صنفی مساوات کا ہدف 2030 تک حاصل کرنا ممکن نہیں، اقوام متحدہ

[]

دنیا میں سن 2030 تک صنفی مساوات حاصل کرنے کا ہدف اب تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ خواتین کے ساتھ تفریق کی وجہ سے متعدد اہم شعبوں میں برابری کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔

صنفی مساوات کا ہدف 2030 تک حاصل کرنا ممکن نہیں، اقوام متحدہ
صنفی مساوات کا ہدف 2030 تک حاصل کرنا ممکن نہیں، اقوام متحدہ
user

Dw

اقوام متحدہ نے جمعرات کے روز ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس عالمی ادارے کی طرف سے سن 2030 تک صنفی مساوات حاصل کرنے کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا، وہ دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ صحت، تعلیم، روزگار اور اقتدار کے شعبوں میں گہرائی تک پیوست تفریق کی وجہ سے حاصل کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی امور سے متعلق شعبے کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ “خواتین اور لڑکیوں کو اختیارات دینے کے معاملے میں دنیا ناکام رہی ہے۔”

صنفی مساوات میں کم سرمایہ کاری

‘دی جینڈر سنیپ شاٹ 2023 ‘ نام سے جاری اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی مساوات کو واضح طورپر مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اہم شعبوں میں مسلسل کم سرمایہ کاری بھی اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے اور کئی شعبوں میں تو جو ترقی ہوئی تھی وہ بھی پیچھے چلی گئی ہے۔

اس میں کہا گیا کہ “صنفی اور تولیدی صحت تک نا مساوی رسائی، نامساوی سیاسی نمائندگی، اقتصادی تفاوت اور قانونی تحفظ کی کمی ان مسائل میں شامل ہیں جوٹھوس ترقی کے راستے کو مسدود کر رہے ہیں۔”

اقوام متحدہ کی نائب سکریٹری جنرل ماریا فرانسسکا اسپاٹولیزانو نے ایک پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کو جاری کرتے ہوئے کہا کہ صنفی مساوات ایک مسلسل دور ہوتا ہوا ہدف بنتا جا رہا ہے۔ جنگ زدہ اور غریب علاقوں میں رہنے والی خواتین کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران جو ترقی ہوئی تھی اب وہ بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔

اقوام متحدہ نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے 17 شعبوں میں اہداف حاصل کرنے کی بات کہی تھی۔ غربت کا خاتمہ سے لے کر تعلیم اور ماحولیاتی تبدیلی کے شعبوں میں طے کیے گئے ان اہداف کو سن 2030 تک حاصل کرنا تھا۔ رپورٹ میں انہیں اہداف میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تصویر بہت مایوس کن ہے اور اس کا سبب حکومتوں کی جانب سے ان کا ‘سردمہری’ کا رویہ ہے۔

خواتین کی غربت کو دور کرنے کے ہدف کے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج بھی دنیا میں ہر دس میں سے ایک خاتون یعنی تقریباً10.3 فیصد خواتین 2.15 ڈالر یومیہ پرزندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو سن 2030 تک 8 فیصد خواتین اسی سطح پر آجائیں گی۔ ان میں سب سے زیادہ خواتین سب صحارا افریقہ میں رہتی ہیں۔

ترقی کی رفتار کم ہوتی ہوئی

تعلیم کے شعبے میں ہونے والی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں مجموعی طور پر ترقی تو ہوئی ہے لیکن آج بھی کروڑوں لڑکیاں ہیں جنہوں نے اسکول کا کبھی منہ نہیں دیکھا۔ ان میں سے بیشتر تصادم والے علاقوں میں رہتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کا ہدف ہے کہ ہر بچے کو کم از کم دسویں درجے تک تعلیم دستیاب ہو لیکن طالبان نے افغانستان میں لڑکیوں کی ابتدائی تعلیم کے آگے پڑھنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ رپورٹ کے مطابق “سن 2023 تک پوری دنیا سے 12.9 کروڑ لڑکیاں اسکولوں سے باہر ہوسکتی ہیں اور اگر ترقی کی یہی رفتار برقرار رہی تو سن 2030 تک گیارہ کروڑ لڑکیاں ایسی ہوں گی جو اسکول نہیں جا رہی ہوں گی۔”

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو لائق احترام کام فراہم کرنے کا ہدف بھی دسترس سے بہت دور ہے۔ سن 022 میں 25 سے 54 برس کے عمر کی صرف 61.4 فیصد خواتین کو ہی ملازمت حاصل تھی جب کہ مردوں کے معاملے میں یہ تعداد 90.6فیصد تھی۔ اس کے ساتھ ہی خواتین کو مردوں کے مقابلے کم تنخواہ کا درد بھی جھیلنا پڑرہا ہے۔

مردوں سے پیچھے

رپورٹ کہتی ہے کہ، “سن 2019 میں مردوں کو ملنے والے ایک ڈالر کے مقابلے میں خواتین کو صرف 51 سینٹس یعنی تقریباً نصف ہی مل رہا تھا۔” مستقبل میں روزگار کے شعبوں مثلاً سائنس، ٹیکنالوجی، اختراعات کے متعلق رپورٹ کہتی ہے، “مسلسل موجود رکاوٹوں کی وجہ سے خواتین کا کردار محدود ہے، جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) جیسے شعبوں میں نمایاں دکھائی دے رہا ہے۔”

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “سن 2022 میں جن محققین نے اپنی دریافتوں کے لیے پیٹنٹ کی درخواستیں دی ہیں ان میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے پانچ گنا کم تھی۔ سن 2020 میں دنیا بھر میں تحقیقات کے شعبوں میں ہر تین مردوں میں صرف ایک خاتون تھی۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) شعبوں میں ملازمتوں میں تو ہر پانچ میں صرف ایک ہی خاتون تھی۔”

اقوام متحدہ کا ایک مقصد خواتین کو فیصلہ سازی والے عہدوں پر برابری دلانا ہے۔ لیکن رپورٹ کے مطابق پوری دنیا کے قانون سازوں میں خواتین کی تعداد صرف 26.7 فیصد ہے۔ مینجمنٹ کی سطح پر بھی خواتین کی تعداد محض 28.2 فیصد ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


;



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *