اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے حکم پر جمعیۃ نے نینی تال ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔
![مولانا ارشد مدنی](https://media.assettype.com/qaumiawaz%2F2022-10%2F760fda63-4a90-4148-8833-1a0f24e3fa3d%2FWhatsApp_Image_2022_10_31_at_6_07_53_PM.jpeg?rect=0%2C0%2C743%2C418&auto=format%2Ccompress&fmt=webp)
![مولانا ارشد مدنی](https://media.assettype.com/qaumiawaz%2F2022-10%2F760fda63-4a90-4148-8833-1a0f24e3fa3d%2FWhatsApp_Image_2022_10_31_at_6_07_53_PM.jpeg?rect=0%2C0%2C743%2C418&auto=format%2Ccompress&fmt=webp&w=1200)
رواں سال جنوری ماہ میں اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ نافذ ہو گیا۔ اس قانون کی مخالفت میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے حکم پر جمعیۃ نے آج نینی تال ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی اور اتراکھنڈ کے چیف جسٹس کے سامنے اس کا ذکر کیا۔ عدالت اس معاملے میں اسی ہفتہ سماعت کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے اس اہم معاملے کی پیروی عدالت میں کریں گے۔
مولانا مدنی نے اس عرضی پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملک کے آئین، جمہوریت اور قانون کے راج کو بنائے رکھنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے اس امید کے ساتھ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا۔ کیونکہ عدالت ہی ہمارے لیے آخری سہارا ہے۔‘‘ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ہم شریعت کے خلاف کسی بھی قانون کو قبول نہیں کرتے ہیں، مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن اپنی شریعت اور مذہب سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ یہ مسلمانوں کے وجود کا سوال نہیں ہے بلکہ ان کے حقوق کا سوال ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یکساں سول کوڈ قانون لا کر موجودہ حکومت مسلمانوں کو آئین کے ذریعہ فراہم کیے گئے حقوق کو چھیننا چاہتی ہے۔ کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق جو ہمارے مذہبی قوانین ہیں وہ کسی انسان کے ذریعہ نہیں بلکہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ جو لوگ کسی مذہب کے ’پرسنل لا‘ پر عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے ملک میں پہلے سے ہی ’متبادل سول کوڈ‘ موجود ہے تو پھر یکساں سول کوڈ کی کیا ضرورت ہے؟
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا آئین میں شہریوں کو فراہم کی گئی بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ انہوں نے آگے کہا کہ سوال مسلمانوں کے پرسنل لا کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولر آئین کو اس کی موجودہ حالات میں برقرار رکھنے کی ہے۔ کیونکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور آئین میں سیکولرازم کا معنیٰ یہ ہے کہ ملک کی حکومت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے اور ملک کے لوگ اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہیں، اس لیے یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے اور ملک کی اتحاد اور سالمیت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ مولانا مدنی کے مطابق یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے آرٹیکل 44 کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا ذکر آئین میں ہے، جب کہ آرٹیکل 44 کے رہنما اصولوں میں نہیں ہے، بلکہ یہ ایک صلاح ہے، لیکن آئین کے ہی آرٹیکل 25، 26 اور 29 کا کوئی ذکر نہیں ہے، جو شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور مسلم پرسنل لا شریعت ایپلی کیشن ایکٹ، 1937 کے ذریعہ تحفظ بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ویسے بھی، کسی بھی ریاست کو یکساں سول کوڈ بنانے کا حق نہیں ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اگر اس طرح سے دیکھیں تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس کے باوجود ہماری حکومت کہتی ہے کہ ایک ملک میں ایک قانون ہوگا اور ایک ایوان میں 2 قانون نہیں ہو سکتے۔ یہ عجیب و غریب معاملہ ہے۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ہمارے یہاں آئی پی سی۔ سی آر پی سی کی دفعات پورے ملک میں ایک جیسی نہیں ہے۔ ریاستوں میں ان کے شکلیں بدل جاتی ہیں۔ ملک میں گؤ کشی پر بھی ایک قانون نہیں ہے، جو قانون ہے وہ 5 ریاستوں میں نافذ نہیں ہوتے ہیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی سے قبل اور بعد میں جب بھی فرقہ وارانہ طاقتوں نے شریعہ قانون میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ہے تو جمعیت علماء ہند نے پوری طاقت سے اس کے خلاف لڑائی لڑی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حکومت کو شریعہ کے متعلق قانون بنانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ قانون جمعیت علماء ہند کی رہنمائی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکی جیسے شریعہ قانون اور شادی کو رد کرنا۔ ہندوستانی قانون میں کئی ایسی دستاویز ہیں جن میں جمعیت علماء ہند کا نام اور اس کی کوششوں کا ذکر ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے قانونی ریکارڈز میں شریعت بل کی تشکیل کے سلسلے میں جمعیت علماء ہند کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ ’’شریعت بل 1937 سے قبل روایتی قوانین ہی نافذ تھے، ان کی جگہ شریعت بل کو نافذ کرنے کے سلسلے میں جمعیت علماء ہند نے پرزور مطالبہ کیا جو کہ مسلمانوں کی واحد سب سے بڑی تنظیم ہے اور جمعیت علماء ہند کے مطالبے پر ہی شریعت بل 1937 کو منظور کیا گیا۔‘‘ اعتراضات اور وجوہات کا بیان (اسٹیٹمنٹ آف آبجیکٹس اینڈ ریزنس پیج-1) اسی طرح 1939 کی شادی کے خاتمے کے بل کے معاملے میں، ہندوستان کی قوانین میں درج ذیل جملہ ملتا ہے: ’’یہ قانون جمعیت علماء ہند کی رائے (اوپینین) پر منظور کیا جا رہا ہے۔‘‘ (مقننہ کی بحث ڈیبیٹ آف لیجسلیچر پیج-9) ہندوستان کے آئین میں جمعیت علماء ہند کے علاوہ کسی دیگر جماعت کا ذکر نہیں ہے۔ جو لوگ آئین میں مذکور اہمیت کو نہیں جانتے وہ آج اپنی مرضی کے مطابق اس کی تشریح کرتے ہیں۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا شہریوں کی مذہبی آزادی کو محدود کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ وارانہ طاقتیں نئے نئے جذباتی اور مذہبی مسائل اٹھا کر ملک کے اقلیتوں خاص طور سے مسلمانوں کو مسلسل خوف اور انتشار میں مبتلا رکھنا چاہتی ہیں اور ملک کے آئین کو آگ لگانا چاہتی ہیں، لیکن مسلمانوں کو کسی بھی قسم کے خوف و انتشار کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک ملک میں انصاف پسند لوگ باقی ہیں، ان کو ساتھ لے کر جمعیت علماء ہند ان طاقتوں کے خلاف اپنی لڑائی کو جاری رکھے گی، جو نہ صرف ملک کی اتحاد اور سالمیت کے لیے بڑا خطرہ ہے بلکہ نفرت کی بنیاد پر معاشرے کو تقسیم کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ اس ملک کے خمیر میں ہزاروں سالوں سے نفرت نہیں بلکہ پیار شامل ہے۔ کچھ وقت کے لیے نفرت کو ضررو کامیاب کہا جا سکتا ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ آخری اور فیصلہ کن جیت پیار کی ہی ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔