مانک راؤ کوکاٹے اور ان کے بھائی کے خلاف 1995 میں دستاویزات سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے آج سے 30 سال قبل کسی دستاویز سے چھیڑ چھاڑ اور دھوکہ دہی کی۔


مہاراشٹر کے وزیر زراعت مانک راؤ کوکاٹے کیے لیے مشکلات میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب عدالت نے انھیں ایک معاملے میں 2 سال قید کی سزا سنا دی۔ اجیت پوار گروپ کے این سی پی لیڈر مانک راؤ اور ان کے بھائی سنیل کوکاٹے کو ناسک ضلع کورٹ نے 2 سال قید کے ساتھ ساتھ 50 ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔
مانک راؤ کوکاٹے اور ان کے بھائی کے خلاف 1995 میں دستاویزات سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے آج سے 30 سال قبل کسی دستاویز سے چھیڑ چھاڑ اور دھوکہ دہی کی۔ سابق وزیر تکارام دگھولے نے ان کے خلاف عرضی داخل کی تھی۔ اس کے بعد اب ناسک ضلع کورٹ نے مانک راؤ کوکاٹے کے خلاف فیصلہ سنایا ہے۔
مانک راؤ کوکاٹے مہاراشٹر کے مشہور لیڈر ہیں۔ وہ سنّر سے رکن اسمبلی ہیں۔ 67 سالہ مانک راؤ اپنے تعلیمی ریکارڈ کے مطابق گریجویٹ پروفیشنل ہیں۔ ان کے پاس مجموعی طور پر 48.4 کروڑ روپے کی ملکیت ہے، جس میں 17.3 کروڑ روپے کی منقولہ اور 31.1 کروڑ روپے کی غیر منقولہ ملکیت ہے۔
مانک راؤ کوکاٹے نے سیاسی دنیا میں بہت کم عمر میں ہی قدم رکھ دیا تھا۔ انھوں نے کانگریس سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔ کانگریس کے بعد انھوں نے شرد پوار کی این سی پی کا دامن تھام لیا تھا۔ جب این سی پی نے انھیں سنّر اسمبلی حلقہ سے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا تو انھوں نے پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیا اور شیوسینا میں شامل ہو گئے۔ شیوسینا کے ٹکٹ پر انھوں نے سن(ر سے 1999 اور پھر 2004 کے انتخاب میں جیت حاصل کی۔ پھر وہ شیوسینا سے کانگریس میں چلے گئے۔ اس کے بعد کانگریس کے ٹکٹ پر 2009 میں انھوں نے ایک بار پھر اس سیٹ پر اپنی جیت کا سلسلہ بنائے رکھا۔ 2014 میں وہ بی جے پی میں چلے گئے اور اس بار انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں انھوں نے ناسک سیٹ سے بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑا اور وہ شیوسینا کے امیدوار سے ہار گئے۔ اسی کے بعد وہ ایک بار پھر این سی پی میں شامل ہو گئے تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔