پاک افغان کشیدگی: دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات

[]

پاکستان کے وزیر خارجہ نے افغانستان کے اپنے ہم منصب سے تبت میں ملاقات کی۔ ادھر پاکستانی وزارت خارجہ نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ دو طرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ میں رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں۔

پاک افغان کشیدگی: دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات
پاک افغان کشیدگی: دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات
user

Dw

پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے چین کے خود مختار علاقے تبت میں تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان دونوں رہنماوں نے تبادلہ خیال کیا۔

پاکستان دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق جیلانی نے ان چیلنجز کا ذکر کیا جن کی وجہ سے علاقائی امن اور سلامتی کو نقصان پہنچ رہا ہے اور جن پر مشترکہ لائحہ عمل کے ذریعہ باہمی تعاون کے جذبے سے اقدامات کے ذریعہ قابو پایا جاسکتا ہے۔

گوکہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت کی مزید تفصیلات نہیں فراہم کی گئیں تاہم ذرائع کے مطابق افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا مسئلہ بات چیت کا اہم موضوع تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیلانی نے واضح طورپر کہا کہ افغانستان کو دہشت گرد گروپوں کے خلا ف اپنے وعدے کو پورا کرنا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق افغان وزیر خارجہ نے اپنی حکومت کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ کابل پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف کسی کو بھی اپنی سرزمین کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

پاک ۔ افغان تعلقات میں کشیدگی

خیال رہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات مزید کشیدہ ہوئے ہیں۔ پاکستان نے ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف افغانستان کی حکومت کو اقدامات کرنے پر مجبور کرنے کے لیے اس ہفتے متعدد فیصلے کیے۔ ان میں سے ایک پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ شامل ہے۔

پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن، جن میں افغان باشندے بھی شامل ہیں، کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ افغانستان نے اس اعلان کی مذمت کی ہے تاہم اسلام آباد کا موقف ہے کہ کارروائی کا ہدف کسی مخصوص ملک کے شہری نہیں ہیں۔

نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ‘یکم نومبر تک (غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی) رضا کارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک چلے جائیں، ورنہ انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگر پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد یکم نومبر تک اپنے ملک نہیں جاتے تو ہمارے تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں ڈی پورٹ کریں گے۔‘

پاکستانی حکومت کے مطابق ملک میں اس وقت 17 لاکھ سے زائد افغان بغیر قانونی دستاویزات کے ملک میں مقیم ہیں جب کہ لگ بھگ 14 لاکھ ایسے ہیں جنہیں قیام کے لیے پروف آف رجسٹریشن ‘پی او آر‘ کارڈز جاری کیے گئے ہیں۔

افغانستان کے کارگذار وزیر دفاع ملا یعقوب نے پاکستان کے اس فیصلے پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے “غیر انسانی اور بربریت پرمبنی” قرار دیا تھا۔ انہوں نے پاکستان کے مذہبی علما نیز عالمی برداری سے پاکستان سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے کے لیے اپیل کرنے کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ اس طرح کے کسی اقدام سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگی۔

‘دو طرفہ تجارت میں کوئی رکاوٹ نہیں’

پاکستان نے ان خبروں اور افغان حکام کے دعوؤں کی تردید کی ہے کہ دوطرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹرید کی راہ میں کسی طرح کی رکاوٹیں حائل کی جا رہی ہیں۔ اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی طرف سے دوطرفہ تجارت پر کڑی شرائط اور ٹرانزٹ ٹریڈ پر اضافی ٹیکس کے نفاذ سے افغانستان کی کارروباری برداری کو نقصان ہو رہا ہے۔

لیکن ان خبروں سے متعلق پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہاکہ ‘یہ معلومات غلط ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ جاری ہے۔ پاکستان نے جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ ہم موجودہ تجارتی سہولیات بشمول ٹرانزٹ ٹریڈ سہولیات کا غلط استعمال قبول نہیں کریں گے۔‘ زہرہ بلوچ کا کہنا تھاکہ حال ہی میں اٹھائے گئے اقدامات اور آنے والے دنوں میں کیے جانے والے فیصلے دونوں ملکوں کے درمیان طے طریقہ کار کے مطابق ہی ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *