وسطی افریقہ کے ایک سرسبزو شاداب ملک زامبیا میں چند دن

[]

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(۲)

نماز جمعہ کے بعد اسی محلہ میں واقع جامعہ زینب کی شاخ میں کھانے کا اہتمام تھا، جہاں پاکستان کے ایک عالم مولانا جلیل اخوند بھی تشریف لائے، وہ غائبانہ واقف تھے، کہنے لگے کہ میں کتابوں کے ذریعہ آپ کا شاگرد ہوں، بڑی محبت اور جذبہ احترام سے ملے، اسی ادارے میں ۳؍ بجے سے خواتین کے لئے مولانا عمر عابدین سلمہ کا خصوصی خطاب ہوا، جو بہت پسند کیا گیا، آج ہی نماز عشاء کے بعد مدرسہ بستان الہدایہ میں علماء کا خصوصی پروگرام تھا، جہاں راقم الحروف کا اور مولانا عمر عابدین سلمہ کا خطاب ہوا، راقم کے خطاب کا موضوع یہ تھا کہ غیر مسلم اکثریت ملکوں میں ہمارا طرز زندگی کیا ہونا چاہئے؟ اور کس طرح ہمیں ایمان کی حفاظت پر توجہ دینی چاہئے؟

اس ادارہ کے ذمہ دار حاجی اسماعیل پٹیل ہیں، جو بڑے ظریف آدمی ہیں، یہیں پر پُر تکلف عشائیہ بھی ہوا، بڑی تعداد میں علماء پروگرام میں شریک تھے، زیادہ تر فضلاء پڑوسی ملک کے جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے فارغین تھے، کچھ جنوبی افریقہ کے مدارس دارالعلوم زکریا اور دارالعلوم آزادوِل کے فضلاء تھے، سبھی حضرات نے بڑی توجہ سے اس حقیر کی معروضات کو سنا، اور نیاز مندانہ پیش آئے، یہیں ایک صاحب نے بتایا کہ پڑوسی ملک کے وفاق المدارس نے اس حقیر کی متعدد کتابوں کو داخل نصاب کیا ہے۔

جمعہ کے لئے جاتے ہوئے مولانا محمد علی صاحب ناظم جامعہ زینب ہم لوگوں کو سیاہ فام آبادی کی طرف سے لے کر گئے، گرتے پڑتے مکانات، گندی نالیاں، کچے راستے اور شہر کی رونق سے محروم کچے گھروں کی ایک طویل قطار تھی، جہاں سے ہم لوگ گزرے، راستے ایسے ناہموار اونچے نیچے کہ ہمیں ہندوستان کی چالیس سال پہلے کی دیہاتوں کی کچی پکی سڑکیں یاد آگئیں، جو فرق ہمارے ملک میں شہر کے نئے اور پرانے حصہ میں پایا جاتا ہے، یہاں اس سے زیادہ تھا، واپسی شہر کے نئے علاقہ سے ہوئی، جہاں خوبصورت مکانات، کشادہ سڑکیں اور کاروں کی بہتات تھی، یہ دیکھ کر اس احساس نے پھر انگڑائی لی کہ ترقی پذیر ملکوں میں امیر اور غریب کے درمیان معیار کے اعتبار سے گویا سات سمندر کا فاصلہ ہے، مسلمانوں کے لئے اس میں جو بات خوش آئند ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی اگرچہ کم ہے؛ لیکن معیشت میں ان کا حصہ اچھا خاصا ہے اور ان کا شمار یہاں کے اہل ثروت میں ہے۔

۲۴؍ جولائی ۲۰۲۳ء کو دو پروگرام تھے، جن کے لئے اصل میں مجھے مدعو کیا گیا تھا، ایک جامعہ زینب میں تقسیم اسناد، یہ پروگرام ظہر سے پہلے ہوا، ۲۰۰۹ء میں پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی نے اس کی بنیاد رکھی، اور مولانا طلحہ متالا کو اس کا ذمہ دار بنایا، یہ ایک کامیاب ادارہ ہے، جس میں دینی وعصری تعلیم کا توازن کے ساتھ امتزاج ہے، یہاں ۸۰؍ طالبات آن لائن اور اتنی ہی تعداد آف لائن پڑھتی ہیں، پہلا بیچ ۲۰۱۳ء میں دورۂ حدیث سے فارغ ہوا، اور ابھی بھی یہاں ۸؍ ملکوں کی طالبات زیر تعلیم ہیں، مدرسہ کی عمارت اور اس کا احاطہ دو ایکڑ زمین پر مشتمل ہے، اور اس کی شاخیں اس کے علاوہ ہے۔

آج ہی بعد نماز مغرب جامعہ اسلامیہ میں اساتذہ اور طلبہ سے خطاب تھا، ماشاء اللہ اس ادارہ کا احاطہ ۱۶؍ایکڑ زمین پر مشتمل ہے اور ۲۰؍ ملکوں کے دو سو سے زیادہ طلبہ یہاں زیر تعلیم ہیں، زیادہ تر طلبہ افریقی ممالک کے ہیں، بعض ہندو پاک کے بھی طلبہ ہیں، اس ادارہ کے مہتمم مولانا یوسف صاحب ہیں، جو فعال اور منتظم مزاج شخصیت کے مالک ہیں، اور نائب مہتمم مولانا ادریس صاحب ہیں، جو بڑے عالم نواز اور محبت کرنے والی شخصیت ہیں، اس ادارہ کے شعبہ افتاء کے استاذ چترال پاکستان کے مفتی عبدالجبار صاحب ہیں، جو ذہین اور با صلاحیت علماء میں ہیں، اور یہاں تخصص فی الفقہ کے شعبہ کے ذمہ دار ہیں، وہ پورے سفر میں شروع سے آخر تک بڑے جذبۂ محبت واحترام سے سرشار ہو کر ساتھ ساتھ رہے، اس ادارہ کے تحت دعوتی نقطۂ نظر سے کتابیں بھی شائع کی جاتی ہیں، رفاہی کام بھی کئے جاتے ہیں اور دنیا بھر کے ممتاز اہل علم کو زامبیا میں مدعو بھی کیا جاتا ہے، اس کے لئے وہاں کے بعض فضلاء نے’’ الکہف آرگنائزیشن‘‘ قائم کر رکھی ہے، کئی نوجوان حضرات اس ادارہ کو چلا رہے ہیں۔

۲۳؍ جولائی کو میزبانوں نے ایک خوبصورت تفریحی پروگرام رکھا تھا، ہم لوگوں کو ہوائی جہاز سے لوکاسا سے لیونگ اسٹون لے جایا گیا، جہاز کیا تھا، بس ایک بڑا سا ہیلی کاپٹر تھا، ملک بھر سے لوگ چھٹی کے دنوں میں لیونگ اسٹون جاتے رہتے ہیں، جس جہاز میں ہم لوگ سوار کئے گئے، وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اگر اسے بڑا ہیلی کاپٹر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، سیٹیں اتنی چھوٹی کہ سکڑ کر بیٹھنے کے سوا چارہ نہیں اور بدانتظامی کا یہ حال کہ چند مسافر جو اس جہاز کے پیسنجر نہیں تھے ، وہ بھی غلطی سے اس میں آکر بیٹھ گئے، جہاز کے عملہ کو پتہ بھی نہیں چلا ، پھر بعد میں ان کو اتارا گیا، اور اسی منزل کی طرف جانے والی دوسری فلائٹ میں بٹھایا گیا، پیسنجر پیدل ہی میدان عبور کر کے فلائٹ تک پہنچتے ہیں، ائیرپورٹ کے اندر بسوں کا تکلف نہیں ہے، بہر حال لیونگ اسٹون ایک خوبصورت اور درختوں سے ڈھکا ہوا شہر ہے، یہیں ایک ہوٹل وکٹوریہ اپارٹمنٹ میں ہم لوگوں کے قیام کا انتظام کیا گیا، یہ کافی بڑا اور خوبصورت احاطہ ہے، جس میں کئی مکانات بنے ہوئے ہیں، اور ہر طرف سبزے بچھے ہوئے ہیں، ہر قیام گاہ ایک مستقل مکان کی طرح ہے، جس کے باہر بر آمدہ بھی ہے، رہائش کی تمام سہولتیں ہیں اور بڑا ہی پُر کیف منظر ہے، یہاں سے ہم لوگوں کو چار بجے جنگل کی طرف لے جایا گیا، جو بہت بڑا نیشنل پارک ہے، اس میں درندہ جانور نہیں ہیں، کثرت سے ہرنیں، ژراف، زیبرا، نیل گائے وغیرہ ہیں، ژراف تو پہلے بھی دیکھے تھے؛ مگر ان کو دوڑتے ہوئے پہلی بار دیکھا، یہ عجیب منظر ہوتا ہے، ایک بہت بڑا سا گینڈا بھی ہے، جس کو بہت حفاظت سے رکھا گیا ہے؛ کیوں کہ یہا ں پہلے گینڈے بڑی تعداد میں تھے؛ لیکن غالباََ اس کی سینگ بہت قیمتی ہوتی ہے؛ اس لئے شکاریوں نے بڑی تعداد میں ان کا شکار کر لیا، یہاں ہم لوگوں کو ایک صالح نوجوان حارث قریشی نے جو اصلاََ جے پور کے رہنے والے ہیں، اور خاندانی طور پر ہیرے کے تاجر ہیں؛ مگر اب زامبیا کے شہری ہیں،ائیرپورٹ سے لیا اور پورے جنگل کی سیر کرائی، یہاں تک کہ شام میں ہم لوگ اسی جنگل سے گزرنے والی طویل ندی کے پاس جا کر رکے، کچھ دیر ہوا خوری کی اور وہیں چائے وغیرہ پی، بہر حال یہ بہت پُر لطف سفر تھا، جس میں اتھاہ جنگل اور اس میں دوڑ بھاگ کرنے والے جنگلی جانوروں کا خوبصورت منظر دل ونگاہ کے لئے باعث کشش تھا، ایسے مواقع پر اللہ کی قدرت بھی بار بار ذہن کو متوجہ کرتی ہے کہ اللہ نے اس کائنات میں کیسی کیسی چیزیں پیدا کی ہیں، جو اس کی شان ربوبیت کا بہترین مظہر ہیں، آفاق وانفس کی اس بارات کو دیکھ کر بھی اگر انسان کا خدا پر یقین قائم نہ ہو تو اس سے بڑا محروم کون ہوگا؟

اگلی صبح سورج چڑھتے ہم لوگ یہاں کے مشہور وکٹوریہ آبشار کی طرف چلے، کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا آبشار ہے، میں اس سے پہلے کناڈا کے نیا گرہ فال بھی جا چکا ہوں، عام طور پر اس کو دنیا کا سب سے بڑا آبشار قرار دیا جاتا ہے؛ وکٹوریہ آبشارکی اونچائی ۱۰۸؍ میٹر اور چوڑائی ۱۷۰۸؍ میٹر ہے، یہ آبشار زامبیا اور زمبابوے کے سنگم پر واقع ہے اور اس کا ایک حصہ زمبابوے میں ہے، میں نے اس آبشار کو عقبی جانب سے بھی دیکھا جہاں سے پانی کی تیز لہریں جاتی ہیں، سامنے کی طرف سے بھی دیکھا جہاں پانی زمین پر گرتا ہے، دونوں ہی طرف کا منظر خوب سے خوب تر ہے، اور ہرے بھرے جنگلات نے اس کے حسن کو اور دوبالا کر دیا ہے، مولانا عمر عابدین سلمہ نے آج صبح سویر کشتی پر سوار ہو کر آبشار کے بالکل نیچے کی سیر کی، جو کافی نیچے ہے اور دور سے خاصا خوفناک معلوم ہوتا ہے، انھوں نے آج کی صبح ایک اور مہم جوئی بھی کی ، اسی شہر کے ایک چھوٹے سے جنگل میں سدھائے ہوئے کھلے شیر بھی ہیں، جن لوگوں میں ہمت اور شوق ہو، وہ ان شیروں کی ہمراہی میں چہل قدمی کرتے ہیں، انسان بھی چلتا ہے اور ساتھ ساتھ شیر بھی چلتا ہے، اور شیر کا نگراں بھی حفاظتی ہتھیار کے ساتھ رہتا ہے، وہاں آنے والے حضرات عموماََ یہ شوق پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مجھ سے بھی لوگوں نے چلنے کو کہا، میں نے کہا : ہمارے ملک میں انسان کی شکل میں اتنے درندے موجود ہیں کہ کسی اور درندے کے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں، اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے میزبان مولانا طلحہ صاحب -جن کا ماشاء اللہ تبلیغی جماعت سے بڑا تعلق ہے-نے بھی پہلے اسی طرح شیر کے ساتھ چہل قدمی کی تھی، کسی نے ان کی تصویر لے لی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی ، بعض خوش عقیدہ حضرات نے اس پر یہ نوٹ لکھا کہ جب آدمی اللہ کا ہو جاتا ہے اور اس کے راستے میں نکلتا ہے تو شیر خود اس کو راستہ بتاتا ہے، انسان چوں کہ عجوبہ پسند واقع ہوا ہے؛ اس لئے ایسی باتیں اس کو بہت متأثر کرتی ہیں؛ حالاں کہ انسان کے مجاہدہ کے بغیر اس کو کوئی غیر معمولی بات حاصل ہو جائے تو کوئی کمال نہیں ہے، کمال تو دین کی راہ میں مشقت ومجاہدہ ہے؛ چنانچہ یہ تصویر بہت وائرل ہوگئی اور اس کو دعوت وتبلیغ کے کام میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جانے لگا، ہم لوگ وہاں سے سرِ شام فلائٹ کے ذریعہ لوکاسا واپس آگئے۔

۲۶؍ جولائی زامبیا میں ہمارے قیام کا آخری دن تھا، اور آج دو اداروں کا معائنہ تھا، یہ دونوں ادارے لوکاسا کے معروف محلہ مکینی میں واقع ہیں، ایک:دارالیتامی، دوسرے: دارالعلوم رحمانیہ، تقریباََ ۱۱؍ بجے ہم لوگ دارالیتامی پہنچے، یہاں ۲۰۰؍ وہ طلبہ مقیم ہیں، جن کے والدین میں سے ایک یا دونوں نہیں ہیں، یا ہیں لیکن کوئی ان کی پرورش کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، اساتذہ کی تعداد ۲۰؍ ہے، دینی وعصری تعلیم کا امتزاج ہے، بارہویں تک تعلیم دی جاتی ہے، اس کے بانی گجراتی نسل کے ایک دین دوست بھائی جناب اسماعیل صاحب ہیں، ۲۰؍ سال اس کے قیام کو ہو چکا ہے؛ لیکن ۱۲؍ سال پہلے اس کے انتظام وانصرام کی تجدید کی گئی ہے، یہ ادارہ دس ایکڑ سے زیادہ پر واقع ہے، یہاں گھوڑے بھی ہیں، سوئمنگ پُل بھی ہے، اہم بات یہ ہے کہ یہاں اساتذہ اور طلبہ کی بڑی تعداد سیاہ فام مسلمانوں پر مشتمل ہے؛ لیکن انتظام اور وسائل کی فراہمی گجراتی نژاد مسلمانوں کی طرف سے ہے، یہاں اساتذہ سے ملاقات ہوئی اور تھوڑی دیر اُن سے گفتگو کا بھی موقع ملا، بڑی خوشی ہوئی، ماشاء اللہ یہ حضرات بڑے فکر مند اور باشعور نظر آئے، آج ہی عصر سے پہلے ائیرپورٹ جاتے ہوئے دارالعلوم رحمانیہ لے جایا گیا جو اسلامک ایجوکیشنل ٹرسٹ زامبیا کے تحت چلتا ہے، یہاں ۲۸۰۰؍ کے قریب طلبہ ہیں اور بڑی تعداد سیاہ فام طلبہ کی ہے، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ نے ۱۹۸۱ء میں جنوبی افریقہ سے واپس آتے ہوئے یہاں اس ادارہ کی بنیاد رکھی تھی، پہلے بانی مدرسہ کے گھر میں مدرسہ کا آغاز ہوا، اور اب یہ وسیع میدان اور خوبصورت وکشادہ عمارتوں کے ایک احاطہ میں اپنی خدمت انجام دے رہا ہے، یہاں بھی تعلیم کی اہمیت اور تعلیم کے ساتھ دعوت دین کی ضرورت پر اساتذہ وطلبہ سے کچھ عرض کرنے کا موقع ملا، یہاں سے ہم لوگ ائیرپورٹ روانہ ہوئے، راستہ میں اسی فارم ہاؤس پر عشاء کی نماز اور عشائیہ کا اہتمام ہوا، جہاں زامبیا میں داخل ہوتے وقت عصر کی نماز ادا کی تھی، خوشگوار موسم، اچھے ماحول میں سبزہ زاروں اور باغات کے بیچ بیٹھ کر نماز ادا کرنے اور کھانے میں بڑا لطف آیا اور اللہ کی یاد بھی تازہ ہوئی کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے کیسی کیسی نعمتیں اس فانی دنیا میں پیدا کر دی ہیں کہ جن کو دیکھ کر جنت کا گمان ہوتا ہے، ہم لوگ یہاں سے سیدھے لوکاسا ائیرپورٹ آئے، ہمارے ساتھ دوستوں کا اچھا خاصا وفد تھا، جنھوں نے دعاؤں کی سوغات کے ساتھ ہم لوگوں کو رخصت کیا اور رات کے ابتدائی حصہ میں فلائٹ میں بیٹھ کر اور دبئی میں کچھ وقت گزارتے ہوئے ۲۷؍ جولائی ۲۰۲۳ء دو بجے دن میں ہم لوگ دہلی پہنچ گئے۔

اس پورے سفر سے بحیثیت ایک مسلمان ہم نے جو سبق حاصل کیا، وہ یہ ہے کہ:

۰غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو آگے بڑھ کر اپنے ہم سایوں کے ساتھ بہتر تعلقات بنانا چاہئے، اور ان میں دعوت کا کام کرنا چاہئے۔

۰مقامی مسلم آبادی کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرنا چاہئے اور رشتہ داریوں سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے، جیسا کہ مہاجرین نے مدینہ میں کیا تھا۔

۰ملک کے اندر یا ملک کے باہر اگر مسلمان ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں منتقل ہوں تو ان کو الگ تھلگ نہیں رہنا چاہئے؛ بلکہ مسلمان جس سماج میں پہنچیں وہاں کسب معاش کی بھر پور جدو جہد کریں اور اپنے آپ کو اس لائق بنائیں کہ ان کا ہاتھ دینے والا ہاتھ بنے نہ کہ لینے والا ، اس کے لئے سب سے مفید طریقہ تجارت کا ہے، نہ اس میں سرکار کی محتاجی ہے اور نہ کسی کمپنی کی ملازمت ضروری ہے، جہاں بھی مسلمانوں نے تجارت کا راستہ اختیار کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی۔

۰مسلمان جہاں کہیں بھی رہیں، وہ اپنی آنے والی نسلوں کے ایمان کو باقی رکھنے کی فکر سے کبھی غافل نہ ہوں اور اس کے لئے دو باتیں بہت اہم ہیں، ایک: بنیادی دینی تعلیم کے لئے مکاتب کا نظام، دوسرے: اسلامی اسکولوں کا انتظام اور اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے حسب ضرورت مدارس کا قیام؛ تاکہ دین کے تمام شعبوں کے لئے افراد کار مل سکیں۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *