
نئی دہلی: کانگریس قائد کنہیا کمار نے ہفتہ کے دن حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ طلبا کی بڑھتی خودکشیوں کے مدنظر ملک میں مختلف کوچنگ انسٹی ٹیوٹس کو ریگولیٹ کرے۔
انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں یوپی ایس سی‘ میڈیکل اور انجینئرنگ امتحانات کی تیاری کرانے والے خانگی کوچنگ انسٹی ٹیوٹس کی باڑھ آئی ہوئی ہے کیونکہ سرکاری انسٹی ٹیوٹس کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ گزشتہ چند دن سے خبریں آرہی ہیں کہ ڈاکٹرس اور انجینئرس بنانے کا دعویٰ کرنے والے کوچنگ انسٹی ٹیوٹس طلبا سے فیس وصول کرنے کے بعد غائب ہورہے ہیں۔
ملک میں جب بھی ایسا ہوتا ہے تو حکومت کو اس کی ذمہ داری لینی چاہئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ طلبا اور عام آدمی‘ حکومت اور مارکٹ کے بیچ پس رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے خواہش کی کہ وہ ملک میں سرکاری اداروں کی حالت بہتر بنائے۔ کنہیا کمار نے الزام عائد کیا کہ آج ملک میں خواب بیچے جارہے ہیں۔ کوچنگ انسٹی ٹیوٹس کی بھرمار ہے کیونکہ سرکاری نظام کی حالت بے حد کمزور ہے۔
کانگریس قائد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہر ایک گھنٹہ میں 2 اور ہر 24 گھنٹے میں تقریباً 28 طلبا خودکشی کررہے ہیں۔ کسانوں کی خودکشی کے لئے جس طرح سسٹم ذمہ دار ہے وہی سسٹم طلبا کی خودکشی کے لئے بھی ذمہ دار ہے۔ سسٹم طلبا کو ’پریشر کوکرس‘ بنارہا ہے۔ ہر روزخواب بیچے جارہے ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ نشستیں کتنی ہیں؟ صاف و شفاف طریقہ سے امتحان کیسے ہوگا؟ ملازمت کے کتنے مواقع نکلیں گے؟ ایسے سوالات پر کوئی بات چیت نہیں ہوتی۔ کنہیاکمار کے بموجب روزگار فراہم کرنے کے نام پر ملک میں صرف کوچنگ انسٹی ٹیوٹس کھل رہے ہیں جہاں ماں باپ سے بھاری فیس لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک میں سرکاری اداروں کو بہتر بنایا جائے۔ آئی اے ایس عہدیداران‘ انجینئرس اور ڈاکٹرس بنانے کا بزنس کرنے والوں کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ساری مخلوعہ جائیدادیں صاف و شفاف طریقہ سے پر کی جائیں۔
کوچنگ سنٹرس میں نوجوانوں کے استحصال کے الزام پر این ایس یو آئی انچارج کنہیا کمار نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کسی نوکری کے لئے تقریباً 100 جائیدادیں نکلتی ہیں تو لاکھوں امیدوار اس کے لئے اپنی قسمت آزماتے ہیں۔ وہ کوچنگ سنٹرس سے مدد لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعض اوقات دکھایا جاتا ہے کہ بعض نوجوانوں کو ایک کروڑ کا پیکیج مل رہا ہے تاکہ دوسرے نوجوانوں کو کوچنگ سنٹرس کی طرف راغب کیا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کتنے نوجوانوں کو ایسا پیکیج ملتا ہے۔