جلاد کی سنسنی خیز کہانی سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں

[]

بنگلہ دیش: قتل کے جرم میں جیل جانے والے شاہ جہان بویا کی سنسنی خیز کہانی سن کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، وہ ایک قیدی تھا لیکن پھر گائے، مرغی کے گوشت اور پلاؤ کے لیے جلاد بن گیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے نے ایک ایسے بنگلادیشی قیدی کی کہانی شائع کی ہے، جسے قتل کے جرم میں 42 سالہ قید کی سزا دی گئی تھی، لیکن پھر ایک دن اس کی زندگی بدل گئی، جب اسے ہر پھانسی کے بعد مزیدار کھانا دیا جانے لگا اور آؤ بھگت ہونے لگی تو وہ خوشی خوشی جلاد بن گیا۔

شاہ جہان بویا بنگلا دیش کی تاریخ کا ایک ایسا جلاد بنا جس کے ہاتھوں درجنوں ایسے لوگ دنیا سے رخصت ہوئے جن کے کیسس سیاسی طور پر نمایاں تھے، اس نے 3 ایسے افراد کو بھی پھانسی دی جن کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ وہ بے گناہ تھے۔

جیل حکام کی جانب سے مجموعی طورپر شاہ جہان بویا سے 26 پھانسیاں لگوائی گئیں۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ 60 سزاؤں کا حصہ رہا، 1975 میں بغاوت کرنے والے فوجی افسران، جنہوں نے شیخ مجیب کو قتل کیا تھا، کو بھی اس نے پھانسی پر چڑھایا، 2007 میں کالعدم جماعت المجاہدین سے تعلق رکھنے والے صدیق اسلام اور الیاس بنگلہ بھائی کو بھی پھانسی دی، 1971 کی جنگ میں جنگی جرائم کے لیے جماعت اسلامی کے بھی 5 رہنماؤں کی گردنوں میں پھندا کسا۔

وہ جب جب کسی کو پھانسی پر چڑھاتا، اس کی سزا میں کمی کی جاتی تھی۔ وہ مارکسزم سے متاثر تھا، 1970 میں وہ حکومت گرانے کے لیے باغی تنظیم میں شامل ہوا، 1979 میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ٹرک ڈرائیور کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور 42 سال کی سزا سنائی گئی۔

اس نے قید کے دوران دیکھا کہ جیل میں جلاد کا کام کرنے والوں کو فرسٹ کلاس سہولت ملتی ہے، دوسرے قیدی جلاد کا مساج بھی کیا کرتے تھے، تو شاہ جہان بویا نے جلاد بننے کا فیصلہ کیا اور اپنی خدمات پیش کر دیں۔

جیل حکام نے پیش کش قبول کر کے کچھ عرصے بعد اس کو اپنی پہلی ڈیوٹی نبھانے کا ٹاسک سونپ دیا۔ یوں 80 کی دہائی میں بطور نائب جلاد اس نے پہلے شخص کو پھانسی پر چڑھایا۔ بہ طور جلاد بویا کی زندگی میں کئی یادگار واقعات رونما ہوئے، ایک شخص کو پھانسی دی جا رہی تھی تو اس نے سکون سے کلمہ پڑھا اور بالکل نہ رویا۔

بویا کے مطابق ہر پھانسی سے چند روز قبل اسے اطلاع دی جاتی اور وہ رسی، پھانسی کا تختہ اور لیور کا کھینچ کر جائزہ لیتا۔ قیدیوں کو پھانسی دیتے وقت بویا کو کبھی کچھ غیر معمولی محسوس نہ ہوا، وہ قیدی کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتا، سر پر کالے رنگ کے کپڑے کا تھیلا چڑھاتا اور پھر گلے میں پھندا ڈال کر کلمہ پڑھنے کے لیے کہتا۔ وارڈن ہاتھ میں پکڑا رومال نیچے کرتا تو وہ لیور کھینچ دیتا۔

بویا کو یقین تھا کہ جن لوگوں کو اس نے پھانسی دی ان میں سے کم سے کم تین بے گناہ تھے، ریپ اور قتل کیس میں ملزمان نے ایک شخص کو سزا کے لیے تیار کیا تھا، پھانسی سے قبل اس نے اتنی درخواست کی کہ اس کی ماں کو بتایا جائے میں نے یہ جرم نہیں کیا۔

رہا ہونے اور جلاد کے کام سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد شاہ جہان بویا ڈھاکا کے مضافاتی علاقے میں ایک کرائے کے کمرے میں رہتا ہے۔ 70 برس کی عمر میں بھی مضبوط جسم کا مالک ہے، گھنی مونچھیں رکھنے والے شاہ جہاں بویا نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’کچھ لوگ مر جاتے ہیں اور کچھ دعوت کا لطف اٹھاتے ہیں۔‘



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *