[]
شمیم طارق نے کہا کہ سر سید نے بے شک بہت کچھ بنایا مگر چندے سے بنایا مگر حکیم عبد الحمید نے کبھی کوئی چندہ نہیں لیا اور جامعہ ہمدرد کھڑا کردیا۔
جس شاخ پر جتنے زیادہ پھل آتے ہیں،وہ اتنی ہی جھکی ہوئی ہوتی ہے۔حکیم عبد الحمید نے تا عمر انسانی اقدار کی پاسداری اور فیض رسانی کی اور کبھی کسی سے تکبر یا بدزبانی کا معاملہ نہیں کیا، اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ وہ ہمیشہ شاخ با ثمر بن کر رہے۔ان خیالات کا اظہار مشہور نقاد ،محقق، شاعر اور کالم نگار شمیم طارق نے غالب اکیڈمی میں حکیم عبد الحمید میموریل لیکچر دیتے ہوئے کیا۔
انھوں نے کہا کہ فلاح عامہ کے جو کام انہوں نے کئے، ان میں کچھ سے دنیا واقف ہے، بیشتر کوانہوں نے ظاہر نہیں ہونے دیا اور کچھ کے بارے میں ہم جانتے ہی نہیں مثلاً اگر انہوں نے بر وقت بڑی رقم کا چیک نہ دیا ہوتا تو انڈیا اسلامک سینٹر کی زمین حاصل ہی نہ ہوتی۔
شمیم طارق نے مزید کہا کہ ان کی وراثت یہ نہیں کہ جو کچھ ہے، اس کی تقسیم اور حصول کے لیے آپس میں جھگڑے کئے جائیں بلکہ ان کی وراثت یہ ہے کہ دولت اور حصول دولت کے نئے ذرائع پیدا کرکے سب کو ملت کی فلاح کے لیے وقف کردیا جائے۔ان کے قائم کئے ہوئے یا سرپرستی میں چلنے والے کم و بیش25ادارے ہیں جن میں ہمدرد لیبارٹریز،غالب اکیڈمی،جامعہ ہمدرد کو بہت شہرت حاصل ہے مگر اس حقیقت کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے کہ انہوں نے ہسٹاریکل ریکارڈس کو سنبھالنے اور ملازمت فراہم کرنے والے ادارے بھی قائم کئے تھے۔ ملت میں بڑھتی ہوئی گداگری اور چندہ خوری پر افسوس کا اظہار تو چند لوگوں نے کیا بھی ہے مگر گداگری اور چندہ خوری کے انسداد کی عملی تدابیر صرف حکیم عبد الحمید مرحوم نے بتائی ہیں۔
شمیم طارق نے کہا کہ حکیم عبد الحمید نے اشاعت علم کے سلسلے میں جو خدمات انجام دی ہیں، جامعہ ہمدرد جیسے ادارے قائم کئے ہیں، اس کا تو کسی نہ کسی سطح پر اعتراف ہوا بھی ہے مگر توہم سے نجات کی جو مثالیں قائم کی ہیں ان کا ذکر تک نہیں ہوتا مثلاً تغلق آباد کی اس زمین کے بارے میں جہاں آج جامعہ ہمدرد قائم ہے۔ مشہور تھا کہ کسی فقیر نے بدعا دی ہے کہ یہ جگہ کبھی آباد نہیں ہوگی مگر دنیا دیکھ ر ہی ہے کہ یہاں درس گاہ،دفاتر، رہائشی مکانات اور ہاسٹل کس طرح آباد ہیں اور دوسروں کے آباد ہونے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
شمیم طارق نے کہا کہ میں سر سید احمد خان کا شیدائی ہوں اور ان کی قائم کی ہوئی یو نیورسٹی کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں،ان سے محبت کے سبب میں ایک ادا ر ے سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوا مگر پروفیسر نثار احمد فاروقی کے اس احساس سے اتفاق کرتا ہوں کہ سر سید نے بے شک بہت کچھ بنایا مگر چندے سے بنایا مگر حکیم عبد الحمید نے کبھی کوئی چندہ نہیں لیا اور جامعہ ہمدرد کھڑا کردیا۔
مسٹرشمیم طارق نے اپنی تقریر میں حکیم عبد الحمید کی شخصیت اور خدمات ،ماضی سے نسبت اور مستقبل بینی کے اتنے اور ایسے ایسے گوشے روشن کیے کہ سامعین حیران رہ گئے۔غالب اکیڈمی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ حکیم صاحب نے اکیڈمی کی عمارت تعمیر کرنے سے پہلے غالب کی اور غالب سے متعلق نادر تحریروں کو جمع کرلیا تھا۔آج یہاں غالب میوزیم قائم ہے۔کلاسز چلتی ہیں،ادبی اور تہذیبی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور یہاں کی لائبریری سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح ان کی فیض رسانی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ سینٹر فار ایڈوانس سوشیولیگل اسٹڈیز،بزنس اینڈ ایمپلائمنٹ بیورو، ہمدرد انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل ریسرچ،سینٹر فار فیڈرل اسٹڈیز تو ایسے ادارے اور شعبے ہیں، جن کو قائم کرنے میں حکیم صاحب کی بصیرت اور عزائم دونوں کا دخل تھا۔ ان کے کارنامے اتنے زیادہ ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص نے کسی سے چندہ لیے بغیر اتنے ادارے اور شعبے قائم کیسے کیے؟ حکیم صاحب برسہابرس رام لیلا کمیٹی کے بھی سرپرست رہے۔
پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ حکیم صاحب کا معمول صبح کی سیر کرنا تھا۔ وہ ایران بھی گئے۔ وہاں جاتے وقت جہاز پر ایک شخص کا علاج کیا، جس سے ایران کے لوگ ان کے معترف ہوگئے۔
ڈاکٹر گلشن رائے کنول نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ شمیم طارق کا لیکچر واقعی یادگاری ہے۔ ان کو بہت واقفیت ہے اپنے تجربات بیان کئے۔ دل کو چھولینے والی بات کی ہے۔حکیم صاحب کم بولتے،کم کھاتے، کم سوتے تھے۔ حکیم صاحب کا مقصد زندگی کو بہتر بنانا تھا۔ خواجہ سید محمد نظامی نے اظہار تشکر اور دعائیہ کلمات ادا کئے۔ اس جلسے میں کثیر تعداد میں اطبا،شعرا ،ادبا اور دانشوران دہلی موجود تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;