[]
عبدالوہاب حبیب
بھارت میں مسلمان کئی صدیوں تک حاکم رہے اور اپنے دور حاکمیت میں ہم نے کبھی بھی اپنی شناخت محکوم قوموں پر لادنے کی کوشش نہیں کیں۔مغلیہ سلطنت ہو یا مملوک سلطنت، تغلقی ہویا لودھی حکومت ، بہمنی ہو یا غوری حکومت ، جتنی بھی حکومتیں بنیں، ہر کسی نے دیگر قوموں کو اپنا تشخص برقرار رکھنے کی آزادی دی۔ اپنی دور کی غیر مفتوح طاقتیں ہونے کے باوجودچند ایک کو چھوڑ کر مسلم حکمرانوں نے اپنی حکومتوں کو کسی حد تک مذہبیت سے دور رکھا اور اپنے اعلی عہدیداران میں سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو شامل کیا۔ انگریزوں کی آمد کے بعد مسلم حکمراں طبقہ محکوم ہوا اور پھر دھیرے دھیرے اس سے اس کی شناخت بھی چھینی جانے لگی۔ 1857میں سب سے زیادہ مسلمانوں کے جانی مالی نقصان کے بعد سے انگریزوں نے محسوس کیا کہ اگر دوبارہ اقتدار مسلمانوں کےہاتھوں چلا جاتا ہے تو پھر برطانوی حکومت کا سورج بھی غروب ہوگا کیونکہ یہاں دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی بستی ہے اور وہ یہاں حاکم وقت رہے ہیں۔ وقت کا پہیہ گردش کرتا رہا، انگریز جاتے جاتے ہندو مسلم نفرت کا زہر آلود بیج بو گئے۔ وہ بیج اب 75سالہ تناور درخت ہو گیا ہے اور اسی تناور درخت کی شاخیں پارلیمنٹ تک اور پہنچ چکی ہیں جہاں سے نفرت کے مزید بیج پورے ملک میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔اسکے زہریلے پھل تعلیمی اداروں، ٹرینوں اور دفتروں میں ملنے لگے ہیں۔ پارلیمنٹ جسے جمہوریت کا مندر کہا جاتا ہے وہاں ایک ممبر آف پارلیمنٹ اب سر عام ‘مسلم رکن پارلیمان کو دہشت گرد، کٹوا اور انتہا پسند کہہ رہا ہے۔ جس پارلیمنٹ میں ’ نیچ‘ اور چور جیسا لفظ بھی کسی دوسرے ممبر آف پارلیمنٹ کیلئے استعمال کرنا ممنوع ہے ‘وہاں اس طرح زبانی دہشت گردی ہو رہی ہے۔ رمیش بھدوری نامی بی جے پی رکن پارلیمان نے جمعرات کو جس طرح کی زبان پارلیمان میں استعمال کی ہے بے شک کسی سڑک چھاپ غنڈوں کی راستوں پر ہونے والی زبان ہے۔ بی جے پی نیتاؤں کی یہ پہلی کارستانی نہیں ہے۔ پہلے بھی راستوں پر ، سوشل میڈیا پر مسلمانوں کو ‘گولی مارو’ جیسے نعرے لگتے رہے ہیں اور اس کا اطلاق بھی ہوتا رہا ہے۔اب یہی کام ملک کے سب سے بڑے جمہوری مندر میں ہوا ہے۔ اس طرح سے آتنک پھیلانے کے اس واقعے کے رد عمل یقینا بین الااقوامی سطح پر دکھائی دیں گے کیونکہ یہ گالیاں صرف ایک مسلم ایم پی کو نہیں بلکہ اسلامو فوبیا کے زیر اثر پوری قوم کو دی گئی ہیں۔ یہاں سب سے اہم بات ہے کہ اب تک جو باتیں سڑکوں پر ہوتی رہی ہیں اب پارلیمنٹ کا حصہ بن گئی ہے۔ سب سے اہم مدعہ یہ ہے کہ جس قدر نفرت بھرے لہجے میں الفاظ استعمال کیے گئے وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت (یا یوں کہیے کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت) مسلمانوں کےلئے شناخت کے چیلنج کوظاہر کرتے ہیں۔ ملک میں دوم درجہ کے شہری بنانے کےلئے ہر کوشش ہو رہی ہے، شریعت پر آئے دن نت نئے بہانوں سے حملے عام ہو گئے ہیں۔ انہیں قانون کی آڑ میں مجبور کیا جا رہا ہے۔کیا وجہ ہے کہ کئی مسلم ممالک کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ 20 کروڑ کے لگ بھگ ہونے کے باوجود بھارت کے مسلمان حاشیے پر ہیں؟ ایسی کیا مجبوری ہے کہ مسلمان اپنے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں؟ اگر صرف اسے ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے ‘ شناخت’۔ جی ہاں ‘شناخت’ کیونکہ مسلمانوں کو خود اپنی ہی شناخت کا پتہ نہیں۔ وہ قوم جو مظلوموں کو ظلم سے بچانے اس بھارت میں آئی، جن کے دور حکومت میں لاکھوں مندر آباد رہے، جہاں سینکڑوں سالوں تک دیگر مذاہب کو اپنی شناخت پر برقرار رہنے کی آزادی دی گئی، آج وہی قوم اپنی شناخت سے محروم ہو تی جا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شناخت کے ساتھ ساتھ اب سیکوریٹی کا بھی چیلنج بڑھتا جا رہا ہے۔ اپنی حاکمیت کی ایک دہائی بھی پوری نہ کرنے والی حکومت اور اس کے کارندے بنیادی حقوق کو بھی جس طرح سلب کرنے کی سبقت لے جا نے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے ملک کا مستقبل غیر مستحکم ، غیر یقینی معاشی، سماجی اور جغرافیائی مسائل بڑھائے گا۔ یہ مسلم حقیقت ہے کہ حالات بدلنے کوئی ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا، بھارتی مسلمانوں کو اس کی دوا کرنی ہوگی جو کہ تعلیم و تربیت کی شکل میں ہی ہو سکتی ہے۔ تعلیم میں وہ مکمل معنی چھپے ہیں جس سے دنیا و آخرت کی فلاح کے علاوہ دیگر قوموں کی بھی امامت شامل ہیں۔ آپ صرف چند دنوں کی مہم، جلسے جلوس، پروگرامس اور اجتماعات کے ذریعہ حالات حاضرہ پر اشکباری سے اپنے فرائض سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ دیگر اقلیتوں سے ہی خود کا موازنہ کیجیئے۔ آپ ہر چند کے ہزاروں کروڑ روپیوں کی زکوۃ ، صدقات ، امداد اور نیکی کے کاموں پر خرچ کرتے ہوں لیکن منظم طور پر تعلیم و تربیت اور خاص طور پر سیکوریٹی کےلئے کتنا خرچ کر تے ہیں؟تنظیموں، مسالک،جماعتوں، کاروبار اور علاقایئت میں بنٹی قوم کیسے اپنے نفع اور نقصان کا احتساب کر سکتی ہے؟ گذشتہ کئی دہائیوں سے ہم صرف درپیش مسائل کو گردانتے ہوئے ہمارے اذہان اور نسلوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری قوت ، متحدہ کاوشیں ہماری اپنی شناخت بنانے پر صرف ہوتی تو اسکے نتائج مختلف ہوتے۔ آج بھی وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اگر ہمیں ہماری شناخت ، ہمارا وقار ، ہماری ساکھ دوبارہ بحال کرنا ہوں تو زمانے کے تغیر کو بھانپنا ہوگا، اس کے ہمقدم چل کر نسل نو کو پیغام دینا ہوگا ورنہ ظالم قومیں محکوموں کو احساس کمتری میں مبتلا کرواکر پہلے غیر متحرک طبقے میں تبدیل کرتی ہیں اور پھر اس کی شناخت ہمیشہ کےلئے مٹا دیتی ہیں۔