یوپی کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد امان، 14 سال کی عمر میں والدین کے سائے سے محروم، چھوٹی بہن کی خود پرورش کی

[]

محمد امان، جو 14 سال کی عمر میں والدین کے سائے سے محروم ہو گئے تھے، چھوٹی بہن کی انہوں نے خود پرورش کی، کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے، اب یوپی کرکٹ ٹیم کے کپتان ہیں

<div class="paragraphs"><p>یوپی کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد امان / تصویر آس محمد کیف</p></div>

یوپی کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد امان / تصویر آس محمد کیف

user

کرکٹ ورلڈ کپ کے جوش و خروش کے درمیان اتر پردیش سے ایک ایسی کہانی سامنے آئی ہے جو آپ نے پہلے کبھی نہیں سنی ہوگی۔ یہ کہانی یوپی کے سہارنپور سے تعلق رکھنے والے محمد امان نامی نوجوان کی ہے۔ محمد امان کو حالیہ دنوں میں یوپی انڈر 19 کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا گیا ہے۔ آل راؤنڈر محمد امان کا ٹیلنٹ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ وہ جن حالات میں یہاں تک پہنچے ہیں وہ ملک بھر کے نوجوانوں کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔

18 سالہ محمد امان سہارنپور کے خان عالم پورہ محلہ کے رہائشی ہیں۔ ان کے والد مہتاب عالم ایک عام ٹیکسی ڈرائیور تھے۔ ان کی موت 2019 میں ایک حادثے میں ہو گئی۔ ایک سال بعد امان کی والدہ بھی کورونا کے باعث انتقال کر گئیں۔ دو بہنوں کے اکلوتے بھائی امان نے 13 سال کی عمر میں کرکٹ کھیل کر کمائی ہوئی رقم سے اپنے خاندان کے لیے کھانے کا راشن خریدا۔ اپنے اسکول کی فیس خود ادا کرنے سے قاصر، امان نے اپنی چھوٹی بہن کی اسکول کی فیس میں کبھی تاخیر نہیں ہونے دی۔ صرف 18 سال کی عمر میں امان نے خاندان اور کرکٹ بیٹ دونوں کا وزن بہت اچھی طرح سے سنبھالا ہے۔

خان عالم پورہ کے مقامی رہائشی محمد ریاض کہتے ہیں۔ محمد امان بہت باصلاحیت کرکٹر ہیں لیکن ان کا جس طرح کا پس منظر تھا اس کے ساتھ وہ اسٹریٹ کرکٹ سے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ یہاں تک پہنچنا ایک کرشمہ ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ اس کے یہاں تک پہنچنے میں ان کی ماں کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ جب سب نے امان کو مالی حالات کی وجہ سے کھیلنے سے روکا تو اس کی والدہ اس کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ امان کی والدہ 2020 میں کورونا کی وجہ سے اس دنیا سے چلی گئیں۔ ریاض کے مطابق ان کی والدہ نے انہیں کرکٹ کھیلنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد ان کے کوچ راجیو گوئل نے ان کی بہت مدد کی۔

امان کی زندگی کس طرح تبدیل ہوئی یہ کہانی ان کے ساتھی کرکٹر مردول گرگ بیان کرتے یں۔ ان کا کہنا ہے کہ امان بھوتیشور کھیل کے میدان میں کرکٹ کھیلتا تھا۔ 2019 میں جب ان کے والد کا انتقال ہوا تو وہ کچھ دن کھیلنے نہیں آیا۔ وہ ہمارا دوست تھا اس لیے ہم سب اس کے گھر گئے۔ اس نے بتایا کہ اب وہ کرکٹ نہیں کھیل سکے گا۔ ان کی والدہ عدت میں تھیں۔ اس کے والد ایک عام ڈرائیور تھے۔ چونکہ وہ بہت اچھے بلے باز اور لیگ اسپن بولر ہیں، اس لیے میدان پر ان کی کمی محسوس کی گئی۔ کوچ سر راجیو گوئل چاہتے تھے کہ وہ کھیلنے آئیں، چنانچہ کچھ دنوں کے بعد والدہ کے اصرار پر امان نے کھیلنے آنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد 2020 میں امان کی والدہ کا کورونا سے انتقال ہو گیا لیکن تب تک امان کو یوپی 14 کی ٹیم میں منتخب کر لیا گیا تھا اور امید تھی کہ وہ اس میں ترقی کر سکیں گے۔

والدہ کے انتقال کے بعد امان نے دوبارہ کھیلنا چھوڑ دیا اور وہ خاندانی ذمہ داریوں میں الجھ گئے لیکن انہیں خاندان چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اور وہ کوئی اور کام نہیں جانتے تھے۔ سہارنپور کے مقامی کرکٹر سلمان منصوری بتاتے ہیں کہ امان نے پھر کھیلنا شروع کر دیا۔ مقامی میچوں میں جو میچ فیس انہیں حاصل ہوتی تھی اسی سے ان کے گھر کا راشن آتا تھا۔ سلمان بتاتے ہیں کہ وہ بہت دل لگا کر کھیلتے تھے اور کھیل کے میدان میں ہمیشہ سنجیدہ رہتے تھے، وہ ایک اچھے کھلاڑی ہیں۔ ایسے میں امان سہارنپور کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر اکرم سیفی کی نظروں میں آ گئے۔ وہاں سے یہ معاملہ بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا تک پہنچا۔

سہارنپور کے سابق کرکٹر فیاض عالم کا کہنا ہے کہ محمد امان کی اسپورٹس ٹیلنٹ اور جنگجو طبیعت کو دیکھ کر راجیو شکلا نے اکرم سیفی سے کہا کہ وہ محمد امان کی ہر ممکن مدد کریں، اس کے بعد اکرم سیفی نے اسکول کی فیس سے لے کر کھیل تک ہر جگہ امان کی مدد کی۔ محمد امان کا کہنا ہے ’’صحیح بات ہے ورنہ میں یتیم ہو چکا تھا اور میری کوئی امید باقی نہیں تھی۔ میں نے کرکٹ بھی چھوڑ دی تھی۔ پہلی بار میری والدہ نے مجھے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی اور دوسری بار اکرم سیفی سر نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔ میں انہیں اپنی ماں اور باپ کی جگہ رکھتا ہوں۔ میں جہاں ہوں اس میں ان کا بڑا کردار ہے۔‘‘

18 سالہ امان کو ونو مانکڈ ٹرافی کے لیے یوپی کی کمان سونپی گئی ہے۔ محمد امان اس سے قبل انڈر 14، انڈر 16 کھیل چکے ہیں۔ اس عرصے میں حالات نے اسے بہت توڑا۔ امان کا کہنا ہے کہ حالات نے انہیں بطور کھلاڑی مضبوط کیا ہے۔ عزم اور ذمہ داری کا یہی جذبہ ان کے کھیل میں بھی نظر آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد ہندوستان کے لیے کھیلنا ہے۔ پچھلے سال بھی ونو مانکڈ ٹرافی میں امان یوپی کی ٹیم کا حصہ تھے لیکن اس وقت یوپی کی ٹیم ہار گئی تھی لیکن اس بار وہ کپتان ہیں۔ محمد امان کا کہنا ہے کہ اس بار ان کا مقصد یوپی کی ٹیم کو یہ ٹرافی جتوانا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *