنے کو صرف اس لئے روکا گیا ہو کہ کہیں دوسروں کی عبادت میں خلل نہ ہو تو اونچی آواز میں مسجد میں بات چیت کرنے اور اعلانات کرنے کو کیسے درست ٹھہرایا جاسکتا ہے جبکہ دوسرے لوگ اپنی نمازوں میں مصروف ہوں۔ سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓنے دیکھا کہ دو شخص مسجد میں اونچی آواز میںباتیں کر رہے ہیں تو آپ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ تمھاراتعلق کس قبیلہ سے ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دیئے بغیر نہیں چھوڑتا، رسول کریم ﷺ کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۴۷۰)۔

ان روایات کے پیش نظر سبھی فقہی مسالک کے علماء نے مسجد میں آواز بلند کرنے کے سلسلے میں سخت موقف اختیار کیا ہے۔ احناف، شوافع اور حنابلہ سب کے نزدیک مسجد کے اندر اونچی آواز سے ذکر کرنا جس سے نمازیوں کو پریشانی ہومکروہ ہے۔ جب ذکر اللہ کے سلسلے میں ان کا یہ موقف ہے تو اونچی آواز سے بولنے یا بات چیت کرنے کی اجازت وہ کہاں دے سکتے ہیں۔ چنانچہ اونچی آواز سے بات چیت اگر جائز کلام پر مبنی ہوتو بھی ان تینوں مسالک کے علماء کے نزدیک مکروہ ہے اگرنمازیوں کی پریشانی کا باعث ہو اور اگر بات چیت ناجائز کلام پر مشتمل ہو تو احناف کے نزدیک مکروہ تحریمی اور شوافع کے نزدیک حرام مطلق ہے۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ للامام عبد الرحمٰن الجزیریؒ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۳م، الجزء الاول، صفحہ ۲۵۹ -۲۶۰ )۔

ملا علی قاری حنفیؒ نے تو مسجد کے اندر آواز بلند کرنے کو حرام لکھا ہے، خواہ ذکر ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’و قد نص بعض علمائنا بأن رفع الصوت في المسجد و لو بالذکر حرام۔‘‘ یعنی ہمارے بعض علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ مسجد میں آواز بلند کرنا خواہ ذکر ہی میں کیوں نہ ہو حرام ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح للعلامۃ الشیخ علي بن سلطان محمد القاري ؒ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولی ۲۰۰۱م، الجزء العاشر، صفحہ ۸۶-۸۷)

مالکیہ کے نزدیک بھی مسجد میں اونچی آواز سے بولنا مکروہ ہے اگرچہ عبادت یا تعلیم کے لئے ہو اور اگر اس سے نماز ادا کرنے والوں کو پریشانی ہو تو حرام ہے۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، الجزء الاول، صفحہ۲۶۰ )۔

ملا علی قاریؒ نے ابن حجر عسقلانیؒ کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ امام مالکؒ سے مسجد میں علم سیکھنے سکھانے میں آواز بلند کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی خیر نہیں، نہ علم کے ساتھ نہ علم کے بغیر اور البتہ تحقیق میں نے پہلے لوگوں کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اس شخص پر جو اس طرح کی مجلس میں موجود ہوتا کہ جس میں آواز بلند ہوتی، عیب لگایا کرتے تھے اور میں بھی اس کو ناپسند کرتا ہوں اور اس میں کوئی خیر نہیں جانتا۔ ملا علی قاریؒ نے امام نوویؒ کا بھی قول نقل کیا ہے کہ مسجد میں علم وغیرہ کے سیکھنے سکھانے میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، الجزء الثاني، صفحہ۴۱۹)۔

اسی طرح گزشتہ صدی عیسوی کے برصغیر کے مشہور مفسر و فقیہ مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے آیت: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ أَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا۔الآیۃ(ترجمہ: اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالی کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے۔ سورۃ البقرۃ : آیت ۱۱۴) کی تفسیر کے تحت لکھا ہے: ’’مسجد میں ذکر و نماز سے روکنے کی جتنی بھی صورتیں ہیں وہ سب ناجائز و حرام ہیں، ان میں ایک صورت تو یہ کھلی ہوئی ہے ہی کہ کسی کو مسجد میں جانے سے یا وہاں نماز و تلاوت سے صراحتاً روکا جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ مسجد میں شور و شغب کر کے یا اس کے قرب و جوار میں باجے گاجے بجا کر لوگوں کی نماز و ذکر وغیرہ میں خلل ڈالے، یہ بھی ذکر اللہ سے روکنے میں داخل ہے۔

اسی طرح اوقات نماز میں جبکہ لوگ اپنی نوافل یا تسبیح و تلاوت وغیرہ میں مشغول ہوں، مسجد میں کوئی بلند آواز سے تلاوت یا ذکر بالجہر کرنے لگے، تو یہ بھی نمازیوں کی نماز و تسبیح میں خلل ڈالنے اور ایک حیثیت سے ذکر اللہ کو روکنے کی صورت ہے، اسی لئے حضرات فقہاء نے اس کو بھی ناجائز قرار دیا ہے ، ہاں جب مسجد عام نمازیوں سے خالی ہو، اس وقت ذکر یا تلاوت جہر کا مضائقہ نہیں، اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس وقت لوگ نماز و تسبیح وغیرہ میں مشغول ہوں مسجد میں اپنے لئے سوال کرنا یا کسی دینی کام کے لئے چندہ کرنا بھی ایسے وقت ممنوع ہے۔‘‘ (معارف القرآن، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، ۲۰۰۸ء، جلد اول، صفحہ ۲۹۹ -۳۰۰)۔

فقہاء کی ان ساری وضاحتوں کے باوجود جو کہ یقینا ائمہ مساجد کے علم میں ہوں گی، مساجد اعلانات کی آماجگاہ بنی ہوئی ہیں۔ امام کے سلام پھیرتے ہی مختلف قسم کے اعلانات شروع ہوجاتے ہیںجبکہ مسبوق یعنی دیر سے جماعت میں شامل ہونے والے مقتدی اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پوری کرنے میں اور دیگر نمازی تسبیحات میں مشغول ہوتے ہیںلیکن ان کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ یہ اعلانات مختلف عنوانات سے ہوتے ہیں جن میں جماعت کے اوقات میں تبدیلی، بیماروں کے لئے دعا کی درخواست، نماز جنازہ کے وقت اور جگہ کا تعین، مساجد و مدارس کے چندے، مسجد کی آمدنی و اخراجات کا حساب ، درس قرآن، جلسہ اور دعوتی اجتماعات کا انعقاد، گرمی کے دنوں میں رحمت کی بارش کی دعا، اور ان دنوں فلسطینی مسلمانوں کے لئے دعا بھی شامل ہے۔ محتاجوں اور بے کسوں کے ذریعے امداد کی اپیلیں ان کے علاوہ ہیں۔ پھر رمضان میں سحری کے اعلانات بھی اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اعلانات اب مائیک کے ذریعے ہوتے ہیں جو نمازیوں کی یکسوئی کو منتشر کرنے میںاور بھی مؤثر کردار ادا کرتے ہیں۔

کچھ اعلانات بار بار اور متواتر طریقہ پر کئے جاتے ہیں۔ ایک مؤذن صاحب کے پاس بیماروں کی ایک لمبی فہرست ہوتی ہے اور وہ ہر دن کسی نہ کسی نماز میں ان کی صحت یابی کی دعاکے عنوان سے وہ فہرست پڑھتے رہتے ہیںجب کہ اتنے ناموں کو یاد رکھنا کسی کے بس کی بات نہیں اور دعا تو ہمارے دیار میں ائمہ ہی کراتے ہیں تو کیوں نہیں وہ فہرست بار بار نشر کرنے کے بجائے ان کے حوالے کردی جاتی ہے۔ بعض دن تو دو دو نمازوں میں یہ اعلان ہوتا ہے حتی کہ فجر کی نماز میں بھی۔ فجر کے سناٹے میں مائیک سے کیا گیا اعلان ایک حساس آدمی کی سماعت پر ایسی ضرب لگاتا ہے جیسے کسی نے لوہے کی چادر پر ہتھوڑا چلا دیا ہو اور دل سے یہی بددعا نکلتی ہے کہ اللہ ان کو کبھی صحت نہ دے۔ غرض یہ کہ مسجدیں اعلانات اور چندے کا مرکز بن کر رہ گئی ہیں اور سکون سے نماز ، تلاوت و اذکار میں مشغول رہنے والوں کے لئے بڑی پریشانی ہے۔

ان سب پر رہی سہی کسر اونچی آواز میں بولنے والے مقتدی پوری کردیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ نماز سے جلد از جلد فارغ ہو کر پچھلی صفوں کی طرف چلے جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں منقسم ہوکر زور زور سے آپس میں گفتگو شروع کردیتے ہیں جب کہ اطمینان و سکون سے نماز ادا کرنے والے لوگ ان کی اس حرکت سے سخت پریشان اور نالاں رہتے ہیں۔ بعض امام کو بھی ایسی حرکت میں ملوث پایا جب کہ ان کے اوپر یہ ذمے داری تھی کہ وہ لوگوں کو مسجد کے آداب سے متعلق مذکورہ باتوں کی تعلیم دیتے ۔ لیکن افسوس کہ مصلحت کوشی نے ان علماء کے منہ پر تالا جڑ دیا ہے بلکہ اس طرح کے ہر غلط عمل کو غیر ضروری اور نامناسب تاویلیں کر کے درست ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علمائے سلف کے نزدیک یہ بات بالکل واضح تھی کہ مباح، جائز بلکہ شریعت کے اندر مطلوب کام بھی اگر سنتوں کی خلاف ورزی کر کے کی جائے تو وہ خیر سے خالی ہی ہوگا لیکن ہمارے زمانے کے علماء کی سوچ ان سے بالکل مختلف ہے الا ماشاء اللہ۔

عوام کی اکثریت چونکہ علم دین سے نابلد اور عبادات میں یکسوئی اور خشوع و خضوع کی لذت سے نا آشنا ہے اس لئے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہونا کیا چاہیے اور ہو کیا رہا ہے۔ اعلانات کے مسئلہ کو نوٹس بورڈ (وھائیٹ بورڈ) کے استعمال کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔ نیز مساجد و مدارس کے چندے کے لئے مسجد کے کسی گوشہ کو مخصوص کیا جاسکتا ہے جہاں سفراء اعلان نامہ (Placard) یا اشتہار لے کر خاموشی سے بیٹھ کر بھی اپنا کام کر سکتے ہیں۔ درس قرآن اور تبلیغی جماعت کے اجتماعات کے لئے لوگوں کے سنت و نوافل سے فارغ ہونے کا انتظار کیا جاسکتا ہے اور جو اجتماعات ہر ہفتہ معمول کے مطابق ہوتے ہیں ان کے لئے تو کسی اعلان کی ضرورت ہی نہیں ہے، یاد دہانی کے لئے نوٹس بورڈ پر لکھ دینا بھی کافی ہے ۔

اصل بات توجہ اور حس کی ہے ، جب احساس ہی مٹ جائے تو بری چیز بھی بھلی لگنے لگتی ہے۔ احقر نے بالکل عاجز آکر اور کافی ہمت جٹاکر اس برائی کے خلاف آواز بلند کی ہے (جسے لوگوں نے کار خیر سمجھ رکھا ہے) لیکن اس کو محسوس کرنے اور اس سلسلے کے مناسب اصلاحی اقدامات کرنے کا کام ائمہ مساجد، مسجد کمیٹیوں کے ممبران اور عوام الناس کا ہے۔ امید ہے کہ احقر کی باتوں کو منفی طریقے پر نہیں لیا جائے گا۔ آخر میں اللہ رب العزت سے التجا ہے کہ وہ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عنایت کرے ، نیز ہم سب کو مسجد کی عظمت اور اس کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!
٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *