طوفان الاقصی، صہیونیستوں کی شکست کے 12 اسٹریٹجک عوامل

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کو غاصب صہیونی حکومت کے خلاف وسیع اور کامیاب آپریشن کیا گیا جس کے جواب میں صہیونی حکومت نے غزہ میں فلسطینی نہتے شہریوں اور سویلین تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ بڑے پیمانے پر مظالم کے باوجود صہیونی حکومت کو مقاومت کے ہاتھوں شکست ہوئی اور دنیا میں صہیونی حکومت کی کھوکھلی طاقت کا بھرم ٹوٹ گیا۔

فلسطینی تحقیقاتی مرکز نے طوفان الاقصی آپریشن کے دوران صہیونیستوں کی شکست کے 12 اسٹریٹجک عوامل کا جائزہ لیا ہے۔ الزیتونہ کے تجزیے میں عزالدین قسام بریگیڈ کے 7 اکتوبر کے آپریشن کو ایک تاریخی اور غیرمعمولی واقعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں فلسطینی مقاومت نے غزہ کے اطراف میں صہیونی بستیوں اور فوجی اڈوں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں صہیونی فوجی اور شہری قیدی بنائے گئے، جبکہ 1200 سے زائد صہیونی ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد صہیونی حکومت نے غزہ میں وسیع پیمانے پر نسل کشی کا آغاز کیا، جو 15 ماہ تک جاری رہی۔ اس دوران غزہ کی بنیادی انفراسٹرکچر، تعلیمی و طبی مراکز اور رہائشی علاقے مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے۔ اس بربریت کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی شہید، زخمی یا لاپتہ ہوئے، جبکہ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے۔

طوفان الاقصی میں صہیونی حکومت کی شکست کے اسٹریٹجک عوامل

1. اسرائیلی سیکیورٹی ڈاکٹرائن کی ناکامی کے علاوہ فوری اور موثر جواب دینے کی اسرائیلی دفاعی حکمت عملی کی کمزوری اور ناکامی کھل کر سامنے آئی۔

2. فلسطین، یہودیوں کی محفوظ پناہ گاہ کا نظریہ بے بنیاد ہونا ثابت ہوگیا۔ صہیونی نقطہ نظر میں سیکیورٹی حکومت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ اسرائیل نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے محفوظ ترین مقام فراہم کرے گا۔ تاہم مقاومت کے ہاتھوں اسرائیل کو کاری ضرب لگنے سے صہیونی منصوبے کی کمزوری واضح ہوگئی، جس کے نتیجے میں نہ صرف اسرائیل کی پرکشش حیثیت ختم ہوگئی بلکہ وہاں کے مقامی باشندے بھی فرار کی راہ سوچنے لگے۔

3. فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں اسرائیل کی شکست نے اسے مغربی ممالک کا مضبوط قلعہ اور مشرق وسطی میں امریکہ کی “پولیس فورس” ہونے کا گمان ختم کردیا جس کے نتیجے میں خطے میں صہیونی حکومت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔

4. طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صہیونی حکومت کے وحشیانہ چہرے کو دنیا نے مزید قریب سے دیکھا، جس کے نتیجے میں کئی عرب اور اسلامی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کی۔ کئی ممالک نے اپنی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے یہ ارادہ منسوخ کردیا۔

5. طوفان الاقصی آپریشن نے صہیونی حکومت کے مستقبل میں وجود کو مشکوک بنادیا ہے۔ اسی وجہ سے سابق اسرائیلی وزیر جنگ یوآو گالانت سمیت کئی اسرائیلی حکام نے اس جنگ کو وجود برقرار رکھنے کی جنگ قرار دیا۔ اس آپریشن نے اسرائیل کے داخلی سیاسی منظرنامے خصوصا لیکود پارٹی کو عدم استحکام سے دوچار کردیا۔

6. طوفان الاقصی عرب قوم و امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ بن گیا۔ اس آپریشن نے ثابت کردیا کہ مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں کی آزادی ممکن ہے۔ بہت سے لوگوں کو صہیونی حکومت کی طاقت کے کھوکھلے پن کا ادراک ہوا اس طرح طوفان الاقصی نے دیگر اقوام کے دلوں میں بھی امید کی روشنی ایجاد کی۔

7. قبلہ اول کو امت مسلمہ کی اولین ترجیح بنادیا۔ طوفان الاقصی نے ایک بار پھر مسجد الاقصی اور بیت المقدس کو فلسطین، عرب اور اسلامی دنیا کی عوامی رائے عامہ میں مرکزی حیثیت دے دی۔

8. مسلح مزاحمت کی قانونی حیثیت اور مؤثریت کو تقویت دی۔ یہ آپریشن قابض صہیونیوں کے خلاف مسلح مزاحمت کے جواز کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ثابت ہوا۔ علاوہ ازین مصالحت اور سودے بازی کی پالیسیوں کی ناکامی کو بھی ثابت کیا۔

9. طوفان الاقصی نے صہیونی منصوبے کی ناکامی اور فلسطینی عوام کی استقامت کو ثابت کیا۔ طوفان الاقصی نے یہ حقیقت آشکار کردی کہ 75 سالہ صہیونی قبضہ بھی فلسطینی عوام کے حوصلے، مزاحمت اور انتفاضہ کو ختم نہیں کر سکا۔

10. طوفان الاقصی کے بعد عالمی سطح پر مغربی اقدار کی شکست کا اعتراف کیا گیا۔ اس آپریشن نے مغرب کے ان نام نہاد انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی حقیقت کو بے نقاب کردیا جو صہیونی حکومت کی حمایت میں کھڑے نظر آئے جبکہ فلسطینی مظلوم عوام کے حق میں لب کو جنبش تک نہ دے سکے۔

11. طوفان الاقصی کے نتیجے میں عالمی سطح پر صہیونی حکومت تنہا ہوگئی۔ اسرائیلی جارحیت نے اس کو دنیا بھر میں ایک ظالم، غاصب اور منفور حکومت میں بدل دیا جس کے باعث اس کے خلاف عالمی سطح پر مذمت اور بائیکاٹ کی لہر میں اضافہ ہوا۔

12. 7 اکتوبر کے واقعے کے بعد فلسطین اور مزاحمت کے ساتھ عالمی یکجہتی میں اضافہ ہوا۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد دنیا کے مختلف خطوں میں فلسطینی مزاحمت کے ساتھ یکجہتی کی ایک نئی لہر اٹھی، خاص طور پر نوجوان طبقہ، طلباء اور مغربی حلقوں نے فلسطین کے حق میں مظاہرے اور آوازیں مزید بلند کیں۔

طوفان الاقصی میں فلسطینیوں کے نقصانات

1. غزہ

471 دنوں پر محیط مسلسل اور وحشیانہ صہیونی حملوں کے نتیجے میں 47487 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں سے 70 فیصد خواتین اور بچے تھے۔ جبکہ 44 افراد غذائی قلت اور اسرائیلی محاصرے کے باعث شہید ہوئے۔ شہداء میں 17881 بچے جبکہ 12316 خواتین شامل تھیں۔ 1155 طبی عملے کے افراد اور 94 سول ڈیفنس کارکنان بھی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے۔ 205 صحافی صہیونی حملوں میں شہید ہوئے۔ 111588 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 12700 کو فوری طبی امداد کے لیے غزہ سے باہر لے جانے کی ضرورت تھی۔ 14 ہزار سے زائد فلسطینی لاپتہ ہو گئے۔

صہیونیوں نے 220 پناہ گزین کیمپوں پر حملہ کیا۔ حملوں اور پابندیوں کے باعث 2136026 افراد مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔ 60 ہزار حاملہ خواتین کی جانوں کو طبی سہولیات کی کمی کے باعث خطرات لاحق ہوگئے۔ 350000 دائمی مریض ادویات کی کمی کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہوئے۔

تعلیمی ادارے اور افراد بھی صہیونی حملوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ 150 سے زائد محققین اور یونیورسٹی پروفیسرز، 12800 طلبہ و طالبات، اور 760 اساتذہ شہید ہوئے۔ 21320 طلبہ زخمی ہوئے۔

صہیونی فوج نے 100 ہزار ٹن دھماکہ خیز مواد غزہ پر برسایا، جو تقریباً 6 ایٹمی بموں کے برابر تھا۔ 170000 گھروں کو شدید نقصان پہنچا جبکہ 200000 گھروں کو جزوی نقصان ہوا۔ 216 سرکاری دفاتر، 1661 تعلیمی مراکز، 1129 مساجد اور 3 گرجا گھر تباہ کر دیے گئے۔ 206 تاریخی مقامات، 19 قبرستان، 34 ہسپتال، 80 طبی مراکز اور 191 ایمبولینس گاڑیاں اسرائیلی حملوں میں نشانہ بنیں۔ یہ سب کچھ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہوا، مگر عالمی برادری نے محض تماشائی کا کردار ادا کیا۔

2. غرب اردن 

طوفان الاقصی آپریشن کے بعد اسرائیل نے غرب اردن کو مکمل طور پر محاصرے میں لے لیا اور وہاں مقیم فلسطینیوں پر وحشیانہ حملے شروع کر دیے۔ صہیونی حملوں میں 908 فلسطینی شہید اور 6700 سے زائد زخمی ہوئے۔  4630 فلسطینیوں کو جبری بے گھر کر دیا گیا۔ اس دوران مقاومت کے حملوں میں 23 صہیونی ہلاک ہوئے جن میں 16 فوجی شامل تھے۔ صہیونی حکومت نے 1600 حملے کیے۔

3. صہیونی حکومت کے جانی نقصانات

اسرائیل نے 7 اکتوبر کے حملے میں 1200 سے زائد ہلاکتوں کا اعتراف کیا۔ ہلاک ہونے والوں میں 845 صہیونی آبادکار، 328 فوجی افسران اور سپاہی، 57 پولیس اہلکار اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی “شاباک” کے 10 ایجنٹس شامل تھے۔ اسرائیلی وزارت صحت کے مطابق 5431 صہیونی زخمی ہوئے۔

اسرائیلی امور کے ماہر محمد مصطفی کے مطابق طوفان الاقصی میں اسرائیلی افسران کی ہلاکتوں کا تناسب صہیونی جنگی تاریخ میں بے مثال ہے۔ یہ اعداد و شمار اسرائیل کی ناقابل تلافی شکست اور کمزوری کو واضح کرتے ہیں، جو کہ طوفان الاقصی آپریشن کے اسٹریٹجک اثرات کا ایک اور ثبوت ہے۔

4. معاشی نقصانات

طوفان الاقصی آپریشن نے اسرائیلی معیشت کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ اسرائیلی کرنسی شیکل کی قدر 2012 کے بعد اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اسرائیلی مرکزی بینک نے 30 ارب ڈالر کی گرانٹ منظور کی تاکہ ڈالر کی بڑھتی طلب پر قابو پایا جا سکے لیکن یہ حکمت عملی ناکام رہی۔

ریزرو فورسز کی طلب نے اسرائیلی صنعتی شعبے کو مفلوج کردیا جس کی وجہ سے متعدد کارخانے بند ہوگئے۔ مقبوضہ علاقوں میں عدم تحفظ میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں یہودی آبادکاروں کی بڑی تعداد نے اسرائیل چھوڑنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ سیکورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے سیاحتی آمدنی مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ فوجی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ دسمبر 2023 میں اسرائیلی پارلیمنٹ نے جنگی اخراجات کے لیے 7 ارب ڈالر مختص کیے۔ 2023 کے دوران صہیونی حکومت کے مطابق جنگی ضروریات 7.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جبکہ اسرائیلی وزارت جنگ نے اس رقم کو 18 ارب ڈالر سے زائد قرار دیا۔ 2024 میں اسرائیلی کابینہ نے 15 ارب ڈالر کا اضافی فوجی بجٹ منظور کیا۔

صہیونی اخبار یدیعوت آحارونوت کے مطابق جنوری 2025 تک غزہ میں جاری جنگ کے اخراجات 42 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔ یہ رپورٹ اسرائیلی فوج کے اقتصادی مشیر جیل بنحاس اور وزارت جنگ کے بجٹ شعبے کے سربراہ نے جاری کی۔ یہ معاشی نقصانات واضح کرتے ہیں کہ طوفان الاقصی آپریشن نے نہ صرف اسرائیل کی عسکری حیثیت کو نقصان پہنچایا بلکہ اس کی معیشت پر بھی کاری ضرب لگائی جس کے اثرات آنے والے برسوں تک برقرار رہیں گے۔

حاصل سخن

غزہ جنگ میں اسرائیل اپنے تمام اعلانیہ اور غیر اعلانیہ اہداف کے حصول میں ناکام رہا۔ وحشیانہ قتل عام اور تباہی کے تمام ممکنہ طریقے اپنانے کے باوجود اسرائیل فلسطینی عوام اور مزاحمتی گروہوں کی بہادری اور مقاومت کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ طوفان الاقصی آپریشن نے ثابت کردیا کہ فلسطینی مقاومت علاقائی اور بین الاقوامی دشمنوں پر اپنی شرائط مسلط کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ آپریشن نہ صرف فلسطین کے مسئلے کو دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بنانے میں کامیاب رہا بلکہ طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کے سیکیورٹی ڈھانچے کو بھی مکمل طور پر کمزور ثابت کردیا۔ علاوہ ازیں 7 اکتوبر کی یہ کاروائی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی تمام کوششوں کی ناکامی کا سبب بھی بنی۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *