اسرائیل-فلسطین معاملہ میں ہندوستان کے لیے توازن قائم رکھنا کیوں لازمی!

[]

1988 میں ہندوستان ایک ملک کے طور پر فلسطین کو قبولیت دینے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھا، اور تب سے اس نے لگاتار اسرائیل کے ساتھ بات چیت میں ایک آزاد فلسطینی ملک کی وکالت کی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>پی ایم مودی، تصویر یو این آئی</p></div>

پی ایم مودی، تصویر یو این آئی

user

غزہ پٹی پر حکومت کرنے والے جنگجوؤں کے گروپ حماس اور اسرائیل کے درمیان تشدد کے بڑھنے کے ساتھ ہی ہندوستان کی حالت نازک اور چیلنج بھری ہو گئی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ہندوستان-اسرائیل کے رشتوں میں مضبوطی آئی ہے، کاص طور پر دفاعی اور سیکورٹی کے شعبہ میں۔ حالانکہ فلسطین ایشو کے تئیں ہندوستان کے تاریخ عزائم اور حل کے طور پر دو ممالک کے اصول پر اس کی حمایت آج کے غیر مستحکم ماحول میں اس کے رخ کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔

اسرائیل-فلسطین جنگ کا اثر صرف اس جغرافیائی علاقہ تک محدود رہنے والا نہیں۔ اس کا عالمگیر اثر پڑنے والا ہے، خصوصاً امریکہ کے کردار کی وجہ سے ہوئے ابراہم معاہدہ اور آئی2یو2 (ہندوستان، اسرائیل، امریکہ اور یو اے ای) گروپ پر، جو معاشی تعاون پر مرکوز ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان رشتوں کے معمول پر ہونے کی امیدیں بھی اب دور کی کوڑی نظر آ رہی ہیں۔ استھ ہی مجوزہ ہندوستان-مشرقی وسطیٰ-یوروپ معاشی گلیارے کے لیے بھی چیلنج آ کھڑا ہوا ہے کیونکہ حالیہ حملوں سے پورے علاقے کا امن تباہ ہو گیا ہے۔

فلسطینی مسئلہ کے لیے ہندوستان کی حمایت کی جڑیں گہری ہیں، جس کا تعلق 1947 میں اقوام متحدہ کے قرارداد 181 کی حمایت سے ہے، جس میں فلسطین کو الگ الگ یہودی اور عرب ممالک میں تقسیم کرنے کی بات تھی۔ 1988 میں ہندوستان ایک ملک کے طور پر فلسطین کو قبولیت دینے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھا، اور تب سے اس نے لگاتار اسرائیل کے ساتھ بات چیت میں ایک آزاد فلسطینی ملک کی وکالت کی ہے۔

اس کے برعکس ہندوستان نے کئی مغربی ممالک کے مقابلے میں، کافی بعد میں، 1992 میں اسرائیل کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ تب سے ہندوستان-اسرائیل تعلقات لگاتار بہتر ہوئے ہیں، خاص طور پر دفاع، ٹیکنالوجی اور زراعت جیسے شعبوں میں۔ یہ دوطرفہ رشتہ ہندوستان کے لیے ایک سفارتی چیلنج پیدا کرتے ہیں، جس سے جدوجہد کے اس انتہائی غیر مستحکم اور خطرناک مرحلہ میں ایک متوازن نظریہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

حالانکہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے متوازن نظریہ اختیار کرنے کی جگہ حماس کے حملے کو ’دہشت گردانہ حملہ‘ بتایا اور ’اسرائیل کے ساتھ اتحاد‘ کا اظہار کیا۔ حتیٰ کہ کچھ اسرائیلی اخبار، جیسے کہ طویل مدت سے شائع ہو رہے ’ہاریتز‘ تک حماس کو دہشت گرد گروپ یا 7 اکتوبر کو اس کے حملے کو دہشت گردانہ حملے کی شکل میں نہیں دیکھتے۔

بلاشبہ فلسطین کے لیے ہندوستان کی تاریخی حمایت میں گزشتہ 9 سالوں میں نریندر مودی کی ہندو نیشنلسٹ حکومت کے تحت ایک اہم تبدیلی آئی ہے، کیونکہ اسرائیل سے تعلقات نے اب نوآبادیات مخالف اتحاد سے آگے بڑھتے ہوئے یکسر مضبوط سیکورٹی اتحاد کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس تبدیلی کو جغرافیائی-سیاسی مفادات اور عمل درآمد کے نظریہ سے درست ٹھہرایا جا رہا ہے۔

فلسطین مسئلہ کے لیے ہندوستان میں عوام کی حمایت بڑے پیمانے پر ہے اور یہ ہندوستان کی 20 کروڑ کی مضبوط مسلم آبادی تک محدود نہیں ہے۔ مشہور جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے مودی حکومت نے کھلے طور پر اسرائیل کے ساتھ اتحاد کیا ہے، کیونکہ ہندوستان میں ہندو نیشنلسٹ اور اسرائیل میں ’زایونسٹ‘ مضبوط مذہبی ملک-ریاست کے تئیں یکساں عزم رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں آر ایس ایس اور بی جے پی ہندوستان کی ہندو شناخت کو مرکز میں رکھتے ہوئے ایک اکثریتی ملک کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے ہیں، جبکہ زایونسٹ اسرائیل میں یہودی مادرِ وطن کے قیام اور اس کی مضبوطی کی وکالت کرتے ہیں۔ یکساں اکثریتی نیشنلسٹ نظریے اور اسلاموفوبیا نے نریندر مودی کی قیادت والے ہندوستان اور بنجامن نیتن یاہو کی قیادت والے اسرائیل کے درمیان مضبوط تعاون اور دوستی کو جنم دیا ہے۔

فلسطین مسئلہ کی قیمت پر اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کا مضبوط اتحاد نریندر مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کے مفادات کو پورا بے شک کر دے، لیکن یہ ہندوستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی بین الاقوامی قانون پر عمل اور غیر جانبداری پر زور دیتی ہے، جو تنازعات کی غیر جانبداری اور پرامن حل یقینی کرتی ہے۔ ہندوستان کے لیے اپنے اصولوں کو بنائے رکھنے پرامن حل کی وکالت کرنے اور خارجہ پالیسی میں استحکام بنائے رکھنے کے لیے غیر جانبداری انتہائی اہم ہے۔

ہندوستان کے جانبدارانہ رخ اختیار کرنے سے بیرون ممالک میں مقیم مہاجر طبقہ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ان کے درمیان ہی مذہبی بنیاد پر شگاف پیدا ہو سکتے ہیں اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لیے سیاسی کوششیں پیچیدہ ہو سکتی ہیں۔ اپنی حالت کی دفاع اور اپنے قومی مفادات کو بنائے رکھنے کے لیے ہندوستان کو اسرائیل-فلسطین جنگ میں نیوٹرل یعنی غیر جانبدار رخ اختیار کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم مودی کو اپنی حالت پر از سر نو غور کرتے ہوئے یہ یقینی کرنا چاہیے کہ حماس کے ساتھ چل رہے پرتشدد جنگ میں ہندوستان کو اسرائیل کے ساتھی کی شکل میں نہ دیکھا جائے۔ ہندوستان کے رخ میں غیر جانبداری کو ترجیح دی جانی چاہیے، جس سے ملک کو امن کو فروغ دینے، اپنے جغرافیائی-سیاسی اور معاشی مفادات کی حفاظت کرنے، بین الاقوامی قوانین کو برقرار رکھنے، خارجہ پالیسی میں استحکام بنائے رکھنے اور مہاجر ہندوستان کی حفاظت کرنے کا موقع ملے۔

نیوٹرل حالت اختیرا کرنے سے بے شک سبھی فریق مطمئن نہ ہوں، شاید امریکہ بھی نہیں، لیکن یہ منصفانہ اور مستقل حل کی تلاش میں ہندوستان کو ایک ایماندار ثالث کی شکل میں ظاہر کر سکتا ہے۔ ایس کر کے ہندوستان غیر صف بندی اور سفارت کاری کے اپنے اصولوں کے تئیں ایماندار رہتے ہوئے پرامن اور مستحکم مشرق وسطیٰ کے تئیں اپنے عزائم ظاہر کر سکے گا۔ اسرائیل-فلسطین جنگ میں ہندوستان کا نازک کارِ توازن عالمی پلیٹ فارم پر امن، انصاف اور بین الاقوامی تعاون کے نہرووادی اصولوں کے تئیں اپنے عزائم کا بھی ثبوت ہوگا۔

(اشوک سوین ’اپسالا یونیورسٹی‘، سویڈن میں ’پیس اینڈ کنفلکٹ ریسرچ‘ کے پروفیسر ہیں)


;

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *